پاکستان کے سابق کرکٹر ماجد خان کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے منعقد کیے گئے فل کورٹ میں مہمانوں کے درمیان بیٹھے دیکھ کر یقینا بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوئی ہوگی۔ایک بات پریقین آیا کہ کتابوں‘ کہانیوں اور فلموں میں جو پڑھا اور دیکھا تھا وہ سچ تھا کہ پٹھان اپنا بدلہ اور قرض لینا نہیں بھولتا‘ چاہے کتنا وقت ہی گزر جائے۔
ماجد خان ہمارے کرکٹ ہیرو رہے ہیں۔ میں نے اس وقت سے کرکٹ کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جب ماجد خان اور صادق محمد پاکستانی ٹیم کی طرف سے اوپن کرتے تھے۔ گائوں میں سلیم بھائی کی وجہ سے گھر میں ہر قسمی رسالے اور اخبارات آتے تھے‘ جب ابھی ہمارے گائوں میں بجلی بھی نہیں آئی تھی۔ریڈیو آچکا تھا اور اس پر کرکٹ کمنٹری سنی جاتی تھی۔ سب رنگ‘سسپنس‘ جاسوسی‘ عمران ڈائجسٹ‘ حکایت‘ اُردو اور انگریزی اخبارات کے علاوہ گھر پر کرکٹ میگزین 'اخبار وطن‘ اور کرکٹر جیسے رسائل بھی آتے تھے جن میں سے کھلاڑیوں کی تصویریں کاٹ کر آٹے کے ساتھ گھر کی دیواروں پر چپکا لیتے تھے یا ایک رجسٹر لے کر اس پر چپکا دیتے تھے۔ ماجد خان پسندیدہ کھلاڑیوں میں سے تھے‘اگرچہ جاوید میانداد ہمیشہ میرے پسندیدہ کھلاڑی رہے یہاں تک کہ جب وہ 1996ء میں ریٹائرہوئے تو میں نے کئی برس تک کرکٹ نہیں دیکھی۔
آپ میں سے بہت سے لوگ یقینا حیران ہورہے ہوں گے کہ ماجد خان کا پٹھان کے انتقام سے کیا تعلق بنتا ہے؟ میرا ذہن کبھی نہ سمجھ سکا کہ ماجد خان اتنی جلدی کیوں ریٹائر ہوگئے یا انہیں کر دیا گیا۔ یہ بات برسوں میرے ذہن سے چپکی رہی۔ 1998ء میں اسلام آباد ڈان اخبار میں رپورٹنگ شروع کی تو ڈاکٹر ظفر الطاف سے ملاقات ہوئی جو بہت جلد دوستی میں بدل گئی۔ مجھے علم تھا کہ وہ کرکٹ بورڈ میں سلیکٹر رہے تھے۔1992ء ورلڈ کپ کی ٹیم‘ جس نے عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا تھااُس کی سلیکشن میں بھی وہ شامل تھے‘ پھر وہ 1999ء میں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں ٹیم منیجر کے طور پر ساتھ تھے۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی بنے۔ حفیظ کاردار کے ساتھ کرکٹ بورڈ کے سات سال سیکرٹری بھی رہے۔ وہ پاکستانی کرکٹ کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ ایک دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لیا کہ سر آپ اُس وقت کرکٹ معاملات کو قریب سے دیکھ رہے تھے‘ آخر ماجد خان کو کیوں ریٹائر ہونا پڑا؟ ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبی کہانی سنائی۔ بتانے لگے کہ پاکستان میں فرسٹ کلاس اوپننگ رنز کا سکور ماجد خان اور انہوں نے اکٹھے بنایا تھا جو شاید ساڑھے چار سو رنز سے اوپر تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور ماجد خان اکٹھے فرسٹ کلاس کھیلتے رہے تھے۔ بتانے لگے کہ عمران خان نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے بچپن کے ہیرو ماجد خان کو ریٹائر کر دیا جائے۔ ماجد خان آئوٹ آف فارم ہوچکے تھے۔ بقول ڈاکٹر صاحب انہوں نے عمران خان کو کہا کہ ابھی ماجد کو ریٹائر نہ کرو‘ان میں ابھی دو تین سال کرکٹ باقی ہے۔کھلاڑیوں پر اچھا برا وقت آجاتا ہے لیکن عمران خان نہ مانے۔انہوں نے کچھ اور وجوہات بھی بتائیں۔ عمران خان کا خیال تھا کہ ماجد خان کی وجہ سے انہیں ٹیم کنٹرول کرنے میں مسائل تھے۔ وہ ان کے بڑے کزن اور ہیرو تھے۔ جب ان کی پرفارمنس نیچے جاتی تھی تو وہ انہیں دیگر کھلاڑیوں کی طرح کچھ نہیں کہہ سکتے تھے جس سے شاید ٹیم میں یہ تاثر جاتا تھا کہ اپنے کزن کے ساتھ رعایت کررہے ہیں اور باقی کھلاڑیوں پر سختی ہوتی تھی۔ اس طرح ماجد خان کے حوالے سے یہ ایشو بھی تھا کہ جس دن وہ زیادہ سکور نہ کرپاتے تو باقی ٹیم کو فاسٹ باؤلرز اور پچ کی باتیں بتا کر کچھ نروس کر دیتے تھے۔ کھلاڑی میدان میں جانے سے پہلے ہی نروس ہوچکا ہوتا تھا۔ ماجد کی کوشش ہوتی تھی کہ اگر وہ زیادہ سکور نہیں کرسکے تو اگلے میچ میں ان کی جگہ پکی رہے۔یہ بات بھی عمران خان کو پسند نہیں تھی۔ ماجد خان زیادہ سوشل نہیں تھے۔ وہ آئوٹ ہو کر آتے تو کسی کونے میں انگریزی کا کوئی ناول لے کر پڑھنے بیٹھ جاتے۔
یوں جب ماجد خان کی بھارت کے خلاف سیریز میں کارکردگی اچھی نہ رہی تو عمران خان کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے بچپن کے ہیرو اور بڑے کزن کو ٹیم سے ہٹا دیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ وہ عمران خان کے اس فیصلے کے خلاف تھے اورانہیں روکنے کی کوشش بھی کی لیکن عمران خان ذہن بنا چکے تھے اور وہ ماجد خان کو مزید موقع دینے کے حق میں نہیں تھے۔ یوں ماجد خان کو ٹیم سے ہٹا دیا گیا ‘جب عمران خان کپتان تھے‘ اس وقت جاوید میانداد‘ آصف اقبال یا مشتاق محمدکپتان ہوتے تو شاید ماجد خان کو یہ فیصلہ اتنا دل پر نہ لگتا جتنا انہیں عمران خان کے کپتان ہوتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔ ماجد خان جیسے کھلاڑی کے کیرئیر کاافسوسناک انجام ہوا۔ انہیں اپنے وقت پرریٹائر ہونے کا موقع نہیں دیا گیا اور یوں وہ بھاری دل کے ساتھ کرکٹ چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ اس بات پر ماجد خان ناراض ہوگئے اور انہیں ساری عمر دکھ رہا کہ وہ چھوٹا کزن‘ جس کی انہوں نے شاید کرکٹ ٹیم میں جگہ بنوانے یا شروعاتی مواقع دلوانے میں کردار ادا کیا‘ اس نے اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر سب سے پہلے انہیں ہی نشانہ بنایا۔ ان کو عمران خان نے وہ عزت و تکریم نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے۔ یوں ماجد خان آنے والے برسوں میں عمران خان سے اتنے ناراض ہوئے کہ ان سے ملنا جلنا‘ بول چال سب ختم ہوگیا۔ برسوں بعد کچھ فاصلے کم ہوئے تو ماجد خان میانوالی نمل یونیورسٹی کی ایک تقریب میں شریک ہوئے اور شاید کچھ چندہ بھی دیا جس سے لگا کہ شاید دونوں کزنز کے درمیان برسوں پرانی دوریاں ختم ہوگئی ہیں لیکن اس جمعہ کے روز ماجد خان کو قاضی فائز عیسٰی کے لیے منعقد ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں بیٹھے دیکھ کر ان سب لوگوں کو حیرانی ہوئی جنہیں علم ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی اس وقت قاضی فائز عیسیٰ سے نفرت کرتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کے نزدیک مقتدرہ سے زیادہ انہیں قاضی فائز عیسیٰ نے نقصان پہنچایا اور اگر آج عمران خان جیل میں ہیں اور پارٹی بحران کا شکار ہے تو اس میں بڑا ہاتھ قاضی فائز عیسیٰ ہی کا ہے۔ عمران خان نے کبھی اپنی نفرت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
ماجد خان بھی اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ انہیں سب کچھ پتہ ہے کہ عمران خان آج کل کہاں اور کیوں ہیں۔ ماجد خان کبھی اپنے کزن سے ملنے جیل نہیں گئے لیکن جس چیف جسٹس کو عمران خان اپنے اور اپنی پارٹی کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ اس کی الوداعی تقریب میں وہ موجود تھے۔ ہوسکتا ہے لوگ کہیں کہ ماجد خان اور قاضی فائز عیسیٰ کی پرانی دوستی ہے جس کی وجہ سے وہ وہاں موجود تھے‘ لیکن یہ واضح ہے کہ ماجد خان وہاں کیوں موجود تھے۔ ماجد کو اندازہ تھا کہ ان کی موجودگی عمران خان کو تکلیف دے گی۔ جو درد اور تکلیف ماجد خان پچھلے 40سال سے لیے پھرتے ہیں وہ درد کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اب یہ تصویر دیکھ کر زیادہ نہیں تو کچھ تکلیف تو عمران خان کو بھی محسوس ہوگی ۔ شاید یہی ماجد خان کا مقصد تھا۔ ایک پٹھان 40سال بعد بھی اپنا بدلہ لینا نہیں بھولا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved