آپ اسے میری ثابت قدم ٹائپ حماقت سمجھ لیں کہ میں ہر بار پاکستان واپسی پر کسی بہتری کی امید اور توقع کر لیتا ہوں۔ یہ اور بات کہ ہر بار منہ کی کھاتا ہوں مگر بنیادی طور پر چونکہ میں ایک رجائی شخص ہوں اس لیے وقتی مایوسی کے باوجود دوبارہ سے انہی حماقت آمیز توقعات سے دل کو ڈھارس دیتا ہوں اور یہ توقع کرتا ہوں کہ شاید اس بار واپس جائو ں تو کچھ مختلف ہو جائے اور مجھے کہیں بہتری کے آثار دکھائی دے جائیں۔ ویسے بھی اچھی توقع لگانا کسی بری توقع سے ہزار درجہ بہتر ہے اور میں یہ بہتر متبادل اختیار کرتا ہوں۔
اس بار تقریباً ایک ماہ بعد واپس آیا تو گمان تھا کہ اگر کوئی اچھی خبر یا بہتری کی صورت دکھائی نہ بھی دی تو کم از کم کسی مزید خرابی کی خبر نہیں ملے گی۔ ایک انگریزی محاورہ ہے کہ ''No news is good news‘‘ یعنی کوئی خبر نہ آنا بھی ایک اچھی خبر ہے۔ کم از کم بندہ کسی بری خبر سے محفوظ رہتا ہے۔ مگر ہماری ایسی قسمت کہاں کہ اب اس درجے پر بھی فائز ہو سکیں کہ ہمیں کوئی مزید بری خبر نہ ملے۔ واپس آیا تو ایئرپورٹ پر اپنی پاکستانی سم کو فعال کر لیا۔ اس کا ڈیٹا آن کر دیا اور باہر منتظر اپنی بیٹی سے فون پر بات کرنے کے بعد وَٹس ایپ پر اپنے پیغامات کو دیکھنا چاہا تو باقی سب خیریت تھی لیکن ایک عدد وائس میسج اور دو دوستوں کے بھیجے ہوئے سکین شدہ پیغامات‘ جن میں ایک عدد یوٹیلیٹی بل کی ادائیگی کی رسید اور ایک عدد بینک میں رقم جمع کرانے کی رسید تھی‘کھل ہی نہیں پا رہی تھی۔ دونوں رسیدیں لوڈ ہی نہیں ہو رہی تھیں اور ان کے نیچے لوڈ کرنے کی نشاندہی کرنے والا دائرہ مسلسل گھومے چلا جا رہا تھا۔ میں نے گمان کیا کہ شاید میری غیر موجودگی کی وجہ سے پیچھے بل ادا کرنے میں کوئی تاخیر ہو گئی ہے جس کی وجہ سے موبائل ڈیٹا نہیں چل رہا یا ممکن ہے میرا ڈیٹا پیکیج ختم ہو گیا ہو مگر جب بل کی ادائیگی کی تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ فون کا بل تو بروقت جمع ہو چکا ہے اور رہ گئی ڈیٹا پیکیج کی بات تو فون بل کی ادائیگی کے بعد میں نے اس ماہ کے اپنے ڈیٹا پیکیج میں سے ایک بائٹ بھی استعمال نہیں کیا کہ میں تو ملک میں ہی نہیں تھا۔ خیال آیا کہ شاید وقتی طور پر میری فون آپریٹر کمپنی کے سسٹم میں کوئی خرابی آ گئی ہے اس لیے فی الوقت کوئی شے لوڈ نہیں ہو رہی۔ ان دونوں چیزوں کی کوئی اتنی ایمرجنسی نہیں تھی۔ اگر میں لمبے سفر کی وجہ سے ان دونوں رسیدوں کو پچھلے دو دن سے نہیں دیکھ سکا تو کون سی قیامت آ گئی جو اَب تھوڑی دیر مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ خیر ایئرپورٹ سے گھر پہنچا تو دونوں رسیدیں کھل گئیں اور بات آئی گئی ہو گئی۔
اگلے روز گھر سے نکلا تو ایک دوست کو ایک ضروری کاغذ بھیجنا تھا وہ سکین کرکے اسے بھجوانا چاہا تو وہی لوڈ ہونے کا مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ تنگ آکر اس دوست کو فون پر بتایا کہ میں اسے اس کا مطلوبہ کاغذ بھیجنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر خدا جانے میرے فون میں یا میرے نیٹ ورک کی آپریٹر کمپنی کے نظام میں کوئی خرابی ہے کہ کاغذ بھیجنا تو رہا ایک طرف‘ وہ تو لوڈ ہی نہیں ہو رہا۔ اس دوست نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں‘ نہ تو آپ کے فون میں کوئی خرابی ہے اور نہ ہی آپ کی نیٹ ورک کمپنی ہی کا کوئی مسئلہ ہے۔ حکومت نے حسبِ سابق وٹس ایپ وغیرہ کے پیغامات پر ''ڈَکا‘‘ لگا دیا ہے اور کوئی دستاویز بھی کسی ٹیلی فون نیٹ ورک پر آسانی سے لوڈ نہیں ہو رہی۔ پس آپ مسلسل کوشش کرتے رہیں‘ کسی بھی لمحے قدرت‘میرا مطلب ہے فون کا نیٹ ورک آپ پر مہربان ہو سکتا ہے اور آپ کا سکین شدہ کاغذ فارورڈ ہو سکتا ہے۔ پریشان ہونے‘غصہ کرنے‘کُڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اب آپ کو اس قسم کی صورتحال کا عادی ہو جانا چاہیے۔ اس ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن کا معاملہ اب اسی طرح چلے گا اور آپ کو سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔
میں نے اسے کہا کہ وہ جو مبینہ تین ارب ساٹھ کروڑ روپے لگا کر فائر وال والا ڈرامہ کیا تھا‘اس کے بعد تو صرف قابلِ اعتراض پوسٹس‘ پیغامات اور وڈیو وغیرہ اَپ لوڈ ہونے پر اس نظام نے چلنا تھا مگر گزشتہ دنوں جن بے بنیاد اور جھوٹی وڈیوز کے ذریعے صوبے کے پورے تعلیمی نظام کو مفلوج کیا گیا اور لاء اینڈ آرڈر کے سنگین مسئلے کے علاوہ جو توڑ پھوڑ اور ایک خاص تعلیمی گروپ کی املاک کو تباہ و برباد کیا گیا‘اس وقت یہ فائر وال کہاں تھی اور اگر آپ نے ضروری اور بے ضرر پیغامات کو ہی روکنا تھا تو پھر اس فائر وال والے خرچے اور ڈرامے کی کیا ضرورت تھی؟ میرا دوست کہنے لگا: اس کا بھلا میں کیا جواب دے سکتا ہوں‘ اس کا جواب تو خود حکومت بھی نہیں دے سکتی جو یہ سب کچھ کر رہی ہے۔
اگلے روز شاہ جی سے بات ہوئی تو وہ بتانے لگے کہ یہ معاملہ گزشتہ کئی روز سے چل رہا ہے اور اب تو سرکار اس حد تک دیدہ دلیر اور بے خوف ہو گئی ہے کہ اب میرین کیبل خراب ہونے کا بہانہ بھی نہیں بنا رہی اور انٹرنیٹ کی خرابی‘بندش‘رکاوٹ اور سست رفتاری پر نہ صرف کسی جوابدہی سے انکاری ہے بلکہ اب عوام نے بھی ان ساری خرابیوں کو تقریباً اسی طرح قبول کر لیا ہے جس طرح بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کو قبول کر لیا تھا۔ اب آپ لوگوں کے گھر میں 24 گھنٹوں میں سے گیس بمشکل چھ سات گھنٹے آتی ہے‘باقی سترہ اٹھارہ گھنٹے گیس کا نام و نشان نہیں ملتا مگر آپ اس پر نہ تو کوئی احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ اب یہی حال اس ملک میں انٹرنیٹ سروس کا ہے۔ سرکار جب چاہتی ہے اس کو بند کر دیتی ہے‘ جب دل کرتا ہے اس کی رفتار کم کر دیتی ہے۔ جب خیال آتا ہے اس کی کوئی کل دبا کر پیغام بھیجنے کی سہولت ختم کردیتی ہے اور وہ اس کیلئے نہ تو کسی کو جوابدہ ہے اور نہ ہی اس پر رتی برابر شرمندہ یا معذرت خواہ ہے۔ اب یہ معاملہ اسی طرح چلا کرے گا۔
میں نے کہا لیکن اس سلسلے میں ریگولیٹر کیا کر رہا ہے؟ آخر اس نظام میں عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے ریگولیٹر بھی ہے اور اس کا فرض یا ذمہ داری اور قیام کا بنیادی مقصد ہی اس نظام سے منسلک سروسز کو عوام تک بلا تعطل‘بلا رکاوٹ اور آزادانہ طور پر پہنچانا اور عوامی مفاد کا تحفظ کرنا ہے‘وہ کیا کر رہا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: اس ملک میں ریگولیٹر وغیرہ کا آزاد اور خود مختار ہونا محض ایک ڈرامہ ہے۔ جب سرکار اپنے پسندیدہ اور خادم ٹائپ افراد کا تقرر ان ریگولیٹرز کے منتظمین کے طور پر کرے گی تو پھر بھلا یہ ریگولیٹر عوام کے حقوق کا تحفظ کریں گے یا سرکار کا حکم بجا لائیں گے؟ آپ صرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) کو رو رہے ہیں‘اس ملک میں بیس کے لگ بھگ ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں۔ ان میں نیپرا‘ پیمرا‘ سنسر بورڈ‘ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی‘ نادرا‘ او جی ڈی سی‘ پی ایم ڈی سی‘ پی پی آر اے‘ این ایچ اے اور سب سے بڑھ کر الیکشن کمیشن آف پاکستان۔ آپ بتائیں ان میں کون سا ادارہ یا اتھارٹی سرکار کی خدمت کے بجائے عوام کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے؟ کس ادارے یا اتھارٹی کو چلانے کیلئے افراد کا انتخاب پسند اور وفاداری کے بجائے میرٹ پر ہو رہا ہے؟ جب اپنے پیاروں یا رشتہ داروں‘زور آوروں اور سیاسی وفاداروں کا تقرر ہوگا تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ اللہ مجھے معاف کرے مجھے تو ڈر ہے کہ چھبیسویں ترمیم کے بعد سنیارٹی کے بجائے پسند کے بندے کو چیف جسٹس بنانے سے کہیں سپریم کورٹ کو بھی ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا آغاز نہ ہو جائے۔
جب تک یہ پسند اور مرضی سے بندے لگانے کا نظام تبدیل نہیں ہوتا‘ انقلاب یا صبر اور برداشت کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں۔ یعنی یا پاس کر یا برداشت کر۔ اب آپ کے پاس برداشت کرنے کے علاوہ دوسرا متبادل کیا ہے؟ میں نہ صرف خاموش ہو گیا بلکہ انٹرنیٹ کے معاملے میں صبر بھی کر رہا ہوں اور برداشت بھی کر رہا ہوں۔ جب بندہ پاس نہ کر سکے تو پھر اس کے پاس برداشت کرنے کے علاوہ اور کیا رہ جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved