فضائی آلودگی پاکستان کے طول و عرض میں زندگی کا بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ لاہور‘ کراچی اور فیصل آباد جو کبھی اپنے پُرہجوم بازاروں اور ثقافتی مقامات کے لیے مشہور تھے اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہیں۔ وہ ہوا جس میں لوگ سانس لیتے ہیں‘ وہ زندگی کو برقرار رکھنے والی طاقت یعنی صحت افزا نہیں رہی یہ ایک خاموش زہر بن گئی ہے‘ ایسا زہر جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں سرایت کر جاتا ہے اور اہلِ اقتدار کے علم میں لائے بغیر‘ چپ چاپ شہریوں کی زندگیوں کو مختصر کرتا رہتا ہے۔
ہر موسم سرما میں سموگ لاہور میں کسی بن بلائے مہمان کی طرح آتی ہے اور شہر کے مطلع کو ڈھانپ لیتی ہے۔ پہلے یہ ایک چھوٹی سی موسمی پریشانی کے طور پر شروع ہوتی ہے اور پھر صحتِ عامہ کے ایسے بحران کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو ہسپتالوں کو سانس‘ گلے اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے بھر دیتا ہے۔ بچے زہریلی ہوا کے غلاف میں لپٹے پارکوں میں کھیل رہے ہیں۔ مسافر‘ جن کے آدھے چہرے پتلے سے ماسک سے ڈھکے ہوئے ہیں‘ شہر کی ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں‘ جہاں رکشوں‘ بسوں اور کاروں سے نکلنے والا دھواں فیکٹریوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں اور فصلوں کی جلتی باقیات کے دھویں کے ساتھ مل کر مضرِ صحت بن جاتا ہے۔ ایسے میں سانس لینا اپنی صحت کو خطرات کی نذر کرنے سے کم نہیں۔ کوئی شخص کتنا زہر اپنی سانسوں میں بھر سکتا ہے؟
عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے لاہور کو مسلسل عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شمار کیا ہے‘ جس کو نئی دہلی‘ ڈھاکہ اور بیجنگ جیسے بدنام حریفوں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ یہ شہر دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے بحران کی علامت بن چکے ہیں‘ جہاں غیر منظم صنعتی سرگرمیاں‘ گاڑیوں کے زہریلے مواد کا اخراج اور کچرے کا ناقص انتظام ہوا کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ کراچی جیسے شہروں میں‘ صنعتی زون کم سے کم ضوابط کے ساتھ کام کرتے ہیں‘ جبکہ لاکھوں گاڑیاں ایسا دھواں خارج کرتی ہیں جو شہر کو دائمی آفت کا شکار کر دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف پاکستان کے شہر ہی نہیں‘ جو فضائی آلودگی کے بوجھ تلے دب رہے ہیں‘ عالمی سطح پر دہلی جیسے بھارتی شہر‘ جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) اکثر خطرناک سطح عبور کرتا رہتا ہے‘ اس بات کی سنگین یاددہانی ہیں کہ غیر منظم شہری توسیع اور صنعت کاری انسانی صحت پر کیا اثرات ڈال سکتی ہے۔ چین میں‘ آلودگی پر قابو پانے کی ٹھوس کوششوں کے باوجود شین یانگ (Shenyang) اور زنگٹائی (Xingtai) جیسے شہر اب بھی ہوا کے خطرناک معیار سے دوچار ہیں۔ بنگلہ دیش میں ڈھاکہ اپنی زیادہ آبادی اور بے لگام ٹریفک کے ساتھ ایسی ہی تباہی دیکھ رہا ہے۔
ان شہروں میں سے ہر ایک میں کہانی بہت حد تک یکساں ہے: ماحولیاتی انحطاط‘ تیز رفتار اقتصادی ترقی‘ صنعت کاری اور ماحولیاتی ضوابط کا ڈھیلا نفاذ۔ قیمت؟ خود زندگی۔ لاہور میں AQI کی سطح ان دنوں 300 سے 400 تک پہنچ جاتی ہے‘ جو ''خطرناک‘‘ سطح کی نشاندہی کرتی ہے۔ طویل عرصے تک یہ سطح پھیپھڑوں کی دائمی بیماریوں‘ دل کی بیماریوں اور یہاں تک کہ قبل از وقت موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اسی طرح کے اعداد وشمار بڑے اور مصروف شہروں کے رہائشیوں کو پریشان کرتے ہیں‘ جہاں سموگ اکثر حدِ نظر کو بھی صفر کے قریب کر دیتی ہے‘ جس سے روزمرہ کی زندگی میں ایک سماجی اضطراب پیدا ہوتا ہے۔
شہروں کی آلودہ ہوا حکومتی غفلت کی علامت بن چکی ہے۔ آلودگی سے نمٹنے کے اقدامات کو اکثر قلیل مدتی فوائد کی خاطر نظرانداز کر دیا جاتا ہے جبکہ لاکھوں افراد کی صحت پہ سمجھوتا کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے اور جو امیر اور غریب کو یکساں طور پر متاثر کر رہا ہے‘ تاہم افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ نقصان پسماندہ افراد کو ہوتا ہے۔ پسماندہ آبادیوں میں رہنے والے یا کارخانوں میں کام کرنے والوں کے لیے زہریلی ہوا سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات‘ جیسے فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی‘ گاڑیوں کے اخراج کو محدود کرنا اور ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے سٹیشنز کا قیام‘ یہ اقدامات قطعی ناکافی ہیں۔ ماحولیات کے ماہرین اور کارکنان یکساں آواز میں چیخ رہے ہیں‘ پھر بھی ان کی التجا اربابِ اختیار کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ اب شہریوں نے اپنے تئیں کچھ طریقوں کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ جو لوگ اس کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے گھروں کے لیے ایئر پیوریفائر خرید رہے ہیں اور فیس ماسک روزمرہ کی ضرورت بن چکے ہیں۔ لیکن یہ اس مسئلے کے حل کے نہایت عارضی اقدامات ہیں۔ مستقل حل کے لیے انتظامی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ سوال ہر گزرتے سال کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے کہ یہ شہر اپنے شہریوں کی سانس لینے والی ہوا کو ترجیح دیے بغیر کب تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ بے عملی کے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید جانوں کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ زیادہ بچے زہریلے مادوں کو سانس کے ذریعے اپنے جسم میں انڈیل کر بڑے ہوتے ہیں جو زندگی بھر کے لیے ان کے پھیپھڑوں کو داغدار کر دیتے ہیں۔ کمزور لوگ اس خاموش قاتل کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یہ شہر خواہ وہ لاہور ہو‘ کراچی ہو‘ دہلی ہو یا ڈھاکہ‘ معاشی مراکز کا تو علم نہیں مگر صحت عامہ کی آفت کے عالمی مراکز ضرور بن جائیں گے۔ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے‘ جہاں بے عملی کا مطلب دم گھٹ جانا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ باقی معاملات کی طرح ان بڑے شہروں کے اس نوعیت کے مسائل کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بڑی مضبوطی سے جڑے ہیں۔ ان کی ''رُوٹ کاز‘‘ یعنی بیماری کی جڑ ایک ہی ہے۔ ان کا دکھ بھی ایک اور اس کا مداوا بھی ایک ہے۔ فصلوں کی باقیات جلانے سے اجتناب سے لے کر متعدد ایسے اقدام ہیں جو ناگزیر ہو چکے ہیں۔ جغرافیائی اور زمینی طور پر جڑے ہوئے انہی حقائق کو ہم لوگ زمینی حقائق کہتے ہیں‘ جن کو نظر انداز کر کے ماحولیاتی آلودگی اور زہر سے بچنا ممکن نہیں ہے۔
ہمارے عہد کے لوگ ہر تعریف کے مطابق عالمی لوگ ہیں۔ عالمی شہریوں کے طور پر‘ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہوا کا معیار صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ صاف ہوا میں سانس لینے کا حق عالمگیر ہونا چاہیے‘ پھر بھی لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کو اس سے محروم کیا جا رہا ہے۔ حل موجود ہے‘ گرین پالیسیوں سے لے کر صنعتوں اور گاڑیوں کے اخراج پر سخت ضوابط‘ لیکن ان پر عمل درآمد کی خواہش بے حسی اور غفلت کی قوتوں سے زیادہ مضبوط ہونی چاہیے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے شہر بھی وقت کے خلاف ایک مایوس کن دوڑ میں شریک ہیں۔ ہوا زہر ہے اور فوری کارروائی کے بغیر‘ مستقبل میں دم گھٹ جانے کے خدشات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو لوگ اس تکلیف اور مصیبت کے ازالے کے اسباب رکھتے ہیں‘ وہ بھی ان کو بروئے کار لانے سے ہچکچاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو یقین ہی نہیں کہ وہ ایک بہت بڑی آفت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک عفریت ہے‘ جو بڑی تیزی سے ان کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ حکمران اشرافیہ نیم دلی سے ادھورے اقدامات کر رہی ہے۔ اس خوفناک لڑائی میں امید کا کوئی دِیا روشن کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ لڑائی کی نوعیت‘ سنگینی اور اس سے جڑی ضروریات کا ادراک ہو۔ مگر ایسا نہیں ہے! اس لڑائی کے لیے جو وسائل مختص کیے جاتے ہیں‘ وہ مایوس کن حد تک ناکافی ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے علاوہ سماج کے دیگر طاقتور طبقات جو اثر ونفوذ استعمال کر سکتے ہیں‘ وہ اس سے گریزاں ہیں۔ ان حالات میں نوشتۂ دیوار پڑھ لینا کوئی مشکل نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved