تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     26-10-2024

ہان کانگ

سچ پوچھیں تو میں نے بھی ہان کانگ کا نام بس سرسری طور پر سُن رکھا تھا۔ دو اڑھائی ہفتے قبل جب عالمی میڈیا پر جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی خاتون ہان کانگ (Han Kang) کے بارے میں معلوم ہوا کہ 2024ء کا نوبیل ادبی ایوارڈ اسے دیا گیا ہے‘ تب اس کے شعری وا دبی کارناموں کا علم ہوا۔ ہان کی شاعری اور اس کی شاعرانہ نثر کا بہت چرچا تھا۔
ہان نے 1993ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ شعر وادب کی دنیا میں اس نووارد کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ آتے ہی اس نے اہلِ ادب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 1995ء میں ہان نے اپنے اوّلیں افسانوی مجموعے کے ذریعے نثر نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ اس کے افسانوں کی پہلی کتاب نے کوریا کے علمی وادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔
ہان کے افسانوں میں مغرب کے جدید شعور کیساتھ ساتھ مشرق کی باطنی روحانیت کی مہک بھی موجود ہے۔ انہوں نے اپنی شاعرانہ بلکہ ساحرانہ نثر کے ذریعے نہایت کمال وخوبی کے ساتھ ایسے سانحات کا تذکرہ کیا تھا جنہوں نے انسانوں سے اُن کی انسانیت چھین لی تھی۔ ان سانحات نے دوسروں کا دکھ درد بانٹنے والوں کو انسانی ہمدردی وغمخواری کی صفات سے محروم کر دیا تھا۔ ہر صاحبِ احساس اس محرومی کی کسک اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے ''گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ والی شاعری اور شاعرانہ نثر نگاری کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جب 2007ء میں ہان کانگ کا ناول ''The Vegetarian‘‘ شائع ہوا تو اس نے صرف جنوبی کوریا میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی دھوم مچا دی۔ یورپ وامریکہ کے ادبی حلقوں تک اس ناول کی شہرت بعض تبصروں کی صورت میں پہنچ گئی۔
کسی ادب پارے کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں‘ جان جوکھوں کا کام ہے۔ مترجم کو نہ صرف دونوں زبانوں پر عبور ہونا چاہیے بلکہ اس کیلئے ان زبانوں کی ادبی چاشنی اور اُنکی لطافتوں سے آگہی بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے اس ناول کی چیف مترجم ڈیبورا سمتھ نے اُن یادوں کو ترجمہ مکمل ہونے کی تقریب میں تازہ کیا جن سے انہیں گزرنا پڑا۔ 2015ء میں اس ترجمے کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہان نے تقریباً ایک ہفتہ مصنف ہونے کی حیثیت سے اپنے مترجمین کیساتھ یونیورسٹی آف ایسٹ انجیلیا کی ٹرانسلیشن ورکشاپ میں گزارا اور شرکا کیساتھ ترجمے کی نزاکتوں کو شیئر کیا۔53 سالہ ہان 1970ء میں جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئی‘ وہ نو برس کی عمر میں اپنے اہلِ خانہ کیساتھ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول منتقل ہو گئیں۔ قدرت نے ہان کو اعلیٰ ادبی وتخلیقی صفات سے آراستہ کیا تھا۔ مصنفہ نے ایک ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاں اس لالے کی حنا بندی کا خاطر خواہ انتظام واہتمام موجود تھا۔ ہان کے والد جنوبی کوریا کے ایک مشہور ناول نگار تھے۔ نوبیل انعام یافتہ جنوبی کورین خاتون کی گھر میں ہر طرح کی علمی وا دبی کتب اور نامور شاعروں اور ادیبوں تک رسائی تھی۔ اس طرح نوجوان مصنفہ کی نظر سے مشہور قدیم وجدید ادبی لٹریچر گزرا۔ قدیم وجدید اس مطالعے کی جھلک ہان کے ادب پاروں میں خوب جھلکتی ہے۔
2015ء میں ہان کانگ کے ناول The Vegetarianکا انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو عالمی ادبی ادارے اس کی طرف فی الفور متوجہ ہوئے۔ 2016ء میں ہان نے مین بکر انٹرنیشنل پرائز جیتا۔ یہ ناول ایک عورت کے بارے میں ہے جو انسانی ظلم وتشدد کو رد کرنا چاہتی ہے۔ نوبیل پرائز برائے ادب کی ججز کمیٹی کے چیئرمین بائیڈ ٹانکنی نے کہا کہ جنوبی کورین مصنفہ ہان کانگ کا کام ناقابلِ فراموش طور پر مضبوط‘ متاثر کن اور حقیقی تھا۔ The Vegetarianکی کہانی ایک انسانی نفسیاتی عقدے اور تہہ در تہہ باطن کے اندر بپھرے اور بکھرے ہوئے مسائل کی کہانی ہے۔
ناول کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک شادی شدہ عورت کو ایک خوفناک خواب نظر آتا ہے جس کے بعد اسے گوشت سے نفرت ہو جاتی ہے‘ وہ صرف سبزیوں اور پھل پھول پر گزارا کرتی ہے۔ اسکے رویے سے پہلے تو اس کا خاوند بیزار ہوتا ہے اور پھر اس کی ساری فیملی بہت دلبرداشتہ ہو جاتی ہے۔ مگر ان کی طرف سے اس خاتون (یی آنگ ہائے) کو دوبارہ گوشت خوری کے لیے کوئی منت سماجت کام آتی ہے اور نہ ہی کوئی سختی۔ اسکے ساتھ ساتھ ناول کی ہیروئن کے اندر اپنے لیے اور اپنی دلی خواہشات کیلئے فیملی اور سوسائٹی کی طرف سے عائد کردہ سماجی وتہذیبی ضابطوں کے خلاف بغاوت کا شدید جذبہ بلکہ غلبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے توں توں یی آنگ ہائے کا نفسیاتی مسئلہ گمبھیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسکا خاوند اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے کرداروں کے ذریعے واضح کیا کہ دورِ جدید کے انسان کا ذہن طرح طرح کے نفسیاتی عقدوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ انسان کو چین اور راحت مہیا کرنے کے بجائے ان مادر پدر آزاد مغربی اطوار نے اسے ایک نفسیاتی تماشا بنا دیا ہے۔ مغربی خصوصاً امریکی ''دانشور‘‘ چاہتے ہیں کہ مرد ہو یا عورت‘ اسے آزادی ہونی چاہیے کہ اگر ایک مرد عورت بننا چاہے تو عورت بن جائے۔ اسی طرح عورت اگر مرد بننا چاہے تو اسے ایساکرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ اگر وہ محسوس کرے کہ وہ کوئی درخت یا کوئی پرندہ ہے تو اس کا یہ استحقاق بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ سارے عقدے اور مسئلے ہیں اور ان کا انسانی آزادی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسی آزادی کے خواہش مندوں اور اُن کے مددگاروں کا علاج ہونا چاہیے۔ بہرحال اس طرح کے پھیلے ہوئے نفسیاتی عقدوں کے حوالے سے The Vegetarian غور سے پڑھنے کے لائق اور اس کی مصنفہ ہان کانگ لائقِ تحسین ہے۔
نوبیل پرائز کے بانی الفریڈ برنارڈنوبیل 21 اکتوبر 1833ء کو پیدا ہوئے اور 10 دسمبر 1896ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ الفریڈ نوبیل ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ وہ سویڈن کے بزنس مین‘ کیمیا دان‘ انجینئر اور کئی ایجادات کے موجد تھے۔ انہوں نے 355 چھوٹی بڑی ایجادات کو اپنے نام پر رجسٹر کروا رکھا تھا تاہم اُن کی سب سے بڑی ایجاد ڈائنامائٹ تھی۔الفریڈ نوبیل کے نزدیک ڈائنامائٹ کا مقصد بہت بڑے جناتی کاموں کی انجام دہی تھا۔ ڈائنامائٹ کے ذریعے بڑی بڑی چٹانوں اور پہاڑوں کو اڑایا جاتا ہے۔ اسی کی مدد سے سرنگوں کو کھودا جاتا اور ریلوے لائن تعمیر کی جاتی ہے۔ انہی ایجادات کی بنا پر وہ نہایت امیر آدمی بن گیا۔ 1896ء میں اس کے انتقال کے موقع پر اس کی دولت 90 لاکھ ڈالر تھی جو اس زمانے کے اعتبار سے بہت بڑی رقم تھی۔ الفریڈ نوبیل ڈائنامائٹ کے جنگی استعمال سے بہت ناخوش تھا۔ اسے ''موت کے تاجر‘‘ جیسے لقب سے نوازا گیا۔ تاہم دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے نوبیل نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی بنا پر آج اسے بہت بڑے انسان دوست کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ نوبیل کی دولت جتنی بڑھتی جا رہی ہے‘ اتنی ہی پرائز کی رقم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ نوبیل پرائز کمیٹی کا مرکزی دفتر سویڈن میں ہے۔ الفریڈ نوبیل کی وصیت کے مطابق ہر سال امن‘ فزکس‘ طب اور ادب وغیرہ کے شعبوں میں کوئی نئی تحقیق کرنیوالے سب سے نمایاں افراد کو یہ ا یوارڈ دیا جاتا ہے۔ 1968ء سے اس میں معاشیات کو بھی شامل کر لیا گیا۔ الفریڈ نوبیل کی پانچویں برسی 10دسمبر 1901ء سے نوبیل ایوارڈز دینے کا آغاز ہوا تھا۔ ہر سال نوبیل کی برسی کے موقع پر ہی ایوارڈز تقسیم کیے جاتے ہیں۔ سارے ایوارڈز سویڈن میں جبکہ امن کا انعام ناروے کے شہر اوسلو میں دیا جاتا ہے۔
ہم 2024ء کی ادب کی نوبیل پرائز یافتہ ساؤتھ کوریا کی خاتون ادیب کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس کے ناول ''The Vegetarian‘‘ کا اُردو میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved