ستمبر‘ اکتوبر میں پاکستان کے حکمران اتحاد کیلئے چار مثبت پیشرفتیں ہوئیں جو معاشی بحالی کی امید پیدا کر سکتی ہیں۔ کیا پاکستان اپنی معیشت کو بدلنے کیلئے ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ بہت کچھ اس پہ منحصر ہے کہ آیا پاکستانی حکمران ان پیشرفتوں سے طاقت کا تکبر پیدا کرتے ہیں یا ان سے فائدہ اٹھانے کیلئے مناسب انتظامی اقدامات اپناتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین محاذ آرائی اور نفرت کو کم کرنے کیلئے کس حد تک تیار ہیں؟ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کی موجودہ حالت بین الاقوامی مالی تعاون سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کیلئے موزوں نہیں۔
یہ مثبت پیشرفتیں کیا ہیں؟ سب سے پہلے‘ آئی ایم ایف نے 25 ستمبر کو 37 ماہ کے دوران سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری پر اتفاق کیا۔ پاکستان گزشتہ چھ ماہ سے معیشت کی تشکیلِ نو کے وعدے کے بدلے میں قرض کی یہ پیشکش حاصل کرنے کیلئے سخت کوشش کر رہا تھا۔ آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری ایک اضافی فائدہ فراہم کرتی ہے‘ اس سے پاکستان کے لیے دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور یورپی ممالک سے قرض اور گرانٹس حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
دوسرا‘ سعودی عرب کے ایک سرمایہ کاری وفد نے پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کے ساتھ 10‘ 11 اکتوبر کو پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد کو سعودی حکومت کی باضابطہ اشیرباد حاصل ہے اور اس کی سربراہی ایک وزیر کر رہے تھے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے سرمایہ کاروں نے 2.2 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ سعودی عرب بلوچستان میں ریکوڈک کے منصوبے میں بھی کچھ سرمایہ کاری کرنے پر مائل ہے۔
تیسرا‘ 15‘ 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہانِ حکومت کی کانفرنس نے عالمی اور علاقائی سطح پر پاکستان کے امیج کو بڑھانے میں مدد کی۔ چوتھا‘ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری نے وفاقی سطح پر حکمران اتحاد کو اپنے ججز کے انتخاب اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے معاملے میں اعلیٰ عدلیہ‘ خاص طور پر سپریم کورٹ پر بے مثال برتری حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس نے ریاستی انتظام پر سپریم کورٹ کے کسی بھی فوری دباؤ کو بے اثر کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کے قرض کی ہر قسط سے پہلے آئی ایم ایف کے ماہرین پاکستانی معیشت کا جائزہ لیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حکومت پاکستان معیشت میں مطلوبہ تبدیلیاں کر رہی ہے۔ مختلف نئے اور جاری منصوبوں میں سعودی سرمایہ کاری بتدریج پاکستان آئے گی۔ سعودی سرمایہ کار سیاست‘ دہشت گردی اور انتظامی سہولت کے حوالے سے پاکستان کی داخلی صورتحال کی کڑی نگرانی کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے محکموں اور بیورو کریسی کا رویہ سرمایہ کاری کے وعدوں پر عملدرآمد کا تعین کرے گا۔ سعودی وفد نے آرمی چیف سے بھی اس معاملے میں تعاون حاصل کرنے کیلئے ملاقات کی‘ اور آرمی چیف نے سعودی عرب کو اس بات کا یقین دلانے کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرنے کیلئے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریب میں شرکت کی کہ آرمی کمانڈ سرمایہ کاری کے عمل کی حامی ہے اور یہ کہ فوج 10 اکتوبر کو دستخط شدہ مفاہمت کی یادداشتوں پر عمل درآمد کے عمل کا حصہ ہو گی۔ پاکستان نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے کردار پر روشنی ڈالی۔ اس کونسل میں سویلین اور فوجی عہدیدار شامل ہیں‘ جن کا بنیادی کام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بیورو کریسی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں مدد کرنا ہے۔ سعودیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار کی تکمیل کیلئے اس کونسل پر انحصار کریں گے۔
ایس سی او کانفرنس کے دورے کے دوران‘ چین‘ روس اور منگولیا نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے میں بہت دلچسپی ظاہر کی۔ چینی وزیراعظم نے سی پیک منصوبوں کیلئے اپنی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ یہاں کام کرنے والے چینیوں کیلئے حفاظتی انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔ چین اور روس کے ساتھ وزیراعظم کی بات چیت میں فوج کی حمایت کو یقینی بنانے کیلئے آرمی چیف نے بھی اقتصادی ترقی اور تجارتی منصوبوں کیلئے بات چیت میں شمولیت اختیار کی۔
دو دیگر عوامل نئے معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت پر اثر ڈالیں گے۔ سب سے پہلے‘ امن وامان کی خراب صورتحال اور دہشت گردی معاشی بحالی کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر داخلی امن وامان کی صورتحال خراب ہو اور تشدد اور دہشت گردی کی سرگرمی وسیع ہو تو غیر ملکی سرمایہ کاری سکڑ جاتی ہے۔ اگرچہ بہت سے سعودی پاکستان میں نہیں رہیں گے‘ زیادہ تر کام جوائنٹ انٹرپرائزز کریں گے‘ جن میں زیادہ تر پاکستانی ہوں گے تاہم سعودی سینئر ایگزیکٹو وقتاً فوقتاً پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ان کی سلامتی ایک اہم مسئلہ ہو گی‘ خاص طور پر اگر کچھ سعودیوں کو طویل مدت کیلئے پاکستان میں رہنا پڑے۔
پاکستان کی سیاست میں جاری عدم ہم آہنگی اور تنازع بھی معاشی بحالی کا ایک منفی عنصر ہے۔ ایک طرف حکمران مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی اتنی شدید ہو گئی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ہراساں کرنے کیلئے وفاقی اور پنجاب حکومت کے اختیارات اور وسائل کا کھل کر استعمال کر رہی ہے۔ جب بھی تحریک انصاف احتجاج اور عوامی جلسوں میں مصروف ہوتی ہے تو ان میں سے بیشتر کو پولیس تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ محاذ آرائی برقرار رہتی ہے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی اور حکومت کے لیے معیشت کو بحال کرنا مشکل بنا دے گی۔
وفاقی حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کو زیر کرنے کا ایک بے مثال موقع حاصل کیا ہے۔ اس سے حکومت پر عدالتی دباؤ کم ہوا ہے جسے معاشرتی فلاح وبہبود سے متعلق سماجی واقتصادی مسائل کو حل کرنے کیلئے زیادہ توجہ دینے کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے‘ بجائے اس کے کہ وہ ایک ریاستی ادارے پر غلبہ پانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دسمبر 1997ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ سے اور صدر فاروق لغاری کو صدارت سے ہٹانے کے بعد کی گئی غلطی سے بچنا چاہیے۔ اس کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صوبوں‘ خاص طور پر سندھ میں برتری قائم کرنے کی کوشش کی اور 1999ء میں فوج کو کنٹرول کرنے کا ارادہ کر لیا۔ موجودہ سیاسی حکومت کیلئے طویل مدتی فوائد سیاست میں تنازعات کو کم کرنے‘ حکمرانی کو بہتر بنانے‘ معیشت کو بحال کرنے اور ترجیحی بنیادوں پر معاشرتی ترقی اور فلاح وبہبود کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ستمبر‘ اکتوبر میں حاصل ہونیوالے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ہیں۔
10 اکتوبر کو ایک دلچسپ سیاسی پیشرفت ہوئی‘ جب خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے ایک جرگہ منعقد کیا جس میں گورنر کے پی‘ وفاقی وزیر داخلہ اور کے پی میں سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ انہوں نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے وزیراعلیٰ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعلیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ ان مسائل پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔ یہ ایک مثبت پیشرفت تھی کیونکہ اس ملاقات سے دو دن پہلے تک وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سراسر محاذ آرائی پر تُلے ہوئے تھے۔ ہم یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ کیا اس طرح کی پیشرفت پاکستانی سیاست میں تنازعات کو کم کرتی ہے‘ اور ہم آہنگی اور سیاسی برداشت کا باعث بنتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved