سمجھنے میں غلطی ہوئی اور اس کیلئے معذرت کرنی پڑتی ہے۔ چھبیسویں ترمیم پر مولانا فضل الرحمن کی اپروج بالکل درست تھی۔ زور زبردستی سے حکومت نے ترمیم تو پاس کروا لینی تھی بس یہی تھا کہ اس قانون کی زیادہ متنازع شقیں نکال دی جائیں اور وہ مقصد لے دے کر پورا ہو گیا۔ اب پی ٹی آئی بھی کچھ لچک دکھا رہی ہے اور اُس جوڈیشل کمیشن میں شامل ہو رہی ہے جس نے آئندہ کے ججوں کی تقرریاں کرنی ہیں اور آئینی بینچوں کو بھی تشکیل دینا ہے۔ مولانا کا صائب مشورہ تھا کہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی پی ٹی آئی شامل ہو اور نئے چیف جسٹس کی تقرری میں اپنا حصہ ڈالے۔ وہ تو نہ ہوا لیکن اب یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی عملیت پسندی کے تقاضے سمجھنے لگی ہے۔ فیصل چوہدری اور فواد چوہدری کی دوبارہ قبولیت کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مشکل حالات سے گزرنا پڑے تو اپروج میں تبدیلی آ جاتی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا انتخاب ایک لحاظ سے بہت اچھا ہوا ہے۔ سید منصور علی شاہ چیف جسٹس بنتے تو پہلے دن سے ہی حکومت اور سپریم کورٹ میں ٹھن جانی تھی کیونکہ حکومتی حلقے شاہ صاحب کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اُس کی وجہ بھی تھی کیونکہ شاہ صاحب کے کچھ ایسے فیصلے تھے جو حکومت پر بھاری پڑے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کے بارے میں تو کوئی اعتراض نہیں اُٹھ سکتا تھا اس لیے وہ تناؤ کی کیفیت جو شاہ صاحب کے ساتھ ہوتی‘ اُس کے امکانات یہاں ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک کھٹکا حکومت کو ضرور رہے گا کہ جسٹس آفریدی کسی کے بندے نہیں‘ آزاد منش جج ہیں‘ فیصلے میرٹ پر کریں گے کسی دباؤ کے تحت نہیں۔ ایک تو اُنہوں نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں اتحاد کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ فل کورٹ میٹنگ بلائی تو تمام جج صاحبان موجود تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ جو سعودی عرب میں ہیں‘ وہ وڈیو لنک سے میٹنگ میں شامل ہوئے۔ ابھی کئی اہم کیس ایسے ہیں جن پر فیصلہ ہونا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ لیکن کم از کم اتنا تو ابھی سے ہو گیا ہے کہ وہ جو پی ٹی آئی کے خلاف بغض والا ماحول قاضی صاحب کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ایک حصے میں موجود تھا‘ وہ ختم ہو گیا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ سوچا جائے قوم ایک بہت بڑی مصیبت سے بچ گئی ہے۔ شروع میں حکومتی ارادے تو یہ تھے کہ قاضی صاحب کو توسیع دی جائے۔ ایسا ہوتا تو تباہی مچ جاتی۔ قاضی صاحب نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑنی تھی‘ سپریم کورٹ کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچانے کیلئے۔ اس شر سے قوم بچ گئی ہے۔ انگریزی محاورہ ہے: Be grateful for small mercies۔ یعنی چھوٹی مہربانیوں کیلئے بھی شکرگزار ہونا چاہیے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ گھٹن کے ماحول میں معمولی تبدیلیوں سے ہی کچھ جگہ بنتی ہے۔ جنرل ضیاالحق جابر ڈکٹیٹر تھے لیکن جب اُنہیں الیکشن کرانے پڑے اور وزیراعظم چننا پڑا تو چیزیں اُن کے ہاتھ سے نکلنے لگیں۔ نہ قومی اسمبلی مکمل طور پر رام ہوئی نہ وزیراعظم محمد خان جونیجو تابعدار ثابت ہوئے۔ سمجھا جا رہا تھا کہ بے ضرر ہوں گے لیکن جنرل صاحب کے ساتھ پہلی میٹنگ میں ہی اُنہوں نے سوال کر دیا کہ مارشل لاء کب اُٹھے گا۔ کہتے ہیں کہ سوال سن کر جنرل صاحب ششدر رہ گئے کیونکہ ایسے سوال کی اُنہیں توقع نہ تھی۔
جنرل ضیا کے دور سے پیچھے جائیں تو ایوب خان بھی بڑے جابر حکمران سمجھے جاتے تھے‘ ہر چیز اُن کی مٹھی میں تھی‘ سیاسی نظام بھی ایسا بنایا کہ ہر چیز دب کے رہ گئی۔ لیکن 1964-65ء کا صدارتی انتخاب کرانا پڑا تو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم نے ایسا سماں باندھا کہ خودساختہ فیلڈ مارشل صاحب کی حکومت ہل کے رہ گئی۔ ووٹ تو مغربی پاکستان سے چالیس ہزار اور مشرقی پاکستان سے چالیس ہزار یونین کونسل ممبران نے ڈالنے تھے لیکن مہم میں بڑے بڑے جلسے منعقد ہوئے۔ لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتے تھے اور شاعرِ انقلاب حبیب جالب تب اپنے جوبن پر تھے۔ اُسی دور میں یہ نظم مشہور ہوئی 'ایسے دستور کو‘ صبحِ بے نور کو‘ میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘۔ اُن کی شاعری اور ادائیگی کا اثر میں نے خود چکوال میں دیکھا اور محسوس کیا۔ چودہ سال عمر تھی اور لارنس کالج میں دسویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ سالانہ امتحانات کو ایک ہفتہ رہ گیا تھا اور والد صاحب‘ جو فوتگیوں اور جنازوں پر چھٹی کے قائل نہ تھے‘ نے انگریز پرنسپل جناب چالز ورتھ کو تار بھیجی کہ مادرِ ملت چکوال آ رہی ہیں اورمیں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا یہاں آئے۔ انگریز استاد کو بھی داد دیجئے‘ مجھے بلایا اورکہا کہ ڈیڑھ دن کی چھٹی پر جاؤ۔ کوئی اور ہوتا تو ایسی چھٹی نہ دیتا۔ ہمارے گھر کے ساتھ ہی شفیع کے کٹڑے میں جلسہ ہوا اورآج تک یاد ہے کہ مادرِ ملت آئیں تو بڑے بڑے بزرگوں کی آنکھوں سے آنسو نہیں رُک رہے تھے۔ اور پھر جو ماحول شاعرِ انقلاب کی شاعری نے بنایا اُس کے نقوش آج تک دل ودماغ میں موجود ہیں۔ فیلڈ مارشل صاحب کو جتوا تو دیا گیا لیکن وہ جیت بھی ایسی ہی تھی جیسی کہ فروری 8 کے انتخابات میں سرکار کی پسندیدہ جماعتوں کی تھی۔ وہ جیت بھی کیسی جسے جیتے ہوئے امیدواروں کے دل بھی قبول نہ کریں۔ یہ حال تب تھا اوراب بھی ایسا ہی ہوا۔ اُس جیت کے بعد فیلڈ مارشل کا پرانا اعتماد نہ رہا اور اس فروری کی جیت کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ جیتنے والے شرمائے شرمائے بات کرتے ہیں۔
جنرل ضیا کے دور سے آگے آئیں تو شروع کے سالوں میں جنرل پرویز مشرف سیاہ وسفید کے مالک لگتے تھے لیکن ناسمجھی میں چیف جسٹس افتخار چودھری کا مسئلہ صحیح طور پر سمجھ نہ سکے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں اس مسئلے کو بھیج دیتے تو چیف جسٹس صاحب نے خاصا خراب ہونا تھا۔ لیکن جب زور زبردستی سے کام لینا چاہا تو ایک تو چیف جسٹس تھوڑے اکڑ گئے اور ساتھ ہی یہ تاثر ابھرا کہ ایک اہم ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اُنہیں شہ دی ہے کہ ڈٹے رہو۔ اتنی بات تو واضح تھی کہ وکلا جب کھڑے ہو گئے تو اُن پر کوئی خاص سختی نہ ہوئی۔ جہاں بھی جاتے ٹی وی کیمرے موجود ہوتے اوراُ ن کی تقریروں کو لائیو کوریج مل رہی ہوتی۔ کیمروں کا چسکا وکلا برادری کو پہلی دفعہ لگا اور اُس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ آج کل کے ماحول میں تو دیکھیں کہ میڈیا کو کیسے اپنی جگہ پر رکھا ہوا ہے لیکن یہ بات جنرل مشرف اور اُن کے حواریوں کو سمجھ نہ آئی اور تحریک بڑھتی گئی اور پھر جسٹس افتخارچودھری کی بحالی ہو گئی جس سے جنرل صاحب کا جو رعب ودبدبہ بچا ہوا تھا وہ بھی جاتا رہا۔
پاکستانی تاریخ سے سبق لیں تو یہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ جابر طالع آزماؤں کا رعب گھٹتا جاتا ہے۔ حالات ہی کچھ ایسے بن جاتے ہیں کہ اُن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ فروری 2024ء کے انتخابات کو بھی دیکھ لیجئے‘ انتخابات تو کرائے گئے اور تمام ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے ایک جماعت کو روکنے کیلئے لیکن جس دن ووٹ ڈلے اور شام ڈھلے نتائج آنے لگے تو جو بھی مہربان تھے اُن کے ہوش اڑنے لگے کیونکہ یہ توقع ہی نہ تھی کہ پاکستان کے ووٹروں نے تیارکی گئی امیدوں کا یہ حشر کرنا ہے۔ نتائج مینج تو ہوئے لیکن مینج کرنے کیلئے وہ کرتب کرنے پڑے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ لہٰذا امید رکھنی چاہیے اور وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ جلد بازیاں بہت کی جا چکی ہیں‘ اب سمجھ اور دانش مندی سے کام لینا چاہیے۔ جسٹس آفریدی بہت اچھی چوائس ہیں اور اسی وجہ سے جن کو مطمئن ہونا چاہیے تھا اب وسوسوں کا شکار ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved