تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     27-10-2024

یحییٰ سنوار کی شہادت اور بے بس عالمِ اسلام

سات اکتوبر 2023ء سے جاری صہیونی جارحیت و دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک 42ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں‘ جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کو ان کے گھروں‘ سکولوں‘ ہسپتالوں اور پناہ گاہوں میں نشانہ بنا رہا ہے بلکہ اس نے یہ جنگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلا دی ہے۔ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایران کی سالمیت اور خود مختاری کو چیلنج کرتے ہوئے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ پر تہران میں حملہ کیا گیا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ان کے جانشین ہاشم صفی الدین کو بھی شہید کیا۔ اسرائیل دو ایرانی جرنیلوں کے قتل میں بھی ملوث ہے جنہیں شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کر کے شہید کیا گیا۔ حماس کے نئے سربراہ‘ فلسطینی مزاحمت کے عظیم استعارے یحییٰ سنوار کو بھی شہید کر دیا گیا۔وہ اپنی حیاتِ عزیز کے آخری لمحے تک صہیونی دشمن سے لڑتے رہے۔ افسوس! اس ناقابلِ تلافی نقصان پر بھی عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا رہا۔
لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے تمام تر مظالم کے باوجوداُمت مسلمہ رسمی بیان بازی و مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ یحییٰ سنوار اور ان کے رفقا نے سات اکتوبر 2023ء کو آپریشن 'طوفان الاقصیٰ‘ کے ذریعے پہلی بار اسرائیل کی عسکری قوت کو چیلنج کیا اور پوری دنیا کے سامنے اس کی انٹیلی جنس کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے صہیونی ریاست کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے بھرم کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا تھا۔ حماس کے عظیم رہنما یحییٰ سنوار کے بارے میں اسرائیل و امریکہ مستقل یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ سمیت فلسطین سے بھاگ گئے ہیں۔ جب حقیقت آشکار ہوئی تو پتا چلا کہ یحییٰ سنوار ایک سچے مردِ میداں کی طرح اپنے سپاہیوں کی قیادت کرتے ہوئے صفِ اول میں کھڑے رہے۔ سنوار نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک یہ ثابت کیا کہ وہ ایک دلیر اور سچے سپاہی تھے۔ انہوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ کبھی غداری نہیں کی۔ اس سے زیادہ بدترین شکست صہیونیت اور مغربی استعماریت کی اور کیا ہو گی کہ فلسطین کے چپہ چپہ کو جاسوسی ڈرونز اور آلات سے بھر دینے کے باوجود وہ سال بھر یحییٰ سنوار کا پتا نہیں لگا سکے۔ ان کی شہادت کے بعد مغربی میڈیا نے ایسا مایوس کن ماحول بنانے کی کوشش کی کہ گویا اب حماس کا وجود مٹ جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان عظیم قربانیوں سے فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت مزید مضبوط ہوگی‘ جو امریکی و اسرائیلی بموں و حملوں سے بچ جائیں گے وہ فلسطین کی آزادی کا ادھورا خواب پورا کریں گے۔ ان شاء اللہ!
حماس‘ حزب اللہ‘ حوثی اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل اور اس کے حلیفوں کو ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس نے انہیں بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسرائیل کا جتنا جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے وہ کبھی سامنے نہیں آئے گا کیونکہ ذرائع ابلاغ پر اس کا قبضہ ہے۔ ہم تک وہی معلومات پہنچتی ہیں جو وہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک طویل خونیں تاریخ ہے۔ جولائی 2024ء میں اسرائیل نے پُرہجوم جنوبی غزہ کی پٹی میں ایک بڑے حملے میں حماس کے کمانڈر‘ القسام بریگیڈ کے چیف محمد ضیف کو نشانہ بنایا۔ جنوری 2024ء میں بیروت میں اسرائیلی ڈرون حملے میں حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار صالح اروری کو شہید کیا گیا۔ صالح اروری حماس کے نائب سیاسی سربراہ اور اس گروپ کے عسکری ونگ کے بانی تھے۔ دسمبر 2023ء کو ایرانی پاسداران انقلاب کے مشیر سید رضی موسوی کو دمشق کے باہر ڈرون حملے میں شہید کیا گیا۔ 2019ء میں غزہ کی پٹی میں اسلامی جہاد کے ایک سینئر کمانڈر بہاء ابو العطا کے گھر پر اسرائیل نے فضائی حملہ کیا تھا جس میں وہ اور ان کی اہلیہ شہید ہو گئے۔ 2012 ء میں حماس کے مسلح ونگ کے سربراہ احمد جباری کو ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شہادت سے حماس اور اسرائیل کے درمیان آٹھ روز تک جنگ جاری رہی۔ 2010ء میں حماس کے ایک سرکردہ کارکن محمود المبحوح کو دبئی کے ایک ہوٹل میں اسرائیلی ایجنسی موساد نے نشانہ بنایا ۔ 2008ء میں حزب اللہ کے فوجی سربراہ عماد مغنیہ دمشق میں شہید کر دیے گئے۔ 2004ء میں حماس کے رہنما احمد یاسین اسرائیلی ہیلی کاپٹر حملے میں اس وقت شہید ہو گئے جب وہ اپنی وہیل چیئر پر تھے۔شیخ احمد یاسین بچپن میں ایک حادثے میں مفلوج ہو گئے تھے‘ وہ حماس کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ ان کے جانشین عبدالعزیز رانتیسی ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد اسرائیلی فضائی حملے میں شہید کر دیے گئے۔ 2002 ء میں غزہ میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی بم سے حماس کے سیکنڈ اِن کمانڈ ملٹری لیڈر صلاح شہیدہ کو ٹارگٹ کیا گیا۔ 1997ء میں موساد کے ایجنٹوں نے عمان‘ اردن میں حماس کے اس وقت کے سربراہ خالد مشعل کو زہر دے کر شہید کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1996ء میں حماس کے یحییٰ عیاش کو غزہ میں شہید کر دیا گیا۔ 1995ء میں مالٹا میں اسلامی جہاد کے بانی فاتحی شیکاکی کو سر میں گولی ماری گئی۔ 1988ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے فوجی سربراہ خلیل الوزیر تیونس میں قتل کر دیے گئے ۔ ابو جہاد کے نام سے مشہور‘ وہ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کے نائب رہ چکے تھے۔ 1973 ء میں اسرائیلی کمانڈوز نے بیروت میں پی ایل او کے متعدد رہنماؤں کو ان کے اپارٹمنٹس میں گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ ایہود بارک کی قیادت میں رات کے وقت یہ حملہ کیا گیا تھا۔ ایہود بارک بعد میں اسرائیل کا اعلیٰ فوجی کمانڈر اور وزیراعظم بنا۔
غزہ اور لبنان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور واشنگٹن کے جنگ بندی کے انکار پر مشرقِ وسطیٰ کے حالات شدید کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ‘ حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے نیتن یاہو کو جو تنبیہ کی ہے وہ خطرے کی گھنٹی تصور کی جانی چاہیے کیونکہ مزاحمت کا یہ کھیل جلد ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حزب اللہ کے خلاف جنگ میں زمینی اور فضائی کارروائیوں سے نیتن یاہو کو وقتی طور پر کچھ فائدہ ہو سکتا ہے مگر مشرقِ وسطیٰ میں تباہی سے امریکہ سمیت خطے کے دیگر ممالک آنے والے دنوں میں جن پیچیدہ مسائل کا شکار ہوں گے ان کا خمیازہ برسوں بھگتنا پڑے گا۔
دوسری طرف غزہ کی صورتحال پر فرانس‘ برطانیہ اور الجزائر کی درخواست پر منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ بھی نہیں ‘ کیونکہ اس طرح کے متعدد اجلاسوں میں صہیونی مظالم کے خلاف پاس کردہ سینکڑوں قراردادوں کا نتیجہ نشستن‘ گفتن‘ برخاستن کے سواکچھ نہیں نکل سکا۔ واضح رہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد فلسطینی کھانے‘ پانی اور ادویہ کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غزہ کی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کی قائم مقام سربراہ جوائس مسویا نے سلامتی کونسل اجلاس میں کہا کہ غزہ میں حالات ناقابلِ برداشت ہیں‘ یو این امدادی اداروں کو بھی متاثرہ فلسطینیوں تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے بے بسی کا یہ اظہار بنیادی طور پر عالمی برادری کو یہ باور کروانے کیلئے ہے کہ اس کٹھ پتلی کی ڈور امریکہ و دیگر مغربی ممالک کے ہاتھ میں ہے‘ لہٰذا اس سے کسی ٹھوس عملی اقدام کی توقع نہ رکھی جائے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ نے اکتوبر 2023ء سے اب تک صہیونی ریاست کو 17ارب ڈالرز سے زائد فوجی امداد فراہم کی ہے۔ مغرب کی اکثریت واضح طور پر نہ صرف اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ اسے مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کیلئے گولہ بارود بھی مہیا کر رہی ہے۔ ان نازک حالات میں عالمِ اسلام کے حکمران‘ جن کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونا چاہیے‘ امریکہ اور برطانیہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved