تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     29-10-2024

شخصیات کے مرہونِ منت نظام

ہم بدستور ازبکستان میں ہیں‘ یہاں ہم نے پارلیمانی انتخابات ہوتے دیکھے۔ یہ مرحلہ پُرامن طریقے سے مکمل ہوا‘ نہ کوئی لڑائی جھگڑا ‘ نہ کسی قسم کی ہنگامہ آرائی ہوئی اور نہ ہی دھاندلی کا شور ۔ انتخابی نتائج آ چکے ہیں اور انہیں تسلیم بھی کیا جا چکا ہے۔ جو ہار گئے انہوں نے شکست کو تسلیم کیا ہے اور جو جیت گئے ہیں وہ پارلیمان میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہاں جمہوریت ابھی پنپ رہی ہے مگر ہر جگہ ایک بہترین نظام دیکھنے کو ملتا ہے‘ جس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ ترقی کی منازل تو رفتہ رفتہ ہی طے ہوتی ہیں‘ مگر کوئی ملک اپنے شہریوں کو بہترین نظام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ بھی کسی کامیابی سے کم نہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ سابق چیف جسٹس ہو چکے‘ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان کی جگہ لی ہے۔ اگرچہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے ان کے طریقہ کار سے متعلق بحث شروع ہو چکی تھی‘ تاہم ان کے رخصت ہونے کے بعد ان کے فیصلوں پر کھل کر بات ہونے لگی ہے۔ سابق چیف جسٹس کے حامی و مخالفین دونوں ہی موجود ہیں۔ بالخصوص تحریک انصاف اور اس کے حامی قاضی فائز عیسیٰ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں‘ جبکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں بشمول جے یو آئی‘ قاضی فائز عیسیٰ کے کردار کی معترف ہیں۔ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے کیس سمیت کئی مقدمات میں قاضی فائز عیسیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں ہی جسٹس منصور علی شاہ اور قاضی فائز عیسیٰ کا اختلاف کھل کر سامنے آیا اور عوام کو بھی معلوم ہو گیا کہ عدالتِ عظمیٰ کے ججز میں اختلافات موجود ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے نیب قانون میں ترمیم کی تھی جسے اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی اور قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کے حق میں فیصلہ دے کر نیب ترامیم کو بحال کر دیا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے کیس میں بھی قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس عمر عطا بندیال سے اختلافی مؤقف اپنایا۔ آئین میں ہے کہ منحرف رکنِ اسمبلی اگر ووٹ دے گا تو اس کے خلاف پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھیجے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرار دیا کہ اگر کوئی رکن منحرف ہوتا ہے تو وہ ڈی سیٹ تو ہو گا ہی‘ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا۔ حکومت نے اس فیصلے کو آئین کو دوبارہ تحریر کرنے سے تعبیر کیا اور سابق چیف جسٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی رکن منحرف ہونے کے بعد ڈی سیٹ ہو گا مگر اس کا ووٹ شمار کیا جا سکے گا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ریفرنس‘ جو گزشتہ 14برسوں سے سپریم کورٹ میں زیرالتوا تھا‘ اس کی سماعت بھی جسٹس قاضی قائز عیسیٰ نے کی اور 44 سال پہلے ہوئی تاریخی عدالتی غلطی کو درست کیا۔ اس ریفرنس میں سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں جتنے دن گزارے وہ چاہے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ہوں یا چیف جسٹس کے طور پر‘ اس کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے اپنے پیشرو کے برعکس طرزِ عمل اختیار کیا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے انتظامیہ کے معاملات میں کسی طرح مداخلت نہیں کی اور آئین کے تابع کام کرتے رہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات اور پروسیجر ایکٹ کے قانون کو من و عن تسلیم کیا جس کے بعد بینچز کی تشکیل اور از خود نوٹس کے اختیارات فردِ واحد یعنی چیف جسٹس سے لے کر تین ججز کی کمیٹی کے حوالے کر دیے گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ چلے گئے مگر وہ نظام کو مضبوط کر گئے‘ پارلیمنٹ کو بالادست کر گئے اور ججز کو بتا گئے کہ آئین کے تابع رہ کام کرنا ہی ان کی اصل ذمہ داری ہے۔ دیکھا جائے تو نظام کو شخصیات کے سحر سے نکالنے کے لیے اس سے پہلے کوشش نہیں کی گئی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا نظام شخصیات کے گرد گھومتا رہا ہے‘ یہی بنیادی وجہ رہی کہ جب شخصیات رخصت ہو جاتی ہیں تو نظام بھی دم توڑ جاتا ہے۔ یہ ایک غیرصحت مند رجحان ہے جس کی وجہ سے اداروں اور نظام کے استحکام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو افراد پر انحصار نہ کرے بلکہ خود اپنے اندر مستقل اور خودکار عمل رکھتا ہو کیونکہ افراد کی زندگیاں محدود ہوتی ہیں‘ اگر نظام ان افراد پر انحصار کرتا ہے تو ان کے چلے جانے پر نظام میں خلل پڑتا ہے‘ جس سے کام رُک جاتا ہے‘ تاخیر ہوتی ہے اور کئی بار تو نظام ہی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ افراد کی کارکردگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی‘ ان کی صحت‘ جذباتی کیفیت اور دیگر عوامل ان کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر نظام ان افراد پر انحصار کرتا ہے تو اس کی کارکردگی بھی ان کی کارکردگی کے ساتھ متاثر ہوتی ہے۔ افراد کی صلاحیتیں محدود ہوتی ہیں‘ وہ کچھ کام بہتر کر سکتے ہیں اور کچھ کام بہتر نہیں کر سکتے۔ اگر نظام ان افراد پر انحصار کرتا ہے تو اس کی کارکردگی بھی ان کی صلاحیتوں کی حد تک ہی رہے گی۔ افراد کے ذاتی مفادات اور پسند و ناپسند بھی نظام کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر نظام ان افراد پر انحصار کرتا ہے تو ان کے ذاتی مفادات اور پسند و ناپسند نظام کے فیصلوں اور اقدامات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو افراد پر انحصار نہ کرے بلکہ خود اپنے اندر ایک مستقل اور خودکار عمل رکھتا ہو۔ اس سے نظام کی کارکردگی مستقل رہتی ہے‘ اس میں خلل نہیں پڑتا اور اس کی کارکردگی افراد کی محدود صلاحیتوں اور ذاتی مفادات سے متاثر نہیں ہوتی۔ ایسا نظام بنانے کے لیے ہمیں چند اقدامات کی ضرورت ہے‘ سب سے پہلے یہ کہ ہم نظام میں افراد کے بجائے عمل کو ترجیح دیں۔ ہمیں ایسا نظام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں کام کس طرح ہوتا ہے‘ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں‘ یہ سب کچھ واضح طور پر بیان کیا گیا ہو۔ اس سے نظام میں افراد کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور عمل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہم نظام میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائیں۔ ہمیں ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہر کام کی نگرانی ہو۔ اس سے نظام میں افراد کی کوتاہیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایسا نظام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں افراد کو تربیت دی جائے‘ ان کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے اور انہیں نئے کام سیکھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس سے نظام میں افراد کی کارکردگی بڑھتی ہے اور نظام کے استحکام میں مدد ملتی ہے۔ ہم نظام میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھائیں۔ اس سے نظام میں کام کی رفتار بڑھتی ہے‘ غلطیوں کا امکان کم ہوتا ہے اور نظام کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی نظام مکمل طور پر افراد سے آزاد نہیں ہو سکتا‘ افراد نظام کا ایک اہم جزو ہیں اور ان کی کارکردگی نظام کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے لیکن ہمیں ایسا نظام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں افراد کے بجائے نظام کی اہمیت زیادہ ہو۔ سابق چیف جسٹس نے نظام کو درست سمت دینے پر توجہ دی جس کا جاری رہنا ہی کامیابی ہو گی۔ نئے چیف جسٹس کا اصل امتحان اس نظام کو برقرار رکھنا ہو گا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved