تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     31-10-2024

افغانستان: ایک نئی تجربہ گاہ؟

افغانستان میں ٹی وی بند کر دیا گیا ہے۔ اب ابلاغ صرف ریڈیو کے ذریعے ہو گا۔ کیا آنے والے دنوں میں افغانستان ایک نئے طرز کی تجربہ گاہ بن سکے گا؟
استدلال یہ ہے کہ اسلام میں جاندار کی تصویر حرام ہے۔ اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ٹی وی تو کھیل ہی چلتی پھرتی تصویروں کا ہے۔ جاندار کی تصویر کے بغیر ٹی وی کا تصور محال ہے۔ اس لیے اگر اسلام پر عمل کرنا ہے تو اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ٹی وی فلم وغیرہ کو بند کر دیا جائے۔
طالبان کے فہمِ اسلام کو سامنے رکھیے تو یہ اقدام حیران کن نہیں۔ انہوں نے اس کو چھپایا ہے نہ کبھی اس پر معذرت خواہانہ رویہ اپنایا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اسلام پر عمل کیا جائے۔ ہم میں سے جو بھی اسلام پر عمل کرتا ہے‘ اپنی تفہیمِ مذہب کے مطابق ہی کرتا ہے۔ طالبان بھی یہی کرتے ہیں۔ ہم میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ ہم جسے اسلام سمجھتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں اکثریت کا فہمِ اسلام وہی ہے جو طالبان کا ہے۔ ہم مگر دوغلے پن کا شکار رہتے اور ساری عمر ایک احساسِ گناہ کے ساتھ جیتے ہیں۔ طالبان عام طور پر اس دوغلے پن کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ ان معاملات میں مصلحت‘ عالمی دباؤ اور نفع نقصان جیسی اقدار سے بے نیاز رہتے ہیں۔ کیا یہ بے نیازی ہونی چاہیے؟ یہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ مقصود صرف امرِ واقعہ کا بیان ہے۔
طالبان نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ طالبان کی اس سوچ کا ماخذ کیا ہے؟ طالبان ہر مسلمان کی طرح یہ چاہتے ہیں کہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی شریعت کے مطابق ہو۔ شریعت سے ان کی مراد قدیم فقہا کی تفہیمِ دین ہے۔ اس 'شریعت‘ کے مطابق جو حرام ہے‘ وہ حرام ہے اور جو حلال ہے وہ حلال ہے۔ جاندار کی تصویر کو فقہا نے حرام کہا ہے۔ حرام حلال معمولی مسئلہ نہیں۔ ساری دنیا مل کر بھی حرام کو حلال قرار نہیں دے سکتی۔
حرام کو کسی صورت گوارا نہیں کیا جا سکتا اِلّا یہ کہ معاملہ اضطرار ہو۔ اگر جان پر بنی ہو تو حرام کو اس حد تک حلال کیا جا سکتا ہے کہ جان بچ جائے۔ تصویر ان کا خیال ہے کہ اضطرار کا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے جان کا ضیاع وابستہ نہیں۔ ہم اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب ہر نئی ایجاد کو قبول کرنا بھی تو لازم نہیں۔ شریعت نے جسے حرام کہا ہے‘ وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ ہم اسے حیلوں سے حلال نہیں بنا سکتے۔ مکرر عرض ہے کہ شریعت سے ان کی مراد فقہ ہے۔
ہمارے علما اور طالبان کے فہمِ دین میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے علما بھی قدیم فقہا کی آرا سے باہر نکلنے کو پسند نہیں کرتے۔ تصویر کے معاملے میں ہمارے علما کا فتویٰ بھی حرمت ہی کا ہے۔ تاہم متحرک تصویر (video) چونکہ ایک 'نیا مسئلہ‘ ہے‘ اس لیے اس باب میں ان علما نے 'اجتہاد‘ کیا ہے اور اس کو جائز کہا ہے۔ اس کا استدلال ان کے فتاویٰ میں موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے علما تصویر سے گریز کرتے ہیں اور نہ ٹی وی سے۔ اب دونوں میں سے کس کا طرزِ عمل درست ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ طرزِ عمل اسی کا درست ہو سکتا ہے جس کا عمل اس کے فہم کے مطابق ہے۔
طالبان کی اس خوبی کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے کہ وہ جسے دین سمجھتے ہیں‘ اس پر عمل کرنے اور اس کو بیان کرنے میں کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے۔ اس اعتراف کے ساتھ سوال یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل کیا افغانستان کی ترقی کا ضامن بن سکتا ہے؟ بظاہر یہ وقت کی مخالف سمت کا سفر ہے۔ تعلیمِ نسواں کے باب میں بھی طالبان یہ بتا چکے کہ انہیں اس بات کی کچھ پروا نہیں کہ دنیا کیا چاہتی ہے۔ اس وقت بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا اور تصویر کے بارے میں نئے حکم نے بھی یہی سوال پھر سے اٹھا دیا ہے۔
اس بحث کو ظاہر ہے کہ ان دو معاملات تک محدود نہیں رہنا۔ دنیا ورچوئل ہو رہی ہے اور زمین آسمان بدل رہے ہیں۔ اس نوعیت کے سوالات قدم قدم پر پیش آئیں گے۔ اب طالبان مسلم دنیا میں ایک نیا تجربہ بھی ہو سکتا ہے۔ افغانستان ایک ایسا جزیرہ بھی بن سکتا ہے جہاں زندگی قدامت کے ساتھ زندہ ہو۔ جہاں لوگ جدیدیت کو مسترد کرکے بھی پُرامن زندگی گزار سکتے ہوں۔
اس نوعیت کے تجربات دنیا میں اور مقامات پر بھی کیے گئے ہیں۔ ایک تجربہ گاہ امریکہ میں بھی ہے جہاں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ وہاں ایک گروہ آباد ہے جنہیں امیش (Amish) کہتے ہیں۔ انہوں نے دورِ جدید کی ہر ایجاد اور علامت کو خود پر حرام قرار دے رکھا ہے۔ وہاں بجلی نہیں ہے۔ گاڑی نہیں ہے۔ سواری اور مال برداری کے لیے گھوڑے استعمال ہوتے ہیں۔ مضبوط خاندانی نظام ہے جہاں تین تین نسلیں ایک گھر میں رہتی ہیں۔ میں نے یہ علاقہ اور اس رہن سہن کو بچشمِ سر دیکھاہے۔ ہمیں افریقہ میں بھی اس طرح کے قبائل ملتے ہیں۔
ان لوگوں نے جدیدیت کی ہر شے کو مسترد کیا ہے۔ اس میں سرِ فہرست بجلی ہے۔ بجلی جدیدیت کا دروازہ ہے۔ اس کو کھول دینے کے بعد ہم اس کے دیگر مظاہر کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔ ریڈیو بھی جدیدیت کا ایک مظہر ہے۔ اس میں بھی محرم اور غیرمحرم کی آواز کا مسئلہ ہے۔ کیا افغانستان میں خواتین کے لیے خواتین کی آواز والے ریڈیو ہوں گے اور مردوں کے لیے مردودں کی آواز والے؟ سنا ہے کہ طالبان بڑے بڑے ڈیم بنا رہے ہیں۔ کیا جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر یہ ممکن ہو سکے گا؟
تجربہ یہ ہے کہ جدیدیت کو اگر رد کرنا ہے تو پھر اسے پوری طرح رد کرنا ہو گا۔ اگر اس کے کسی ایک مظہر کو جائز رکھا گیا اور دوسرے کا انکار کیا گیا تو آدھا تیتر آدھا بٹیر کے طرز پرکوئی نظام نہیں چل سکے گا۔ طالبان یہی تجربہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے جدیدیت کے بعض مظاہر کو اپنا لیا اور بعض کو رد کر دیا ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں ایک فیصلہ کرنا ہو گا۔ تیتر بننا پڑے گا یا بٹیر۔
طالبان جو تجربہ کر سکتے ہیں‘ وہ دلچسپ ہو سکتا ہے۔ اگر وہ یکسو ہو کر قدیم طرز کی ایک مملکت بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ایک متبادل ریاستی ماڈل بن سکتا ہے۔ امیش کو یہ آسانی ہے کہ وہ ایک ریاست کے اندر ایک علاقے میں آباد ہیں جہاں ان پر ریاست کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں اور جدید دنیا سے ان کو براہِ راست کوئی تعلق قائم نہیں کرنا۔ طالبان کو ایک خود مختار ریاست چلانی ہے‘ اس لیے ان کے لیے یہ تجربہ مشکل ہوگا۔ تاہم اگر وہاں کے عوام اسے قبول کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں کہ انہیں اس کا موقع دیا جائے۔
خلافتِ راشدہ میں ریاستِ مدینہ کیسی تھی؟ طالبان چاہیں تو افغانستان کو اسی جگہ لے جائیں۔ اپنی سرحدوں پر امن لے آئیں اور سب ہمسائیوں سے اچھے تعلقات قائم کریں تاکہ جدید دنیا سے انہیں کوئی خطرہ نہ ہو اور جدید دنیا کو ان سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ دنیا اپنی ترقی اور اقدار اپنے پاس رکھے اور افغانستان کو یہ حق مل جائے کہ وہ حسبِ منشا ایک ریاست بنا لیں۔ اگر کسی کو ان سے تجارت وغیرہ کرنی ہے تو ان کی شرائط پہ کرے ورنہ انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دے۔
کہتے ہیں آنے والے دنوں میں انسان جدید دنیا سے اُکتا جائے گا اور قدیم معاشرت کی طرف لوٹے گا۔ کیا معلوم طالبان سے تاریخ کے اس 'دورِ جدید‘ کا آغاز ہو رہا ہو۔ اُکتائی ہوئی انسانیت کے لیے کوئی متبادل عالم تشکیل میں ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved