یہ بالی وڈ کے معروف اداکار راج کمار کی کہانی ہے جو بلوچستان کے شہر لورا لائی میں پیدا ہوا اور جسے ایک دن قسمت انگلی پکڑ کر بمبئی لے گئی اور شہرت کی بلند مسند پر جا بٹھایا۔ وہ آٹھ اکتوبر 1926ء کا دن تھا جب لورا لائی کے ایک کشمیری پنڈت گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام کلبھوشن پنڈت رکھا گیا جس نے بڑے ہو کر راج کمار کے نام سے بالی وڈ پر راج کرنا تھا۔ راج نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1949ء میں تلاشِ روزگار کے لیے بمبئی کا رُخ کیا جہاں اسے بمبئی پولیس میں سب انسپکٹر کی نوکری مل گئی۔ وہ قد کاٹھ سے واقعی پولیس افسر لگتا تھا۔ اس وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی شخصیت کی وجاہت ایک دن اسے فلمی دنیا کی دہلیز پر لے جائے گی۔
راج کمار کے فلمی دنیا میں آنے کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے۔ وہ جہاں رہتا تھا اس کے گھر کے سامنے ایک جج صاحب رہتے تھے‘ ان کے ایک بھائی علی کی راج سے دوستی تھی‘ وہ اکثر راج سے کہا کرتا کہ راج کی شخصیت فلمی دنیا کے لیے بنی ہے۔ ادھر راج کو فلموں اور فلمی دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی‘ اس نے کبھی فلم نہیں دیکھی تھی۔ تب علی کے ذریعے راج کمار کی تصاویر جب اُس وقت کے معروف ڈائریکٹر نجم نقوی تک پہنچیں تو وہ راج کمار سے ملنے تھانے پہنچ گئے۔ یہ وہ ملاقات تھی جس نے راج کمار کی زندگی کا رخ بدل دیا اور راج پولیس کی ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا کی چکا چوند روشنیوں میں آگیا۔ یوں بھی اس کا مزاج پولیس کی ملازمت کیلئے موزوں نہ تھا‘ وہ پڑھا لکھا اور فلسفیانہ مزاج کا مالک تھا۔ راج کمار کی پہلی فلم ''رنگیلی‘‘ تھی جو 1952ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں راج کمار کے ساتھ وحیدہ رحمن تھیں۔ یہ ایک رومانوی فلم تھی۔ اس کے بعد راج کمار نے آبشار ( 1953ء) اور گھمنڈ (1955ء) میں کام کیا۔
راج کمار فلمی دنیا میں اپنے سفر کا آغاز کر چکا تھا۔ اس نے کئی کامیاب فلموں میں کام کیا تھا لیکن ابھی تک اسے کوئی ایسی فلم نہیں ملی تھی جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا پوری طرح اظہار کر سکے اور بطور اداکار خود کو منوا سکے۔ اسے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا جب ہندوستان کے معروف ڈائریکٹر محبوب خان نے اسے اپنی فلم ''مدر انڈیا‘‘ میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ اس فلم میں راج کمار کے ساتھ نرگس‘ سنیل دَت اور راجندر کمار تھے۔ مدر انڈیا 1957ء میں ریلیز ہوئی اور فلمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ ہندوستان کی پہلی فلم تھی جسے اکیڈمی ایوارڈ میں غیرملکی زبانوں میں بننے والی فلموں کی کیٹیگری میں نامزد کیا گیا۔ اس فلم نے راج کمار کی شہرت کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔
اس کے بعد راج نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور شہرت کے زینے پر قدم بہ قدم آگے بڑھتا گیا۔ 1959ء میں ایک اور فلم ''پیغام‘‘ ریلیز ہوئی جس نے باکس آفس پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس فلم میں راج کمار کے ساتھ دلیپ کمار اور وجنتی مالا تھے۔ 1960ء میں ''دل اپنا اور پریت پرائی‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم بھی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اسی فلم میں شیلندر پر لکھے ہوئے گیت ''عجیب داستاں ہے یہ‘ کہاں شروع کہاں ختم‘‘ کو لتا نے اپنی مدھر آواز سے امر بنا دیا تھا۔ اگلے برس راج کمار کی ایک اور فلم سپرہٹ ہوئی‘ اس کا نام تھا ''گھرانہ‘‘۔ اس فلم میں اس کے ساتھی اداکاروں میں راجندر کمار اور مینا کماری شامل تھے۔ 1964ء میں راج کمار کی ایک اور فلم ''زندگی‘‘ راجندر کمار اور وجنتی مالا کے ساتھ آئی۔
1965ء راج کمار کے لیے ایک اہم سال تھا‘ اس میں وہ یش چوپڑا کی دو فلموں ''وقت‘‘ اور ''کاجل‘‘ میں بطور ہیرو آیا۔ دونوں فلمیں بلاک بسٹر ثابت ہوئیں۔ اب راج کمار کا نام فلموں میں کامیابی کی ضمانت بن چکا تھا۔ اس کی اگلی فلم ''اونچے لوگ‘‘ تھی جسے نیشنل فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ 1967ء میں راج کمار کی ایک فلم ''ہمراز‘‘ آئی جس نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس فلم میں راج کے ہمراہ سنیل دت نے مرکزی کردار ادا کیا۔ فلم کی موسیقی رَوی نے دی اور گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے۔ اس فلم کا ایک گیت ''نیلے گگن کے تلے دھرتی کا پیار پلے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت راج کمار پر فلمایا گیا تھا۔
اب راج کمار فلمی دنیا میں اپنے قدم جما چکا تھا۔ ابھی تک اس نے شادی نہیں کی تھی۔ اسے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت تھی جو زندگی کے سفر میں اس کا ساتھ دے۔ زندگی میں قسمت ہمیں ایسے لوگوں سے ملا دیتی ہے جن کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سوچا ہوتا۔ راج کمار کو بھی جینفر ایک ہوائی سفر میں ملی جہاں وہ ایئر ہوسٹس تھی۔ جینفر ایک اینگلو انڈین لڑکی تھی۔ شادی کے بعد اس نے اپنا نام بدل کر گیاتری کمار رکھ لیا۔ یہ ایک کامیاب شادی ثابت ہوئی۔ اس شادی سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ راج کمار کی طرح اس کے بچے بھی فلمی دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
60ء کی دہائی کا اختتام راج کمار کی دو اہم فلموں سے ہوا جن میں ایک ''میرے حضور‘‘ اور دوسری ''نیل کمل‘‘ تھی۔ ''نیل کمل‘‘ جس میں اس کے ساتھی اداکار منوج کمار اور وحیدہ رحمن تھے‘ بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ 1970ء میں راج کمار کی فلم ''ہیر رانجھا‘‘ ریلیز ہوئی جس میں مدن موہن کی موسیقی تھی اور جس کا ایک گیت محمد رفیع کی آواز میں امر ہو گیا۔ اس گیت کے بول تھے ''یہ دنیا‘ یہ محفل میرے کام کی نہیں‘‘۔
1972ء میں راج کمار اور مینا کماری کی فلم ''پاکیزہ‘‘ ریلیز ہوئی جو فلمی دنیا کی کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے سارے ہی گیت اپنی مدھر دھنوں اور دلکش گائیکی کے سبب لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔ ''پاکیزہ‘‘ کے بعد راج کمار کے فلمی کیریئر کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ اس کی آنے والی پے در پے فلمیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔ ناکامیوں کا یہ عرصہ آٹھ نو سال تک رہا۔ لیکن راج کمار نے ہمت نہ ہاری۔ آخر 1981ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''بلندی‘‘ نے باکس آفس پر ریکارڈ بزنس کیا۔ اور راج کمار ایک بار پھر کامیابی کی شاہراہ پر چلنے لگا۔ اور پھر اسے دلیپ کمار کے ساتھ فلم ''سوداگر‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ 32 برس پہلے دونوں نے فلم پیغام میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ کہتے ہیں راج کمار اپنے مزاج کا مالک تھا‘ پولیس میں ملازمت کے بعد وہ ڈسپلن کا عادی تھا اور فلمی دنیا میں بھی ڈسپلن چاہتا تھا۔ اس کی اپنی ایک خیالی دنیا تھی۔ اسے فطرت سے پیار تھا۔ آسمان‘ سمندر‘ دریا اور ہوائیں اس کی توجہ کا مرکز تھیں۔ وہ ایک پڑھا لکھا انسان تھا‘ ہندی‘ پنجابی اور انگریزی سہولت سے بولتا تھا۔ راج کی فنی عظمت کا اعتراف ان ایوارڈز کی صورت میں کیا گیا جو راج کمار کو مختلف اوقات میں ملے۔
1991ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''سوداگر‘‘ نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔ راج کمار کی آخری بلاک بسٹر فلم ''ترنگا‘‘ تھی۔ اب راج کی صحت رو بہ زوال تھی اور وہ چکا چوند زندگی سے اچانک تنہائی کے حصار میں آگیا تھا۔ جب وہ اپنے گھر میں اکیلا ہوتا تو اسے اپنے بچپن کا گھر یاد آتا جو بلوچستان کے شہر لورا لائی میں تھا۔ جہاں کھلا آسمان تھا‘ سر بفلک پہاڑ تھے۔ رات کے وقت آسمان پر تارے چمکتے تو یوں لگتا جیسے کسی وسیع و عریض باغ میں موتیے کے سفید پھول کھل اُٹھے ہوں۔ ایسے میں اس کے د ل میں خواہش مچلتی کہ ان پھولوں کو اپنے دامن میں بھر لے۔ وہ کتنی ہی دیر چشمِ تصور میں اپنے بچپن کے گھر کے در و دیوار دیکھتا رہتا۔ پھر ایک دن وہ طویل بیماری سے ہار گیا اور تین جولائی 1996ء کو راج کمار اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ بلوچستان کے شہر لورا لائی سے طلوع ہونے والا آفتاب بمبئی کے اُفق میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved