ہم اسلام آباد کے باسی چند ماہ سے کنٹینرز کی فصیلوں میں محبوس ہیں۔ حکومت کا جب دل کرتا ہے کنٹینرز کی دیواریں بنوا کر عوام کو ان میں چنوا دیتی ہے۔ انٹرنیٹ پہلے ہی بند ہے‘ ایکس (ٹویٹر) بین ہے‘ بولنے کی آزادی کم ہو گئی ہے اور احتجاج کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب کر کے جب حکومت اور انتظامیہ تھک جاتے ہیں تو کچھ گھنٹوں کیلئے شہرِ اقتدار کے باسیوں کو اس قید سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ مگر جب راستے بند ہوتے ہیں تو جڑواں شہروں کے باسیوں کو ادھر اُدھر آنے جانے کیلئے 'ڈنکی‘ لگانا پڑتی ہے۔ غیر قانونی طور پر بارڈر پار کرنے کو 'ڈنکی لگانا‘ کہا جاتا ہے۔ جب اسلام آباد کو پورے پاکستان سے عارضی طور پر الگ کرنے کیلئے کنٹینرز لگائے جاتے ہیں تو جڑواں شہروں کے باسی بھی ڈنکی لگانے لگتے ہیں۔ جیسے اچھے مستقبل کے خواب دیکھنے والے بنگلہ دیش‘ بھارت اور پاکستان سمیت اس خطے سے یورپ کیلئے ڈنکی لگاتے ہیں ۔ ڈنکی لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ پھر ملک سے باہر جانا ہو‘ یا کنٹینروں کے دور میں ملک کے اندر ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہو‘ یہ آسان کام نہیں۔ جو میری طرح نازک مزاج لوگ ہیں‘ وہ اس دوران گھر پر بیٹھے رہنے کو فوفیت دیتے ہیں مگر جو ذرا جری قسم کے ہیں اور جن کو اپنے کام پر ہر حال میں جانا ہوتا ہے‘ ان کو آنسو گیس‘ لاٹھی چارج‘ ٹریفک جام اور نجانے کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جب اسلام آباد کو تاحکم ثانی کنٹینرز لگا کر بند کیا جاتا ہے تو جو لوگ ان دو شہروں میں کام کرتے ہیں‘ وہ رُل کر رہ جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں کام کرنے والوں کی اکثریت راولپنڈی میں مقیم ہے‘ جنہیں ہر حال میں اپنے کام پر جانا ہوتا ہے‘ جیسے ڈاکٹرز‘ ریسکیو ادارے کے ملازمین‘ بینک ملازمین‘ سرکاری افسران‘ ٹریولنگ انڈسٹری سے وابستہ لوگ‘ کھانے پینے کا کاروبار کرنے والے اور نجی سیکٹر میں ملازمت کرنے والے افراد۔ یہ لوگ ہر قسم کی رکاوٹیں عبور کر کے اپنے دفاتر میں پہنچتے ہیں۔ میری بہن شعبۂ طب سے تعلق رکھتی ہے‘ اس کا آفس اسلام آباد کی دوسری طرف ہے‘ چاہے اس کو کئی گھنٹے لگ جائیں مگر وہ چھٹی نہیں کر سکتی‘ جیسے بھی ہو وہ آفس پہنچتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میرا شعبہ مجھے چھٹی کی اجازت نہیں دیتا۔ مریضوں کیلئے ایک ایک پل قیمتی ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھی متعلقہ شخص‘ جس کا تعلق طب سے ہے‘ وہ اپنی سیٹ پر نہیں ہو گا تو کسی بھی مریض کیلئے مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔
ان دو شہروں اور موٹروے سے اسلام آباد میں ڈنکی لگانا آسان نہیں۔ ایک تو کنٹینرز کا دریا اور پھر راستے بدل بدل کر جانا‘ اس کے ساتھ آنسو گیس‘ پولیس کے ڈنڈے اور پٹرول کا ضیاع۔ یہ سب اس مفت پیکیج میں شامل ہے۔ کوفت‘ پریشانی اور ہراسانی بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ مگر شاہراہِ دستور پر رہنے والوں کو شاید یہ سب نظر نہیں آرہا کہ اپنے ملک میں کنٹینرز کے باڈرز پار کرنا کتنا مشکل ہے۔ دیہاڑی دار اور ملازمت پیشہ انسان اگر چھٹی کرے گا تو کمائے گا کہاں سے اور کھائے گا کہاں سے؟ اپنے بچوں کا کھانا‘ بوڑھے والدین کی دوائی اور سر پر چھت برقرار رکھنے کیلئے اس کا کمانا ضروری ہے۔ یہ بات وہ اشرافیہ نہیں سمجھ سکتی جس کے اثاثے باہر‘ جس کے بچے باہر ہیں۔ ان کو کیا معلوم کہ چھٹی کی وجہ سے تنخواہ کٹ جانا کسی کیلئے کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مزدور کو ایک مزدوری نہ ملے تو گھر میں فاقہ ہو جاتا ہے۔ اشرافیہ کے نزدیک ان کی سیاست‘ ان کی طاقت کا برقرار رہنا ضروری ہے اور اس کیلئے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔ عوام کے مسائل کو حل کرنا ان کی دلچسپی اور ترجیح نہیں ہے۔
ابھی جیسے عجلت میں 26ویں آئینی ترمیم راتوں رات پاس کرائی گئی ہے‘ کاش ایسی عجلت‘ ایسی محنت اور ایسی پھرتیاں عوام کے مسائل کے حل کیلئے بھی دکھائی جائیں۔ اشرافیہ ہر چیز کو اپنے انداز سے دیکھتی ہے‘ ہر کام اپنے نقطۂ نظر سے کرتی ہے اور اپنے لیے ہی کرتی ہے۔ اس سب میں عوام کہاں ہیں؟ عوام تو بس روٹی‘ کپڑا اور مکان کے پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ پیٹ بھر کھانا مل جائے اور سر پر چھت برقرار رہے‘ عوام اس سے زیادہ بڑے خواب نہیں دیکھتے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے باسی کن اذیتوں کا شکار ہیں‘ ان پر ایک نظر ڈال لیں۔ مہنگائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی۔ ایک میٹرو بس ہے جو مخصوص روٹ پر چلتی ہے۔ حکومت نئے رہائشی سیکٹر نہیں بنا رہی۔ عوام گھروں کے بڑھتے کرایوں سے پریشان ہیں۔ اپنا گھر بنانا تو ایک خواب ہو کر رہ گیا ہے۔ کچھ سیکٹرز میں تو پانچ مرلے کا گھر بھی پانچ کروڑ کا مل رہا ہے۔ وہ شہری‘ جس کی تنخواہ ہی پچاس ہزار ہے‘ وہ اپنی تمام عمر کی تنخواہ بھی جمع کرتا رہے تو یہ گھر نہیں خرید سکتا۔ جو بیمار ہیں‘ وہ سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے خوار ہو رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹ کرانے کی مشینیں آئے روز خراب رہتی ہیں اور اکثر دورانِ آپریشن بجلی چلی جاتی ہے۔ حال میں ایک واقف کار کی والدہ آخری سانسیں لے رہی تھیں‘ ان کیلئے سرکاری ہسپتال میں جگہ ہی نہیں تھی۔ کتنے ہی مریض فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب ہسپتالوں کو فنڈز نہیں ملیں گے تو ایسا ہی حال ہو گا۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں دیکھیں تو وہ بھی عوام کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ دال دلیا سے لوگ پیٹ پوجا کر رہے ہیں‘ سبزیاں پھل‘ گوشت اور انڈے اب ان کی دسترس میں نہیں رہے۔ پہلے غریب دن میں تین روٹیاں کھاتا تھا مگر اب ایک پر آ گیا ہے لیکن شاہراہِ دستور والوں کو اپنی طاقت اور اختیارات میں اضافہ کرتے رہنے سے فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہوں کے آگے آہنی گیٹ لگا رکھے ہیں۔ غریب وہاں آکر عدل کی فریاد بھی نہیں کر سکتا۔ وہاں کوئی ڈنکی بھی نہیں لگا سکتا کیونکہ آج کل ایک نعرہ‘ ایک شعر یا ایک ٹویٹ کرنے پر بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ ہو سکتا ہے‘ جس کی سزا اب 15 سال تک قید کر دی گئی ہے۔ عام لوگ تو دور‘ پرندے بھی اشرافیہ کے علاقوں میں پَر نہیں مار سکتے۔
عوام کی مشکلات میں رہی سہی کسر بجلی‘ گیس کے بلوں اور پٹرول کے نرخوں نے پوری کر دی ہے۔ لوگ گھرکی خواتین کا زیور بیچ کر بل ادا کر رہے ہیں۔ کسی بھی مرد کیلئے یہ بہت مشکل اور تکلیف دہ مقام ہوتا ہے کہ وہ ضروریات پوری کرنے کیلئے زیورات فروخت کرے مگر اس کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں۔ بھاری بلوں کے سبب کسی کا بچوں کو اچھے سکول میں پڑھانے کا خواب ٹوٹ گیا ہے تو کوئی کچی چھت کی مرمت نہیں کرا سکا اور کسی نے بیٹی کے جہیز کا سامان بیچ کر بل ادا کیا ہے۔ ایسی بہت سی حقیقتیں ہم سب کے سامنے موجود ہیں مگر اپنے محلات میں مقید اشرافیہ اس سے چشم پوشی اختیار کیے رکھتی ہے۔ بہت سے نئے پروجیکٹس پر تختیاں تو لگ رہی ہیں لیکن عملی طور پر یہ وجود نہیں رکھتے۔ فوٹو شوٹ ہوتے ہیں‘ ٹک ٹاک بنتے ہیں‘ ٹویٹس ہوتے ہیں‘ خودنمائی کی جاتی اور پذیرائی سمیٹی جاتی ہے مگر عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ آگے بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جب تک اس ملک میں اصل جمہوریت نہیں آئے گی‘ حالات ایسے ہی رہیں گے۔ عوام کسی اور کو ووٹ دیں اور منتخب کوئی اور ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ نامعلوم مسودہ آئین کا حصہ بن جائے۔ کیا یہ سب عوام کیلئے ہو رہا ہے‘ یقینا نہیں! البتہ ایک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ شہرِ اقتدار کسی کا سگا نہیں۔ یہاں چند دنوں کی حکمرانی ملتی ہے اور اس کے بعد طویل رات آ جاتی ہے۔ اب یہ طاقتوروں نے طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ میراث میں کیا چھوڑ کر جائیں گے۔ اس کانٹوں بھرے تخت وتاج میں جو عوام کیلئے کام کر گیا‘ صرف وہی سرخرو ہو گا۔ باقی جانا تو سب نے خالی ہاتھ ہی ہے‘ دھن دولت‘ جاگیر‘ طاقت سب یہیں پڑا رہ جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved