ماضی میںلوگ ہر نئی حکومت آنے پر ‘ سابقہ حکومت کو یاد کیا کرتے تھے۔ کیونکہ آنے والی حکومت‘ سابقہ سے بھی زیادہ تکلیف پہنچایا کرتی تھی۔مگر جب ایک اور نئی حکومت آتی‘ تو پچھلی دونوں حکومتوں کی طرف سے عوام کو پہنچائی گئی مجموعی تکالیف کو بھلا دیتی اور لوگ آنے والی حکومت کے ظلم و ستم پر توبہ توبہ کر اٹھتے۔ اس مرتبہ جو نئی حکومت آئی‘ اس نے سارے ہی ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اب عوام کو ماضی یاد کرنے کے لئے حکومت بدلنے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اللہ بھلا کرے اسحق ڈار صاحب کا‘ اب ہر نیا دن‘ پچھلے دن سے زیادہ تکلیف دہ ہو رہا ہے۔ اب لوگ پچھلی حکومت کو نہیں‘ گزرے دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس سے تو کل کا دن ہی اچھا تھا۔ کل ہمیں پیاز خریدنے کو مل جاتاتھا۔ اب تو بھائو پوچھ کے کپکپی لگ جاتی ہے۔‘‘ پھر بھی ایک خیال سہارا دے دیتا ہے کہ ’’چلو بھارت والے تو ہم سے مہنگا خرید رہے ہیں۔ ‘‘اس معاملے میں پاکستان اوربھارت کی حکومتیں ایک دوسرے کے عوام کو بہت سہارے دیتی ہیں۔ جب بھارت کے لوگ کسی چیز کو ترستے ہیں اور وہ ہمیں دستیاب ہو‘ توہم وہ چیز مہنگی خرید کر بھی بھنگڑے ڈالتے ہیں اور اگر بھارت والے کوئی چیز ہمارے مقابلے میں سستی خریدنے لگتے ہیں‘ توکتھاکلی کرنے سے وہ بھی باز نہیں آتے۔ ہم ایک دوسرے کو بہت خوشیاں دیتے ہیں۔ ایسے پڑوسی دنیا میں شاید ہی کہیں اور رہتے ہوں۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم اپنی پچھلی حکومتوں پر بھارت سے ملنے والی خوشی کو ترجیح دیں۔ بھارت کے ساتھ دشمنی ہی سہی لیکن ہماری سابقہ حکومتوں کی پہنچائی ہوئی تکلیفیں‘ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہیں اور جو نئے ریکارڈ موجودہ حکومت قائم کر رہی ہے‘ ان کی تو بات ہی نرالی ہے۔ پہلے والی حکومتوں کی تسلی صرف زخم لگاکے ہو جاتی تھی۔ مگر ہماری موجودہ حکومت کی تسلی صرف زخم لگانے سے نہیں ہوتی۔ یہ زخموں پر نمک بھی چھڑکتی ہے اور اس کے لئے ایسے ایسے طریقے اختیار کرتی ہے‘ جو پرانے زمانے کے ماہر جراحوںکے خیال و خواب میں بھی نہیں آتے ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے ڈیزل اور پیٹرول کا استعمال اتنی کثرت سے ہو رہا ہے کہ جراحوں نے اصل آلات جراحت کو بھی ایسی ہنرمندی سے استعمال نہ کیا ہو گا۔ موجودہ حکومت نے جو نیا طریقہ ایجاد کیا ہے‘ وہ اذیت پسندی میں کمال حاصل کرنے والی حکومتیں بھی نہیں کر پائی ہوں گی۔ یہ حکومت ہر سات آٹھ دنوں کے بعد رات کے بارہ بجے‘ جب عوام گہری نیند سوئے ہوتے ہیں‘ چار پانچ اور کئی بار دس روپے فی لیٹر‘ ڈیزل یا پٹرول کا نرخ بڑھا دیتی ہے اور متوسط طبقے کے لوگ صبح کے وقت آنکھ کھولتے ہی اخبار یا ٹی وی دیکھ کے بلبلانا شروع کر دیتے ہیں اور گھر میں کھڑے سکوٹر یا موٹر سائیکل کی طرف دیکھ دیکھ کے ‘ ان کی آواز میں تیزی آنے لگتی ہے۔ کاروں والے چیخنے چلانے کی بجائے‘ ٹھنڈی سی بے آواز آہیں بھر کے صبر کرتے ہیں اور جن کے پاس اپنی کوئی سواری نہیں‘ وہ اپنے آپ کو یوںرکشہ یا بس کے حوالے کرتے ہیں‘ جیسے بکرابے بس ہو کر قصائی کے قابو میں آتا ہے۔ مہنگائی کے یہ بڑے بڑے چیرے تو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن جب زخموں پر ارزانی کا نمک چھڑکا جاتا ہے‘ تو عوام کی چیخیں اور کراہیں سننے کے قابل ہوتی ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ڈیزل‘ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں ایسا ہولناک اضافہ کیا گیا‘ جو کسی بہت بڑے چیرے سے کم نہیں تھا۔ ابھی یہ زخم تازہ ہی تھے کہ کل رات ان زخموں پر ارزانی کا نمک اس بے رحمی سے چھڑکا گیاکہ عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اسے بدذوقی سمجھیں یا بے رحمی؟ خدا گواہ ہے ‘ کبھی کسی حکومت نے اپنے عوام کا اتنا برا حال نہیں کیا ہو گا‘ جو پچھلے چار مہینوں سے کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی کے پانی میں ڈبکی پر ڈبکی دی جاتی ہے اور سانس لینے کا سلسلہ بحال بھی نہیں ہوتا کہ گردن دبوچ کے نئی ڈبکی لینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے ٹیلیویژن پر بے بس اور بے چارگی کے مارے عوام کے وہ تبصرے سنے ہوں‘ جو تازہ زخموں پر نمک لگنے کی اذیت کا اظہار کرتے ہوئے‘کئے گئے‘ تو یقینا آپ کا دل بھی تڑپ کے رہ گیا ہو گا۔ ایک نوجوان کہہ رہا تھا ’’مہنگائی تو روپوں کے حساب سے بڑھتی ہے اور کمی پیسوں میں کی جاتی ہے۔‘‘ایک اور بزرگ موٹر سائیکل پر بیٹھ کے یوں آنکھیں بند کر رہے تھے‘ جیسے ابھی بیہوش ہونے والے ہوں۔ انہوں نے لرزتی آواز میں کہا ’’یہ قیمتوں میں کمی کی گئی ہے؟ یا ہمارا مذاق اڑایا گیا ہے؟‘‘ سوزوکی کار میں بیٹھے ایک نوجوان نے‘ جو انتہائی اشتعال کے عالم میں تھا‘ حددرجہ نفرت کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا ’’ایہناں دی… ہن کی آکھاں؟ خیرہووے؟‘‘ خیرہووے کہنے کا لہجہ اتنا خاردار تھاکہ اس کی چبھن گالی سے بھی زیادہ نوکیلی محسوس ہوئی۔ ان دنوں موسم تبدیل ہو رہا ہے‘ اس میں زکام بڑی کثرت سے ہوتا ہے اور عام لوگ عموماً اس وبائی موسم میں ہر طرف نزلے کو دیکھ کر بہت بیزار نظر آتے ہیں۔ یہ کمبخت جب کسی انسان کو ہوتا ہے‘ تو اس کی حالت بگاڑ کے رکھ دیتاہے۔ آنکھیں درد سے دکھنے لگتی ہیں۔ ناک سے پانی بہتا ہے۔ سر میں درد تلملاتا ہے اور گلے سے بلغم نکالنے کے لئے یوں زور لگانا پڑتا ہے‘ جیسے صحرا میں زمین کی گہرائیوں میں دور تک جا کر پانی ڈھونڈنا پڑگیا ہو۔ عموماً موسمی بیماریوں کی ناگہانی آمد پر عوام خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے‘ وبائی امراض سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وبائی امراض اتنے اذیت ناک نہیں ہوتے‘ جس قدر بے موسمی مہنگائی‘ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ موسمی بیماریاں اپنے وقت پر آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ لیکن مہنگائی نے تو ایسے ڈیرے ڈالے ہیں کہ جانے کا نام نہیں لیتی۔ یوں پلٹ پلٹ کے حملہ آور ہوتی ہے کہ غالب کا یہ مصرعہ یادآ جاتا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا کبھی آپ نے مہنگائی کواس طرح پلٹ پلٹ کے وار کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ جس طرح کہ آج کل ہو رہا ہے؟ آپ ڈاکٹر سے دوا لکھوا کر میڈیکل سٹور پہ جائیں‘ تو پوچھتے وقت وہ ایک قیمت بتاتا ہے اور جب شاپر میں خریدی گئی دوائیں آپ کے سپرد کرنے لگتا ہے‘ تو قیمت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب پانچ چھ دنوں کے بعد آپ ڈاکٹر کو حال بتانے جاتے ہیں‘ تو ڈاکٹر کی فیس بھی آپ کو دوبارہ دینا پڑتی ہے۔ حالانکہ اس نے اپنی ہی اس تجویز کردہ دوا کے اثرات دیکھ کر آپ کو صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ دوا کا استعمال مزید چار دن کرنا ہے یا چھ دن؟ وہاں بھی کسی کو آپ کی خیریت مطلوب نہیں ہوتی۔ مہنگائی کے روز بروز لگنے والے یہ تھپیڑے ہی کیا کم ہیں کہ مزید مہنگائی کے خوف کے تازیانے ہمارے انتظار میں رہتے ہیں۔ اخبار کی سرخیوں سے گھبرا کے‘ آپ اسے ایک طرف رکھ کر تازیانوں سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ٹی وی کا کیا کریں؟ جیسے ہی کسی نئی خبر کے لئے ٹی وی کھولتے ہیں‘تو آنے والی مہنگائی کا تھپیڑا یوں آپ کی طرف بڑھتا ہے‘ جیسے تھری ڈی فلم دیکھتے وقت یوں محسوس ہوکہ فلمی کردار کی طرف سے پھینکا گیا نیزہ‘ آپ کی آنکھ میں لگ رہاہے۔تازہ خبر یہ ہے کہ اگلے چند روز کے اندر گیس اڑنا بند ہو جائے گی اور آپ کے ہوش اڑنا شروع ہو جائیں گے۔ بیگم صاحبہ ٹھنڈے چولہے کے پاس بیٹھی ٹھنڈی سانسیں بھر رہی ہوں گی۔ بچے سکول جانے کو بے تاب ہوں گے۔ خودکام کے لئے آپ کا گھر سے باہرنکلنامسئلہ بن چکا ہو گا۔بچے ساتھ لے کر ناشتہ کئے بغیر گھر سے نکلنا پڑے گا۔ کیونکہ گیس صرف ڈیڑھ دو گھنٹے آئے گی۔ ناشتہ تیار کرنے کے یہ دو گھنٹے کون سے ہوں گے؟ اس کا اختیار گیس فراہم کرنے والی کمپنی کے ہاتھ میں ہو گا۔اگر بجلی اور گیس بیک وقت نہیں آئیں گے‘ تو پھر چائے بنا کر آپ بجلی کے انتظار میں بیٹھ رہیں گے کہ کب آئے گی؟ اور کپڑے استری ہوں گے؟ اور جب کپڑے استری ہوں گے‘ تو گیس جا چکی ہو گی اور چائے ٹھنڈی پینا پڑے گی۔چولہے پر کپڑے استری نہیں ہو سکتے اور استری پر چائے نہیں بن سکتی۔ مگر حکومت آپ کو یہ دونوں چیزیں الگ الگ دے رہی ہو گی۔ اس طرح کی زندگی میں آپ کو بے شمار کرتب سیکھنے کے مواقع ضرور ملیں گے۔ مثلاً استری پر چائے بنانا یا چولہے سے کپڑے استری کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر رات کے بارہ بجے کا خوف تو ہر وقت ہم پر طاری رہے گا۔ خدا جانے وہ کس رات کے بارہ بجے ہوں گے‘ جب حکومت ہم پر مہنگائی کا نیا وار کرے گی اور ہم روزانہ سونے سے پہلے سوچا کریں گے کہ ’’آج رات بارہ بجے مہنگائی کا زخم لگے گا یا زخموں پر نمک چھڑکا جائے گا؟‘‘ یاد رکھیے! رات کے بارہ بجے اک ڈار کا سایہ نکلتا ہے‘ جسے لوگ ڈراوا کہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved