پاکستانی سیاست گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی کروٹیں لے چکی۔ اسے کب اور کس طرح قرار آئے گا‘ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ہماری تاریخ بے چینیوں اور بے قراریوں کی تاریخ ہے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں جو کھلبلی مچی وہ آج بھی جاری بلکہ طاری ہے۔ ناتجربہ کار سیاستدان اپنی حفاظت کر سکے نہ نظام کی۔ سول بیورو کریسی سے معاملہ خاکیوں تک پہنچا‘ اور اب تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ کچھ معلوم ہی نہیں ہو رہا۔ آئین نافذ ہے‘ انتخابات ہو چکے ہیں‘ منتخب حکومتیں‘ وفاق اور صوبوں میں موجود ہیں لیکن ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں عدلیہ آزادی کی تحریک زور شور سے چلائی گئی تھی۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کو انصاف کے ایوانوں سے باہر نکالنا پرویزی اقتدار کو مہنگا پڑ گیا۔ افتخار چودھری بحال ہوئے تو چیف جسٹس طاقت کا سرچشمہ بن گیا۔ افتخار چودھری نے ہر ایک کو کامی سمجھا‘ عدالتی مارشل لاء ایسا لگا کہ اس کی باقیات سے نجات حاصل کرنے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم تک نوبت آن پہنچی۔ عدلیہ کی آزادی کو جج صاحبان نے اپنی آزادی سمجھ لیا۔ ہمارے اہلِ سیاست ایک دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دینے کوگناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی ادارہ اپنی حد میں نہیں رہتا۔ عدالتی جرنیلوں نے جو کچھ کیا‘ وہ آئین کی تشریح اور تعبیر کے نام پر کیا لیکن آئین ہی کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا۔ عدالتی تقرریوں کا اختیار بلاشرکتِ غیرے حاصل کر لیا‘ معیشت کے فیصلے کیے جانے لگے‘ انتظامی اختیارات بھی سنبھال لیے‘ اقتدار کی ہوس میں منقسم سیاستدان کٹھ پتلیاں بنتے اور ناچتے چلے گئے۔ آئین کی 26ویں ترمیم‘ جو چند روز پہلے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئی (یا کرائی گئی) ہے‘ اس نے عدلیہ کو (بزعم خود) مقامِ عدل تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے برسوں کی جدوجہد کے بعد منظور کی جانے والی سنیارٹی کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب تین سینئر موسٹ ججوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہو گا‘ پارلیمنٹ کی بارہ رکنی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے کوئی ایک نام وزیراعظم کو پیش کرے گی جو اسے صدرِ مملکت کی خدمت میں ارسال کر دیں گے‘ وہاں سے فرمان جاری ہو جائے گا۔ یہ جوہری تبدیلی نافذالعمل ہو چکی‘ اس کے تحت پہلے چیف جسٹس کا انتخاب بھی کر لیا گیا۔ 29 ویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 30ویں چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کے حساب سے تیسرے نمبر پر آنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام قرعہ نکل چکا۔ وہ اپنے عہدے کا حلف بھی اُٹھا چکے‘ سینئر موسٹ جج منصور علی شاہ عمرے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے تشریف لے جا چکے ہیں جبکہ جسٹس منیب اختر خلوت ہی کو جلوت بنائے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالتی تجاوزات کا راستہ بند (یا محدود) کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے کان مروڑنے والوں کے کان مروڑ دیے گئے ہیں۔ آئینی امور کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا خصوصی آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا جسے تیرہ رکنی عدالتی کمیشن ''تخلیق‘‘ کرے گا جس میں مقننہ‘ عدلیہ اور وکلا کے نمائندے شامل ہوں گے‘ ابھی اس بینچ کے خدوخال واضح نہیں ہیں۔ آئینی اور غیرآئینی امور کی تقسیم بھی واضح نہیں ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا‘ معاملات نکھرتے جائیں گے (واللہ اعلم بالصواب)۔
قاضی فائز عیسیٰ تیرہ ماہ کی بھرپور اننگز کھیلنے کے بعد بقول خود ''آزادی‘‘ حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے دور پر تبصرے جاری ہیں‘ ان کے فیصلوں کی زد میں آنے والے تنقید کے تیر چلا رہے ہیں جبکہ ریلیف حاصل کرنے والے تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم برسوں پہلے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں پھانسی کی سزا پا گئے تھے لیکن قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بڑے بینچ نے انہیں بریت کا پروانہ یہ کہہ کر عطا کر دیا کہ ان کے مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ بلاول ان پر سو جان سے فدا ہیں۔ تحریک انصاف بلّے کا نقصان چھن جانے کا غم نہیں بھول رہی‘ اسے اپنے دستور کے مطابق انتخاب نہ کرانے پر کوئی پچھتاوا نہیں ‘ وہ قانون نافذ کرنے کو لاقانونیت قرار دینے پر بضد ہے۔ سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا۔ ان جیسے باوقار اور باکردار شخص کے ساتھ اس سلوک پر اظہارِ افسوس کیا جاتا رہے گا۔ وہ غصے میں کھول رہے ہیں‘ انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں دیے جانے والے عدالتی ریفرنس میں نہ صرف کہ شرکت نہیں کی بلکہ رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام ایک انتہائی تلخ خط لکھ کر اسے ریفرنس کے ریکارڈ کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے۔ اس کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے کہ اس طرح کے موقع پر اس طرح کا خط‘ اس طرح کے آدمی نے شاید ہی کبھی لکھا ہو:
''جب سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئینی کردار سے باہر کے معاملات میں مداخلت کی تو میں نے ان کے ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور 17جنوری 2019ء کو خط کے ذریعے اپنی وجوہ سپریم کورٹ میں رجسٹر کرائی تھیں۔ آج‘ میں خود کو اسی فیصلے پر کھڑا پاتا ہوں لیکن اس بار وجوہ مختلف اور زیادہ سنگین ہیں۔ ایک چیف جسٹس کا اصل فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے‘ عدلیہ کی خود مختاری کا دفاع کرے اور سب کے لیے انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک شترمرغ کی طرح سر ریت میں چھپائے بیٹھے رہے۔انہوں نے عدلیہ کو درپیش بحرانوں اور اندرونی مسائل کو نظر انداز کیا۔ چیف جسٹس نے مداخلت کے سامنے ڈھال بننے کے بجائے دروازے کھول دیے۔ طاقتوروں پر نظر رکھنا عدلیہ کا مقدس فریضہ ہے لیکن انہوں نے اسے نظرانداز کر دیا۔ عدلیہ کا دفاع کرنے کی ان میں ہمت تھی اور نہ ہی اخلاقی جرأت بلکہ انہوں نے ان کے لیے راہ ہموار کی جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے عدلیہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں‘ اس طرح انہوں نے عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ کیا۔ انہوں نے اپنی کارروائیوں میں عدالتی ہم آہنگی کے لیے ساتھی ججوں کے ناگزیر تعاون اور احترام کو کھلم کھلا نظر انداز کیا۔ اپنی خود پسندی کی وجہ سے وہ مشاورت اور باہمی رضامندی‘ جو کہ عدلیہ کا امتیاز ہے‘ اس کے ساتھ عدلیہ کی قیادت کرنے میں مسلسل ناکام رہے۔ انہوں نے ساتھی ججوں کے درمیان تقسیم کو بڑھایا‘ اختلافات کو فروغ دیا اور عدلیہ میں موجود آپسی تعلقات کو بگاڑا جس کے اثرات دیر تک رہیں گے۔ ایسے چیف جسٹس کا ریفرنس منانا یہ پیغام دے گا کہ ایک چیف جسٹس اپنے ادارے سے دھوکا کر سکتا ہے‘ اس کی طاقت کو ختم کر سکتا ہے‘ پست اور معیار سے گری ہوئی حرکتیں کر سکتا ہے اور پھر بھی ایک معزز خادم کے طور پر سراہا جا سکتا ہے۔ معذرت کے ساتھ‘ میں اپنے ضمیر کی آواز پر ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شامل نہیں ہو سکتا‘‘۔
اس خط نے جسٹس منصور علی شاہ کی اپنی شخصیت کو متاثر کیا ہے۔ وہ بہتر الفاظ کا انتخاب کر سکتے تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ کو مجروح کرنے کی کوشش میں ان کی اپنی ذات نشانہ بن گئی ہے۔ اس ''خود کش حملے‘‘ پر شاہ صاحب کے بہت سے مداحوں کو شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ جو بھی تھے‘ جیسے بھی تھے‘ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے‘ اب ان کا دور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ جانیں اور تاریخ جانے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved