تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     25-10-2024

خطرہ یوں نہیں ٹلے گا

زَر کا ارتکاز ہو یا طاقت کا‘ دونوں ظلم‘ استبداد‘ آمریت اور مطلق العنانی کا موجب بنتے ہیں۔ ایسا صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ ان تمام ممالک میں ہوتا ہے جو ناکام ہو کر انتشار کا شکار ہیں یا اس اندھی کھائی کے کنارے ڈگمگا رہے ہیں۔ دولت اور سیاسی طاقت اگر کسی محدود طبقے کے ہاتھوں میں مرتکز ہوں تو وہ طبقاتی بھائی چارے کو مزید تقویت دے کر ریاست پر اپنے اقتدار اور قومی وسائل پر اپنی گرفت مزید پختہ کر لیتے ہیں۔ افسانوی باتیں نہیں‘ جو کچھ اس ملک میں گزشتہ نصف صدی سے ہو رہا ہے‘ اس کی افسوسناک تاریخ ہے۔ سیاسی اور ریاستی طاقت کے زور پر چند بڑے گھرانوں کے ساتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر دھڑے ان کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں۔ جس طرح بادشاہوں کو اپنی سلطنت کے دوام اور مؤثر حکمرانی کے لیے طاقتور اشرافیہ کی ضرورت تھی‘ اس طرح ہمارے ہاں بھی موروثی سیاسی گھرانوں کو ایسی اشرافیہ کی اعانت درکار ہوتی ہے۔ اس اشرافیہ کی انتخاب میں اہلیت‘ ایمان داری یا قابلیت کا کیا ذکر‘ مگر خفیہ لوٹ مار کے دھندے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ایسے اشخاص کو آپ نے دیکھا ہی ہے کہ سیاسی خصلتوں سے نواز کر اسمبلیوں‘ سینیٹ اور کابینہ کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے۔ آپ تھوڑا سا غور فرمائیں تو سب چہرے مہرے جو گزر گئے اور جنہوں نے ابھی گزرنا ہے‘ سب آپ کے ذہنوں میں نمایاں تصویروں کی طرح اُمڈ کر آجائیں گے۔ ہم نے کبھی کسی کا نام نہ لیا ہے اور نہ لیں گے‘ لیکن آپ جیسے ذہین لوگوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔
ہماری معیشت کا کوئی شعبہ شاید ہی ایسا ہو جہاں سیاسی کھاد کی زرخیری نے بہاریں نہ لگائی ہوں۔ وہ جو ایک مخصوص طبقہ انگریز اپنے درباریوں کا بنا کر ڈیڑھ سو برس تک حکومت کرتے رہے‘ وہ جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ قبائلی سرداروں اور سب سے بڑھ کر مخدوموں اور گدی نشینوں کی صورت ہمارے لیے چھوڑ گئے۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو بصیرت‘ قابلیت اور تاریخ اور سماجی حرکیات کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ جمہوریت اور آئین کی پاس داری کو مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے جاگیرداری اور نوابی نظام کا خاتمہ ضروری سمجھا۔ ہمارے ہاں تو چند ہی سالوں میں انگریز دور میں طفیلی کردار ادا کرنے والے اقتدار پر قابض ہو گئے۔ نوکر شاہی کے بڑے کل پرزے اور بعد میں وہ جو گھوڑوں کے شہسوار تھے‘ انہیں حسبِ ضرورت استعمال کرتے رہے۔ جاگیردار اشرافیہ کے لیے یہ بارگین سود مند تھی کیونکہ ریاستی طاقت کی سرپرستی کے بغیر صرف زمین کے زور پر اپنا اثر قائم رکھنا ان کے لیے مشکل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی طاقت اور اداروں کے پھیلاؤ اور پٹواری سے لے کر صوبائی اور مرکزی سیکرٹریوں کا عمل داخل عوام کی زندگی میں از حد بڑھ چکا ہے۔ اسی سرپرستی کا انتخابات میں بھی اہم کردار رہا ہے۔ ہم صرف کسی فارم نمبر کی بات نہیں کر رہے۔ یہ جنہیں ہم ترقیاتی فنڈ کہتے ہیں‘ کوئی ترقی ہو یا نہ ہو‘ سیاسی اشرافیہ کی دن دگنی‘ رات چوگنی ترقی ہم نے تو دیکھی ہے اور اگر آپ بھی اپنے ارد گرد کی خبر رکھتے ہیں تو آپ کو بھی معلوم ہوگا۔ بڑے شہروں میں محلات‘ گرد اُڑاتی گاڑیوں کی تعداد اور ان کا سائز‘ بیرونی ممالک میں جائیدادیں اور رہنے سہنے کا رنگ ڈھنگ ہماری اشرافیہ کا بڑے پیمانے پر تبدیل ہوا ہے کہ اکثر ذہن میں خیال اُبھرتا ہے کہ صنعتی انقلاب یورپ اور امریکہ میں نہیں‘ پاکستان میں آیا ہے۔ کاش یہاں کچھ سچ لکھنے اور سچ بولنے کی روایت رہتی تو آپ کو بتا سکتے کہ سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے کیا کچھ تھے اور اب سیاست کی کرشمہ سازی کی بدولت وہ کیا ہو چکے ہیں۔ پوری عمر مقدمات چلتے رہے‘ جب حریف تھے تو ایک دوسرے کے بارے میں کہتے تھے کہ شواہد کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اب نئے سیاسی بھائی چارے اور باہمی موج میلے نے انہیں ردی کے انبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ دیکھا نہیں کہ آتے ہی وہ قوانین بنائے کہ سب کچھ ایسے صاف ہوگیا جیسے ہم بچپن میں لکڑی کی تختی پر لکھتے تھے اور شام کو اسے پانی سے دھو کر دوبارہ صاف کر دیتے تھے۔ شکر ہے‘ سب کو انصاف مل گیا اور ایسا گوہرِ نایاب ملا کہ تاریخ میں نام رہے گا۔
عرض یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے پاس بے پناہ دولت‘ سیاسی طاقت کا ارتکاز اور عوامی خطرے سے بچاؤ کی تدبیر میں گزشتہ دس برسوں سے گہرا گٹھ جوڑ قائم ہوا ہے۔ اس وقت وہ جو عوامی خطرے کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ان کی بات نہیں کرتے‘ انہیں آٹھ ضرب دس فٹ کے محل میں عیش و عشرت کرنے کے لیے فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور ستون ہیں۔ ایک ہمارے کچھ نئے صنعتی گھرانے ہیں جنہوں نے زیادہ تر ان کی جگہ لے لی ہے جنہیں ایک عوامی پارٹی کے عوامی لیڈر نے صنعتوں کو قومیا کر تقریباً دیوالیہ کر دیا تھا۔ ان کے بنائے ہوئے بینک‘ صنعتیں اور مالیاتی ادارے اپنے من پسند نئے سرمایہ داروں کے حوالے کر دیے۔ راز داری کی بات ہے‘ وہ فرنٹ مین ہیں‘ حصہ داری پر کام چلتا ہے۔ وہ بھی صنعت کار ہیں جنہوں نے سیاسی طاقت کے بغیر اپنی اہلیت‘ خاندانی سرمایے اور مغرب کے سرمایہ داروں کے ساتھ شراکت داری سے اپنے کاروبار کو ترقی دی ہے اور آج ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی گھرانوں کی سرپرستی میں اُبھرنے والے سرمایہ دار اور صنعت کار کا کردار بالکل مختلف ہے کہ وہ اپنی دولت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سیاسی گھرانوں پر بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اور پھر ان پر فیضان کی بارش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
دوسرے نئے بالائی طبقے میں رئیل اسٹیٹ کے کرتا دھرتا شامل ہیں جن کی دولت اور سیاسی اثر و رسوخ سے اب کون واقف نہیں۔ سندھ کے ہاریوں کی ہزاروں ایکڑ زمینوں سے لے کر راولپنڈی کے دیہاتیوں کے آبائی رقبوں کو ہتھیانا اور جدید طرز کے شہر آباد کرنا سیاسی سہولت کاری کے بغیر کیسے ممکن تھا۔ مشرف دور میں پنجاب کے ایک وزیراعلیٰ نے غریبوں کی زمینیں ان کے حوالے کرکے جو دھن کمایا‘ اس نے دوسرے آنے والوں کے لیے راستہ کھول دیا۔ کسی نے کھربوں بنانے تھے تو اربوں کی سرمایہ کاری میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ ہماری مڈل کلاس بھی خوش ہو گئی کہ اعلیٰ معیار کے رہائشی علاقے میں سکونت پذیری اب مشکل نہیں تھی۔ میڈیا کے کچھ لوگوں نے بھی رازداری رکھنے کے لیے اپنا حصہ بقدر اثر وصول کیا۔ کچھ اور احباب کی بات ہم نہیں کر سکتے۔ اس نئی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ میں میڈیا اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ شامل ہے۔ ہمارے حکمران طبقات نے سیاسی طاقت کے ارتکاز اور اس کے ذریعے ارتکاز کا ہنر اچھی طرح سیکھ لیا ہے۔ ہمارے سیاسی گھرانے‘ میڈیا اور زیر سرپرستی اُبھرتے ہوئے سرمایہ دار اور جاگیر دار اب ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ ہم نوکر شاہی‘ پارلیمان اور میڈیا کو زیر کرنے میں طاقت کے مظاہر تو ایک عرصہ سے دیکھ رہے تھے‘ اب یہ دائرہ دو آخری اداروں میں سے عدلیہ تک بڑھ چکا ہے۔ جس طرح بھی انتخابات کرائیں جائز‘ جو بھی قوانین بنائیں جائز‘ جو بھی ترامیم کریں جائز‘ جو انہوں نے مبینہ طور پر بدعنوانی کی وہ بھی جائز‘ جو باہر کے بینکوں اور کمپنیوں میں سرمایہ ہے وہ بھی جائز‘ خطرے کی بات یہ ہے کہ طاقت کے ذریعے خطرے کو کچھ دیر کے لیے تو دبایا جا سکتا ہے‘ یہ کبھی ٹل نہیں سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved