پاکستان سٹاک ایکسچینج تقریباً ہر روز نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ تک سٹاک ایکسچینج 90 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر چکی اور مزید اضافے کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ پچھلے دس ماہ میں سٹاک ایکسچینج میں تقریباً 26 ہزار پوائنٹس یا لگ بھگ 40 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ یہ تاریخی اضافہ حقیقی ہے یا مصنوعی؟ چند دن قبل ایک ریٹائرڈ بزرگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ یہ سٹاک ایکسچینج کیا ہوتی ہے‘ سنا ہے ہر کوئی پیسہ بنا رہا ہے اور یہ بھی بتائیے کہ یہ حلال ہے؟ وہ خود بھی سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کرنا چاہ رہے تھے۔ میں نے انہیں پیشہ ورانہ مشورہ تو دے دیا ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ سٹاک ایکسچینج میں مستقل بہتری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملکی کمپنیاں ترقی کر رہی ہیں‘ کاروبار بڑھ رہا ہے اور ہزاروں نئی نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ لیکن یہاں عملی میدان میں تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لیے یہ خدشہ رہتا ہے کہ یہ اضافہ حقیقی نہیں اور کسی بھی وقت اس غبارے سے ہوا نکل سکتی ہے۔ ایک طرف سٹاک ایکسچینج میں حیران کن تیزی ہے تو دوسری طرف ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک مرتبہ پھر چین سے ایک ارب چالیس کروڑ ڈالرز کا قرض مانگ لیا گیا ہے۔ چینی وزیراعظم کے دورے پر چائنیز ٹریڈ فسیلیٹی کے چار ارب تیس کروڑ ڈالر قرض کی مدت کو مزید تین سال تک بڑھوایا گیا اور اب مزید قرض مانگ لیا گیا ہے۔ پاکستان پہلے بھی اس طرح کی درخواستیں کرتا رہا ہے لیکن چین نے معذرت کر لی تھی۔ اب مزید قرض ملتا ہے یا نہیں‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ چین سی پیک کو لے کر سنجیدہ ہے لیکن پاکستان کی طرف سے جو وعدے کیے گئے تھے انہیں ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔ گودار ایئر پورٹ کا ورچوئل افتتاح تو کر دیا گیا ہے لیکن گوادر بندرگاہ کو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ جوڑنے کی ذمہ داری پاکستان کی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ ایم 8 اور دیگر سڑکیں ابھی تک مکمل نہیں ہو سکیں۔ بندرگاہ کو ریلوے سے بھی نہیں جوڑا گیا۔ بجلی کے نظام کو نیشنل گرڈ سے بجلی نہیں ملتی‘ نہ گیس ہے اور نہ صاف پانی کا نظام یقینی بنایا جا سکا ہے۔ یہ سب ذمہ داری پاکستان کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چینی وزیراعظم کے دورۂ پاکستان میں سی پیک سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ ان حالات میں چین سے مزید قرض مانگنے کے لیے جو حوصلہ چاہیے وہ شاید صرف پاکستانی سیاست دانوں اور بیورو کریسی ہی میں ہے۔ ملک کی سرکاری اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں اور ملکی مسائل حل کرنے کے لیے محنت کرنے کا رواج بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ابھی خبر ملی ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ٹنل کو ہونے والے نقصان سے متعلق جو رپورٹ پیش کی گئی وہ چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے لیے حکومت کی جانب سے دس کروڑ روپے جاری کیے گئے تھے۔ اگر مسائل اور ان کا حل چیٹ جی پی ٹی سے معلوم کرنا تھا تو دس کروڑ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس بارے میں سوال نہیں کیا جا رہا۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اس پر انکوائری کرائے تا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا حساب لیا جا سکے۔ دیگر سرکاری محکموں سے بھی ایسی ہی رپورٹیں مل رہی ہیں۔ اگر ایف بی آر کی بات کریں تو وہاں سے بھی عجیب خبریں آ رہی ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ملک میں 50 فیصد غیر قانونی سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں اور ان کو ٹریس کرنے والے اہلکار صرف 100 ہیں۔ اس وقت ایف بی آر میں تقریباً چالیس ہزار سے زائد لوگ کام کر رہے ہیں‘ کیا ان میں سے کچھ لوگ غیر قانونی سگریٹ فروخت کو روکنے کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے؟ ایف بی آر کی عدم دلچسپی کی صورتحال یہ ہے کہ صحیح اعداد وشمار بھی نہیں دیے جا رہے۔ جب صرف 100 لوگ پورے ملک کے لیے ہوں گے تو معلومات کے درست ہونے کے امکانات کم ہیں۔ ملک میں غیرقانونی سگریٹس کی فروخت تقریباً 63 فیصد سے زیادہ ہے‘ تقریباً 37 فیصد سگریٹس قانونی طور پر فروخت ہوتے ہیں اور ٹیکس شاید صرف 20 فیصد کا جمع ہوتا ہے۔ جب سے سگریٹ پر ٹیکس بڑھا ہے اس کی غیر قانونی فروخت بڑھ گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی فروخت سے خزانے کو تقریباً 350 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ 2021ء میں یہ اعداد وشمار اُلٹ تھے۔ تقریباً 37 فیصد غیر قانونی اور 63 فیصد قانونی فروخت تھی۔ کسی اہم ملکی شعبے کے لیے 100 افراد تعینات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سرکار جان بوجھ کر اسے نظر انداز کر رہی ہے۔ قومی سطح پر قانون کی سر عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کوئی روک نہیں رہا۔
ایف بی آر کا زور عام عوام پر ہی چلتا ہے۔ طاقتور حلقوں کے سامنے ایف بی آر بے بس ہے یا ملی بھگت سے نظام چلایا جاتا ہے۔ ایف بی آر نے 2022ء میں بینکوں کو پابند کیا تھا کہ وہ نجی شعبے کو زیادہ قرض دیں۔ ایڈوانس ٹو ڈپازٹ (اے ڈی آر) شرح 50 فیصد سے زائد ہونی چاہیے۔ اس سے کم شرح والے بینک کو اضافی انکم ٹیکس چارج کیا جائے گا۔ 50 فیصد سے کم پر 10 فیصد اور 40 فیصد سے کم پر 15 فیصد اضافی ٹیکس چارج ہو گا۔ لیکن آج تک یہ ٹیکس وصول نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں ایک بھی بینک ایسا نہیں جو عملی طور پر اس قانون پر پورا اتر رہا ہو۔ سال کے اختتام یعنی 31 دسمبر کو بینک اپنی ہی کمپنیوں کوقرض جاری کر کے نئے سال میں واپس لے لیتے ہیں جو کھلے عام کرپشن کے مترادف ہے۔ اس کا علم ایف بی آر کو بھی ہے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
اس مرتبہ چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں کہا ہے کہ اگلے سال 31 دسمبر کے بجائے اے ڈی آر اوسطاً بنیادوں پر چیک کی جائے گی۔ اس سے بینکوں کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جس حساب سے شرح سود کم ہو رہی ہے بینک نجی شعبے کو باآسانی قرض دے دیں گے اور ان کی اے ڈی آر خود بخود 50 فیصد سے بہتر ہو جائے گی۔ عمومی رائے یہ ہے کہ بیورو کریسی قانون بھی بااثر لوگوں سے پوچھ کر بناتی ہے تا کہ ان کا نقصان نہ ہو۔ ابھی تک ڈالر سکینڈل میں کسی بینک کو جرمانہ نہیں کیا گیا جبکہ اس کیس کو تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved