تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     23-10-2024

الیکشن کمیشن کی مشکلات

مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو 12 جولائی کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا۔ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کی اس وضاحت سے الیکشن کمیشن بظاہر مشکل میں دکھائی دیتا ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے آٹھ جج صاحبان نے اپنی دوسری وضاحت میں کہا ہے کہ مختصر فیصلہ جاری ہونے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیم فیصلے کو غیر مؤثر نہیں کر سکتی اور الیکشن کمیشن بغیر مزید وضاحت طلب کیے ہمارے حکم نامے پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے۔ چونکہ اب تفصیلی فیصلہ بھی جاری ہو چکا ہے‘ لہٰذا اب مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور تفصیلی فیصلے میں تمام تر قانونی و آئینی نکات کا احاطہ کردیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے ججز نے وضاحت میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک متفرق درخواست میں استدعا کی تھی کہ مختصر حکم نامہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 166 اور 104 کے تحت ہے۔الیکشن کمیشن نے 27 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کو مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے 14 ستمبر کی وضاحت کو بھی چیلنج کیا تھا اور فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔اب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اس کیس میں نیا بینچ بنانے کی پابند ہے۔
دیکھا جائے تو یہ معاملہ دونوں اداروں کے درمیان معلق ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ نظر انداز کرتا ہے تو اس کے جو اثرات سامنے آسکتے ہیں الیکشن کمیشن ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ گوکہ حکومت الیکشن کمیشن کی پشت پر کھڑی ہے لیکن جب سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے اپنی اتھارٹی کو منوانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 190 کا سہارا لیا تو الیکشن کمیشن کو لامحالہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کی دوسری وضاحت سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اپنی قانونی ٹیم کی سفارشات پر مخصوص نشستیں دیگرسیاسی جماعتوں میں تقسیم کرتا ہے تو سپریم کورٹ اسے فیصلے سے انحراف اور توہین قرار دے سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے توامکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے تو ہین عدالت کا نوٹس جاری کیے جانے میں کسی توقف سے کام نہیں لیا جائے گا۔ 12 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے اور مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کی صورت میں نہ صرف چیف الیکشن کمشنر بلکہ سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم بھی توہینِ عدالت کی زد میں آ سکتے ہیں‘ اس سے ملک میں آئینی بحران مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے وژن کو بروئے کار لاتے ہوئے جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس وقت کی اطلاعات ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔
اُدھر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سمیت دو اقلیتی ججوں نے مخصوص نشستوں پر اپنے اضافی اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ کیس کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں اس لیے اس پر عملدرآمد 'بائنڈنگ‘ نہیں اور فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہینِ عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی فیصلے میں 14 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے اور توقع ہے کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پر غور کر کے انہیں درست کریں گے۔انہوں نے لکھا کہ پاکستان کا آئین تحریری اورآسان زبان میں ہے لہٰذا امید کرتا ہوں کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں کی تصحیح کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کے مطابق پاکستان کو چلائیں۔
دوسری جانب 26ویں آئینی ترمیم کی بات کی جائے تو دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہو نے اورصدرِ مملکت کے دستخط کے بعد اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد بطور آئین نافذ العمل ہو گئی ہے۔ بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں‘ آج ایک تاریخی دن ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم سے عوام کو عدالتوں سے جلد انصاف ملے گا‘ یہ ترمیم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مؤثر ثابت ہوگی۔ویسے تواس آئینی ترمیم کے لیے بظاہر مسلم لیگ (ن)بہت بھاگ دوڑ کر رہی تھی لیکن اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے توقع سے زیادہ متحرک کردار ادا کیا جبکہ حکمران جماعت کے قائد میاں نواز شریف ڈرائنگ روم سیاست تک محدود رہے اور کوئی زیادہ متحرک کردار ادا کرتے دکھائی نہیں دیے۔بلاول بھٹو زرداری جس انداز سے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سرگرم تھے اس نے ان کے سیاسی قد کاٹھ کو بلند کیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری کے اس متحرک کردار کے بعد خیال کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست کی معراج کا راستہ ہموار کر لیا ہے اور ہو سکتا ہے ۔
آئینی ترامیم کی منظوری تک مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنی رہی۔ اس ساری صورتحال میں انہوں نے نواب زادہ نصراللہ خان کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں حیدر آباد کے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کے بارے میں جو اظہارِ خیال کیا وہ مرکز نگاہ بنا تھا۔ ان کے خیالات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے اپنی تقریر میں کھل کر جمہوری اداروں کو درپیش مشکلات کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے اور وہ اسی محدود سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کو ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ جمہوریت اور سیاست کو اتفاقِ رائے آگے بڑھایا جائے۔ مقتدر حلقوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ آئینی عدالت کی تشکیل کا مقصد صرف سیاسی مفادات کا حصول ہی نہیں ججز کی کارکردگی کی جانچ پرکھ (Evaluation) بھی ہے۔
اُدھر گزشتہ ہفتے پنجاب کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے فیصلے سے فیصلہ کرنے کی حکومتی اہلیت عیاں ہوئی ہے۔ایک ایسے معاملے کو ہوّا بنا کر اُچھالا گیا جس کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ حکومت کے بقول ایسی اطلاعات تھیں کہ کچھ سیاسی عناصر طلبہ کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس سے ملک میں انتشار کا اندیشہ ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اتھارٹی کمزور پڑتی ہے تو اس طرح کی خاموش سازشوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جب فیلڈ مارشل ایوب خان مارچ 1969ء میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے آخری کوششیں کر رہے تھے تو لاہور کی ایک سیاسی شخصیت ملک غلام نبی نے مخصوص ایجنڈے کے تحت صدر ایوب خان کو پوسٹروں کے ذریعے پیغامات پہنچائے کہ ملک کی اقتصادی قوت کو نقصان پہچانے کے لیے 22خاندانوں کے کارخانے نذرِ آتش کیے جائیں گے۔حکومت ان پوسٹروں کی وجہ سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ اسے تمام ادارے بند کرنا پڑگئے۔ اس لیے ہر معاملے میں سیاسی مفاد تلاش کرنے کے بجائے ملکی مفاد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سارے معاملے کو ہوّا بنا کر پیش کرنے کے بجائے خوش اسلوبی سے بھی حل کیا جا سکتا تھا تاکہ کسی تعلیمی ادارے کی ساکھ بھی متاثر نہ ہوتی اور افواہ سازی کی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں آ جاتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved