حکومت تقریباً ایک ماہ کی بھاگ دوڑ اور جدوجہد کے بعد 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی اور صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھی نوٹیفائی کر دیا گیا جس کی سفارش پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان نامزدگی عمل میں آ چکی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم‘ جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے سٹرکچر اور اختیارات‘ خصوصاً چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں جو تبدیلی کی گئی ہے‘ کی منظوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے ہی ہو سکتی تھی‘ جس کے لیے حکومت کو بڑی تگ و دو کرنا پڑی کیونکہ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت نہیں تھی۔ اس لیے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم‘ ان کی کابینہ اور پیپلز پارٹی والے بڑی خوشی اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اس ترمیم کی منظوری سے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا خواب پورا ہو ا ہے۔ اس ترمیم کی منظوری سے جناب وزیراعظم کی اپنی بھی ایک دیرینہ حسرت پوری ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مقتدرہ کی جتنی حمایت بانی پی ٹی آئی کو حاصل رہی ہے‘ اگر اس سے آدھی بھی ہماری حکومت کو حاصل ہوتی تو ہم پاکستان کو ترقی کی لامتناہی بلندیوں تک لے جاتے۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تو انہیں مقتدرہ کی آدھی نہیں بلکہ پوری حمایت حاصل ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اب پاکستان کیسے اور کب ترقی کی لامتناہی بلندیوں تک پہنچتا ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے منظوری سے اس کا راستہ صاف ہو چکا ہے‘ لیکن کیا آئینی ترمیم کی منظوری سے واقعی حکومت کے راستے میں موجود سب رکاوٹیں دور ہو جائیں گی؟ آثار بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کرنے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی سے بائیکاٹ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے سینئر رہنما حامد خاں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلا برادری جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ کسی اور کو پاکستان کا چیف جسٹس تسلیم نہیں کرے گی۔ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی بھی 26ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو جب بھی دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وہ 26ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پرانے طریقے کو بحال کر دے گی۔ لیکن چونکہ 26ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا ہے‘ لہٰذا آئین میں ترمیم کے جو قانونی اور آئینی تقاضے ضروری سمجھے جاتے ہیں وہ پورے کر لیے گئے ہیں‘ اس لیے اس ترمیم کو ریورس کرنا بہت مشکل ہے۔ رہا اس کے خلاف تحریک چلانے کا سوال تو حکومت میں شامل یا اس کی حامی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بھی اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن اور ان کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) کا خاص طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے آئینی ترمیم کے پہلے مسودے پر مولانا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہوں نے اسے مسترد کر تے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت اور پی ٹی آئی ایک مشترکہ مسودہ پیش کریں گی مگر یہ مشترکہ مسودہ پیش نہ ہو سکا کیونکہ پی ٹی آئی کسی ترمیم کے حق میں نہیں تھی اس کی واحد دلچسپی مولانا کو حکومت کا ساتھ دینے سے روکنا تھا تاکہ ترمیم کی منظوری کے لیے درکار ووٹوں کی تعداد حکومت کو حاصل نہ ہو سکے۔ لیکن حکومت مولانا کے اعتراضات کو دور کر کے نئے مسودے پر ان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور یوں دونوں ایوانوں میں مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ رہا مسئلہ ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا تو اس ضمن میں بھی حالات ترمیم کی مخالفت کرنے والوں کے حق میں نہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ حکومت نے اس ترمیم کی منظوری میں تمام قانونی اور آئینی تقاضے پورے کیے ہیں‘ اس لیے قانونی اور آئینی بنیادوں پر اس کی مخالفت میں کوئی تحریک مؤثر اور کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دوسرا‘ حکومت پر یہ الزام بھی عائد نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت نے دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً ان جماعتوں جنہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہے‘ سے مشاورت نہیں کی۔ تحریک انصاف بھی اس مشاورتی عمل کا حصہ رہی ہے۔ گوکہ چیف جسٹس کا نام تجویز کرنے کے لیے 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جو خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی‘ پی ٹی آئی نے اس کا بائیکاٹ کیا‘ مگر پی ٹی آئی مشاورتی عمل کا بدستور حصہ ہے۔
پی ٹی آئی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف تحریکِ مزاحمت کی کامیابی کے لیے وکلا برادری پر زیادہ انحصار کرے گی کیونکہ بیشتر سینئر وکلا اور کچھ وکلا تنظیموں نے اس ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے مگر عوام کی طرح وکلا برادری بھی اس پر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وکلا کی بعض مرکزی تنظیموں مثلاً پاکستان بار کونسل کی جانب سے ماضی میں کئی بار اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور چیف جسٹس کی تقرری کے عرصہ دراز سے رائج طریقے میں تبدیلی اور پارلیمانی اوور سائٹ (Oversight) کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس ترمیم کے خلاف وکلا تحریک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی‘ تاہم اس سے ملک میں سیاسی بے یقینی‘ احتجاجی جلسے اور جلوسوں کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ہار یا جیت کا فیصلہ بڑی تاخیر سے ہو گا اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور بداعتمادی کی فضا قائم رہے گی۔ سیاسی عدم استحکام‘ محاذ آرائی اور عدم برداشت کے اس ماحول میں حکومت اور مقتدرہ کے ایک پیج پر ہونے کے باوجود قومی ترقی کی وہ بلندیاں حاصل نہیں ہو سکیں گی جن کا خواب وزیراعظم شہباز شریف دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چند ماہ سے معاشی شعبے میں حاصل غیرمعمولی اختیارات سے حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیاسی تنازعات کو سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کو اس وقت انتہائی اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں کی امداد سے معاشی شعبے میں استحکام یا پیش رفت سے حکومت کے آئینی اور قانونی جواز پر سوال کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ حالات کو مزید خراب کرنے کی صورت میں برآمد ہو گا۔ آئین میں ترمیم کی ضرورت اپنی جگہ لیکن سب سے پہلے ملک کو درپیش اُن چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے جن کی موجودگی میں ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved