بدقسمت افغان ؟ ایک کے بعد انہوںنے دوسری سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 12برس آگ اور روپے کی بارش کے بعد منہ کالا کراکے لوٹنے والی عالمی طاقت پہ لعنت بھیجئے۔ سوال تو یہ ہے کہ پاک سرزمین پہ امن اور خوشحالی کب اترے گی ؟کب بھارت کو معلوم ہوگا کہ مزید 100سال بھی وہ کچھ ہمارا بگاڑ نہیں سکتا۔ صحت اور تعلیم کب میسّر ہوگی ؟ ریاست ماں کب بنے گی ؟ کب ہم امریکی امداد اس کے منہ پر دے ماریں گے ؟ کب؟ خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اترے وہ فصلِ گل ، جسے اندیشہ ٔزوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ و طن اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو سوویت یونین کی طرح امریکہ بھی ناکام ہو گیا مگر لوٹ جائے گا۔ ہمارے لیے راہِ فرار کوئی نہیں ۔ کیا ایک بار پھر اقتدار کی وحشت ، ایک خوں آشام ڈائن بن کر افغانوں کا کلیجہ چبائے گی اور پاکستان کا کیا ہوگا؟ مجھے نہیں معلوم ۔ اتنا میں جانتا ہوں کہ صدر کرزئی حل نہیں ، مسئلے کا حصہ ہیں ۔ افغان صد رکو کٹھ پتلی کا کردار سونپا گیا تھا مگر وہ بادشاہوں کے بادشاہ بنناچاہتے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف ایک زہر اگلتی زبان ۔ عالیجاہ نے طالبان کو نصیحت فرمائی کہ افغان حکومت اور امریکہ کی بجائے پاکستان کے خلاف جہاد کریں ۔امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے میں جن دو نکات پر اختلاف ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ غیر ملکی جارحیت کی صورت میں امریکی افواج افغان سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑیں گی۔ ظاہر ہے کہ وسطی ایشیا کی ہمسایہ مسلم ریاستیں یا چین نہیں ، ان کی مراد پاکستان سے ہے ۔ دوسری طرف ہندو بنیا ان کی بغل میں شادیانے بجا رہا ہے ۔ تاریخ میں پہلی بار وہ مکمل ہوش و حواس میں روپیہ خرچ کررہا ہے ۔پاکستانی سرحد کے قریب مکمل بھارتی سرمایے سے تعمیر ہونے والی، کابل سے قندھار کو ملاتی ہوئی ایک ہائی وے پشاور سے کوئٹہ کے عین متوازی ہے ۔ بیس روز قبل امریکی فوج نے حکیم اللہ محسودکے دستِ راست لطیف محسود کو اس حال میں اپنی تحویل میں لیا کہ افغان انٹیلی جنس اسے گود میں اٹھائے دودھ پلا رہی تھی اور اپنی دو شاخہ زبان نکالے وہ پھنکار رہا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے اب انکشاف کیا ہے کہ حامد کرزئی اسے پال پوس کر پاکستان کے قبائلی علاقے میں چھوڑنا چاہتے تھے کہ ارضِ پاک سے انتقام لیا جا سکے ۔ یہ پدّی اور پدّی کا شوربہ! ملّا برادر کی رہائی اور افغان وفد کی ان سے مجوّزہ ملاقات سمیت، پاکستان نہایت سمجھداری سے حامد کرزئی کو لبھا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مل کر وہ مزید شر انگیزی سے باز رہیں ۔یہی ہونا چاہیے ؛حتیٰ کہ اپریل 2014ء کے صدارتی الیکشن میں یہ کٹھ پتلی شہنشاہ تاریخ کے قبرستان کی کسی گمنام قبر میں جا گرے ۔ جنگ بندی کے لیے ڈرون حملے رکوانا پاکستانی امیر المومنین حکیم اللہ محسود کی ایک بنیادی شرط ہے ۔مذاکرات کی کامیابی کے لیے تحریکِ انصاف یہ حملے رکوانے کے لیے کمر بستہ ہے ۔ وفاقی حکومت سے اس کا مطالبہ ہے کہ ڈرون گرا دئیے جائیں وگرنہ خود وہ نیٹو سپلائی روک دے گی ۔ کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کی مرگ ہے اور یہ جذبہ قابلِ قدر ہے لیکن وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں ۔ پہلے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ شمالی وزیرستان ان حملوں کا ہدف کیوں ہے ۔ اس علاقے میں حکومتی رٹ یقینی بناتے ہوئے ، دوسری طرف موجود نیٹو افواج کی مدد سے سرحد پار آمدورفت روک دی جائے ۔ ملکی وغیر ملکی میڈیا کا ایک وفد علاقے میں لے جا کر یہ بات ثابت کر دی جائے ۔ بتدریج پھر سو ڈیڑھ سو ارب روپے کی حقیر امریکی امداد شکریے کے ساتھ واپس کر دی جائے تو کسی مائی کے لال میں سرحد پامال کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔ کیا پختون خوا کی حکومت اخراجات میں کمی اور صوبائی ٹیکسوں میں اضافے سے پچیس تیس ارب روپے وفاق کے ہاتھ میں تھما سکتی ہے ؟ کیا وہ دوسرے صوبوں اور مرکز کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ سکتی ہے کہ امریکی امداد سے کیسے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور ملک میںبیرونی مداخلت کیسے روکی جائے؟ اگر نہیں تو براہِ کرم اپنی سوکھی شجاعت سنبھال رکھیں ۔ یہ توشۂ آخرت ہوگی ۔ حوصلہ! مستقبل کے افغانستان میں پاکستان کے لیے امکانات موجو د ہیں اور بھارت کی رسوائی کے بھی۔ دوحہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی لیکن طالبان پہ پاکستانی رسوخ واضح ہو گیا۔ دوسری طرف نومبر 2011 ء میں پاکستانی اخبارات نے انکشاف کیا کہ ملّا عمر تحریکِ طالبان پاکستان پر حکومت سے معاہدے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں ۔یہ خوش آئند ہے۔ افغان طالبان جیسے بھی ہیں ، ہمیںان کے پڑوس میں رہنا ہے ۔ یوں بھی افغانستان میں امریکی چھتری تلے کرزئی حکومت اور بھارت پاکستان کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں ، وہ پوری طرح واضح ہے ۔امریکہ مخلص نہیں ۔ عالمی مالیاتی اداروں میں امریکی رسوخ بے پناہ ہے مگر ایسی تباہ کن شرائط پر ہمیں قرض عطا کیا جاتاہے کہ بجلی اور پیداوار مہنگی ہو، روپیہ گرے اور غیر ملکی قرض میں اضافہ ہو۔ کاروبار تباہ اور ساتھ یہ حکم بھی کہ کن اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی ۔ امریکہ سے فقط واجبی سی شناسائی بہتر ہے ۔ بہتر ہے کہ اخراجات میں کمی اورٹیکس نظام میں بہتری کے بعد بالآخر ہم اسے دور سے سات سلام عرض کردیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved