تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-10-2024

جج مرضی کا چاہیے

ابھی ایک وڈیو کلپ نظروں سے گزراجس میں پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ کہہ رہے تھے کہ فیصلے اب پارلیمنٹ‘ آئین‘ قانون‘ عدالتوں میں نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہوں گے اور اس کے لیے پی ٹی آئی کو کم از کم چار لاکھ بندہ سڑکوں پر لانا ہو گا‘ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دس ‘بارہ ہزار بندوں سے کچھ نہیں ہوتا‘ وہ اسلام آباد آتے ہیں‘ دو تین ہزار کو پولیس گرفتار کر لیتی ہے‘ دو تین ہزار کو مار پیٹ کر کے تتر بتر کر دیتی ہے اور یوں لانگ مارچ یا احتجاج ناکام ہو جاتا ہے۔
یہ بات ایک پڑھا لکھا اور سمجھدار وکیل کر رہا ہے جن کی ذہانت اور سمجھداری کا میں کبھی قائل تھا۔ جو دلائل کے انبار لگا دیتا تھا‘ چاہے ٹی وی پر بیٹھے ہوں یا سپریم کورٹ میں دلائل دے رہے ہوں۔ میں نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس صاحبان کے سامنے ان کے کچھ دلائل سُن رکھے ہیں اور انہوں نے مجھے اپنی قابلیت سے متاثر کیا (یہ ان کے پاناما کیس میں نواز شریف کا وکیل بننے سے پہلے کی باتیں ہیں)۔
برسوں پہلے‘ غالباً افتخار چودھری کا دور تھا‘ مجھے ایک دفعہ ضرورت پڑی تو وہ سپریم کورٹ میں میرے ایک کیس میں بھی پیش ہوئے۔ میں نے فیس دینے کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو یہ بات معمولی لگے لیکن پھر بھی ان کا یہ عمل آج تک یاد ہے اور میں ان کا شکر گزار ہوں۔ لیکن تمام تر ذاتی شکر گزاری کے باوجود راجہ صاحب اب جس طرح کی سیاست میں پھنستے جا رہے ہیں وہ شاید ان کو سیاسی طور پر تو اوپر لے جائے لیکن ان کی باتیں اور ان کا عمل باقی معاشرے کو اس طرح فائدہ نہیں دے سکے گا جس کی ہمارے جیسے لوگ ان سے توقع رکھتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ لاہور سے بڑے بڑے نامور وکیل قومی سطح پر ابھرے اور وکالت میں اپنا نام پیدا کیا اور خوب عزت کمائی تو ان کے نام اور کام کو دیکھتے ہوئے سیاستدانوں نے ان پر اپنا جال پھینکا اور وہ بڑے بڑے وکیل وکالت سے سیاست میں گھستے چلے گئے اور بڑے عہدوں تک پہنچے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہماری سیاست کو پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کی ضرورت ہے‘ جو قومی سطح پر اپنا کردار ادا کر سکیں اور پرانی بوسیدہ سیاست اور پرانے سیاسی کرداروں سے ہماری جان چھوٹے۔ مگر یہ سیاستدان بڑے سمجھدار تھے۔ انہیں علم تھا کہ اگر ان بڑے بڑے ناموں والے وکیلوں کو پروفیشنل انداز میں اپنا وکیل کیا تو ان کی کروڑوں کی فیسیں کہاں سے ادا کریں گے اور پھر ان کے آزادانہ نخرے کون برداشت کرے گا‘ لہٰذا وہی پرانا جال پھینکا گیا کہ ان سب کو اپنی پارٹی میں لے آئو۔ انہیں پارٹی کا ممبر بنائو‘ زیادہ ٹیلنٹ ہے تو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں لے جائو۔ کسی کو وزیر‘ کسی کو اٹارنی جنرل تو کسی کو گورنر لگا دو۔ یہ سب آپ کے مقدمات بھی مفت لڑیں گے اور آپ کو یس باس بھی کہا کریں گے اور آپ کی ہر کرپشن اور ہر سکینڈل کا عدالت میں اور ٹی وی شوز پر بھرپور دفاع کریں گے۔ وکیلوں کو سیاسی سٹیٹس درکار تھا اور سیاستدانوں کو اپنی کرپشن‘ سکینڈلز اور منی لانڈرنگ کا مفت دفاع کرنے والے قابل افراد چاہئیں تھے۔ یوں دونوں کا کام چل پڑا۔ سیاستدانوں کو مفت وکیل مل گئے اور انہوں نے اپنی مار دھاڑ اور کرپشن جاری رکھی اور نامور وکلا صاحبان انہیں کلین چٹ لے کر دیتے رہے۔ ان سب ملزموں اور مجرموں کو وہ سیاسی قیدی اور نیلسن منڈیلا بنا کر پیش کرتے رہے اور قوم انہیں اپنا ہیرو سمجھتی رہی۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ عوام ان سیاسی سکینڈل زدہ لوگوں کی کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھتے۔ عوام نے خود کو ان لٹیروں میں بانٹ لیا ہے۔ سب کے اپنے اپنے پسندیدہ لٹیرے ہیں۔ لٹیرا ان کی مرضی کا ہو تو پھر اس کے دفاع میں عوام کی منطق اور دلائل سنیں۔ عوام ایسے ایسے جواز ڈھونڈ کر لائیں گے کہ خود کرپشن کرنے والا شرمندہ ہو جائے گا کہ میں تو واقعی بہت معصوم اور نیک انسان ہوں۔
عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وکیل قانون اور آئین کی سرپرستی اور بالادستی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اعتزاز احسن 2015ء میں سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ان کے بہت سے ساتھی جو افتخار چودھری کو بحال کرانے کی تحریک میں شامل تھے‘انہوں نے چیف جسٹس کے بحال ہونے کے بعد اربوں کمائے۔ جی بالکل اعتزاز احسن نے اربوں ہی کہا تھا‘ مجھے سننے یا آپ کو پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں لگی۔ موصوف نے کہا تھا کہ میں بھی چاہتا تو اربوں کما سکتا تھا‘ مجھے بھی پیشکشیں ہوئی تھیں۔ میں بھی کراچی کی مختلف پارٹیوں کے مقدمات پکڑ کر اربوں کی فیس لے کر افتخارچودھری کے سامنے پیش ہو سکتا تھا لیکن میں پیش نہیں ہوا لیکن دیگر ساتھی پیش ہوتے رہے اور اربوں کما گئے۔ اب آپ بتائیں جنہوں نے 'ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘ والے نعروں سے قوم کو پیچھے لگا کر ججز بحال کرائے تھے‘ آخر پر وہ خود اربوں روپے کما کر پتلی گلی سے نکل گئے۔
اب دوبارہ پھر وہی گولی دی جا رہی ہے کہ عدالتیں حکومت کی جانب سے دبائو کا شکار ہیں‘ آئینی ترامیم نے عدالتوں کی آزادی ختم کر دی ہے۔ اب پھر سے نئی تحریک چلائی جائے گی۔ چند برسوں بعد پھر کوئی نیا اعتزاز احسن سینیٹ میں کھڑا ہو کر انکشاف کرے گا کہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد کون سے بڑے وکیل نے کتنے بڑے کیسز لے کر اربوں کما لیے۔ذرا ملاحظہ کریں کہ ہر پارٹی کے اپنے اپنے وکیل اور اپنے وکلا گروپ ہیں۔ یہی حکمران ان وکیلوں کے گروپوں کو لاکھوں‘ کروڑوں روپے چندہ دیتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں ان کی سپورٹ کرتے ہیں تاکہ کل کلاں اگر وہ کرپشن اور سکینڈلز پر پکڑے جائیں تو یہ وکیل اور ان کی بارز ان کی حمایت میں جلوس نکالیں اور انہیں مظلوم اور معصوم ثابت کریں اور بدلے میں وزارتیں‘ گورنر شپ یا اٹارنی جنرل کے عہدے پائیں۔ یہ وہ کھیل ہے جو برسوں سے ہم دیکھتے آئے ہیں۔ اس سکرپٹ میں کہیں پر کوئی فل سٹاپ یا کامہ کی بھی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ ملک کے مشہور ہوٹلوں کی چین کے مالک نے بڑے فخریہ انداز سے کہا تھا کہ مجھے بینظیر بھٹو نے بڑا زور لگایا کہ سینیٹر بن جائو مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا: آپ سمجھدار نکلے اور اچھے بزنس مین ثابت ہوئے ورنہ یہ وہ جال تھا جو تمام اہم لوگوں پر پھینکا جاتا ہے‘ چاہے وہ جج ہو‘ جنرل ہو‘ جرنلسٹ ہو‘ کوئی بڑا وکیل ہو یا ارب پتی بزنس مین۔ مقصد وہی ہوتا ہے کہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر خود کو مہان ثابت کیا جائے اور یہ سب دن رات خود ساختہ کہانیاں سادہ لوح عوام کو سنا کر ان لیڈروں کو نیلسن منڈیلا ثابت کرتے رہیں۔
ہم جیسوں کو امید تھی کہ شہروں سے کچھ پڑھے لکھے لوگ سیاست میں آئیں گے تو سیاست کے اطوار بدلیں گے۔ لوگوں کو‘ جو صدیوں سے جاگیردارنہ سیاست کے شکنجے میں ہیں‘ کچھ آزادی کے سانس میسر آئیں گے۔ شہری بابو دیہاتی سیاستدانوں سے بہتر ثابت ہوں گے۔ ٹائی کوٹ لگائے گورنمنٹ کالج‘ ایف سی کالج‘ ایچیسن کالج‘ پنجاب یونیورسٹی‘ کیمبرج‘ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بابوز ہماری تقدیر بدل دیں گے لیکن سلمان اکرم راجہ کی وڈیو دیکھی‘ جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ملک میں تبدیلی آئینی‘ سیاسی‘ پارلیمانی یا عدالتی طریقوں سے نہیں آئے گی‘ آپ کو چار‘ پانچ لاکھ بندہ سڑکوں پر لانا پڑے گا۔ اگر ایک بڑا وکیل بھی قانون‘ عدالت‘ آئین یا پارلیمنٹ پر یقین نہیں رکھتا اور اسے بھی سڑکوں پر لاکھوں بندے درکار ہیں تو اندازہ کر لیں کہ بندہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ‘ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وکیل خود بھی اُس عدالت پر یقین نہیں رکھتا جہاں سے اس کی روزی روٹی چلتی ہے۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے حکومتی وکیل ہوں یا عمران خان کے حامی‘ ان وکیلوں کو جج اپنی مرضی کا چاہیے تاکہ بقول اعتزاز احسن‘ مقدموں میں اربوں کما کر پتلی گلی سے نکل جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved