تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     31-10-2024

اسرائیلی جارحیت کے علاقائی اثرات

26 اکتوبر کی رات اسرائیلی بمبار طیاروں‘ جنہیں اسرائیلی حکام کے مطابق امریکہ کی طرف سے فضائی تحفظ حاصل تھا‘ نے یکے بعد دیگرے تین حملوں میں ایران کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی محکمہ دفاع کے مطابق ایران پر یہ حملہ دو اکتوبر کے ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں کیا گیا اور اگر ایران نے اس کے جواب میں اسرائیل کو پھر سے حملے کا نشانہ بنایا تو اسرائیل دوبارہ جواب دے گا۔ دوسری طرف ایران نے اسرائیل کے ان فضائی حملوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ملک کے مختلف تنصیبات کو نشانہ بنایا مگر ایران کے فضائی دفاعی نظام کی وجہ سے ان تنصیبات کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ اسرائیل اور ایران ایک دوسرے سے 2300 کلو میٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں اور راستے میں اُردن‘ شام اور عراق ہونے کی وجہ سے اسرائیلی بمبار طیاروں کو نہ صرف ان ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کیلئے اجازت نامے کی ضرورت ہے بلکہ پرواز کے دوران جہاز کی ری فیولنگ بھی ناگزیر ہے۔ اسرائیلی طیاروں کو یہ سہولت امریکی طیاروں نے فراہم کی مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایران پر حملہ کرنے کیلئے اسرائیلی طیاروں نے کون سا روٹ اختیار کیا اور کیا اسے راستے میں پڑنے والے عرب ممالک نے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی؟ اگر ایسا ہوا ہے تو اس کے مستقبل میں ایران‘ عرب تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کے جواب میں ایران نے دو اکتوبر کو جب اسرائیل پر تقریباً 200 کے قریب میزائلوں سے حملہ کیا تبھی اسرائیل کی طرف سے ایران پر جوابی حملے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا‘ اس لیے اسرائیل کا 26 اکتوبر کو ایران پر فضائی حملہ باعثِ حیرت نہیں۔ اگرچہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکہ نے ایران پر حملے میں براہِ راست حصہ نہیں لیا لیکن اس حملے میں اسرائیل کو امریکہ کی مکمل امداد‘ سہولت کاری اور پشت پناہی حاصل تھی۔
قبل ازیں دو اکتوبر کو جب ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے تھے تو اسرائیل کی جوابی حملے کی دھمکی کی امریکہ نے نہ صرف تائید کی تھی بلکہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ اسرائیل پر کسی بھی حملے کو ناکام بنانے کیلئے اسرائیل کی ہر قسم کی حمایت کرے گا۔ یہاں تک کہ اسرائیل کی تسلی کیلئے امریکہ نے بحیرۂ روم میں پہلے سے موجود بحری طاقت میں اضافہ کرنے کیلئے جنوبی بحر اوقیانوس سے مزید جنگی جہاز مشرقِ وسطیٰ کی طرف روانہ کر دیے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایران کے ممکنہ حملے کو ناکام بنانے کیلئے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم اور ایف16 طیارے بھی اسرائیل بھیجے تھے۔ امریکی سیکرٹری برائے دفاع لائیڈ آسٹن ہمہ وقت اپنے اسرائیلی ہم منصب یو آر گیلنٹ سے رابطے میں رہتے ہیں اور 26 اکتوبر کے حملوں کے موقع پر انہوں نے ایک بیان میں ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں کی حمایت کیلئے خطے میں امریکی افواج کی موجودگی اور انہیں جنگ کیلئے تیار رہنے پر زور دیا۔
گزشتہ برس غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتائج کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا‘ وہ آہستہ آہستہ اب حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ ان خدشات میں سب سے نمایاں یہ تھا کہ اگر غزہ میں اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں کے قتلِ عام سے نہ روکا گیا تو یہ جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ یمن اسرائیلی اور امریکی فضائی حملوں کا سامنا کر چکا ہے اور لبنان پر اسرائیلی طیارے اور ڈرون دارالحکومت بیروت کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں‘ اب تک سینکڑوں رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ 1700سے زائد لبنانی شہید اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ کی طرح لبنان پر بھی اسرائیل لگاتار حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کی کوششوں سے قطر اور مصر کا مصالحتی مشن شروع ہوچکا ہے اور اس مقصد کے لیے سی آئی اے اور موساد کے سربراہ اتوار کو دوحہ پہنچے مگر تاحال جنگ بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کیونکہ اسرائیل جنگ بندی کیلئے ان شرائط پر بدستور قائم ہے جن کی وجہ سے مصالحتی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے سے صرف ایک روز قبل دوحہ میں جنگ بندی کی کوششیں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس اعلان کا مقصد دنیا کی توجہ ایران پر اسرائیلی حملوں سے ہٹانا تھا۔
ایران ایک عرصے سے امریکہ اور اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ ایران کی امریکہ واسرائیل مخالف پالیسیاں ہیں۔ جب سے ایران میں انقلاب کے بعد‘ موجودہ نظام وجود میں آیا ہے‘ امریکہ ایران کے خلاف کسی نہ کسی کارروائی کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ ایک مشہور امریکی سکالر سٹیفٹن کوہن کے ساتھ گفتگو میں راقم کو معلوم ہوا کہ 2003ء میں عراق پر حملے کے وقت امریکہ ایران پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا مگر صدر بش کے سیکرٹری آف سٹیٹ کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ صدر اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ امریکہ کا جوہری پروگرام معاہدہ اسرائیل کو بہت کھٹکتا تھا اور اسرائیل کے حامی امریکی کانگرس کے اراکین کے دباؤ کی وجہ سے ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور میں اس معاہدے کو ختم کیا تھا۔ اسرائیل کے دباؤ پر ہی ٹرمپ دور میں ایران کے خلاف معاشی پابندیاں مزید سخت کی گئی تھیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں صدر بش کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچا۔ امریکہ کی نظر میں ایران اس کا ذمہ دار ہے حالانکہ ایران نے انقلاب سے اب تک اپنے کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے نہ ہی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ ایران کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے کیلئے امریکہ اور اسرائیل نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عرب ممالک میں ایران کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا کہ ایرانی حکمران سینکڑوں سال قبل مسیح کی سلطنتِ ایران کا احیا چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ایران‘ شام‘ عراق‘ سعودی عرب اور بحرین میں اپنی ہمنوا آبادی کیساتھ مل کر پورے جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس بلکہ بحیرۂ احمر تک اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتاہے۔ امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر اس نظریے کے بڑے علمبردار تھے لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں کے واقعات سے ایران کے خلاف اس پروپیگنڈا کی قلعی کھل گئی ہے۔ دراصل مشرقِ وسطیٰ میں امریکی بالا دستی‘ خصوصاً اسرائیل کی جارحیت کو چیلنج کرنے والی اندرونی اور بیرونی قوتیں زور پکڑ رہی ہیں اور امریکہ کو نظر آ رہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے اب تک اس نے مشرقِ وسطیٰ کی دولت یعنی تیل کو لوٹنے اور اس اہم جیو پولیٹکل لوکیشن سے اب تک جو فوائد اٹھائے ہیں‘ ان کے خاتمے کا وقت تیزی سے قریب آ رہا ہے۔ ایران اس عمل کو مزید تیز کر رہا ہے‘ اس ضمن میں چین اور روس کے ایران کیساتھ معاشی‘ تجارتی اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعلقات کا خصوصی طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ ایران کوغزہ کے بحران میں اُلجھا کر اسکے معاشی اور سکیورٹی سٹرکچر کو تباہ کر دیا جائے تاکہ ایران مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں امریکی حکمت عملی کے راستے میں کوئی رخنہ پیدا نہ کر سکے۔ اسرائیل پر عالمی اور اندرونی دباؤ کے باوجود نیتن یاہو جنگ بندی پر اس لیے آمادہ نہیں کیونکہ وہ امریکہ کیساتھ مل کر ا یران کو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ خطے میں کوئی ملک امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کو چیلنج نہ کر سکے مگر امریکہ اور اسرائیل کو یہ معلوم نہیں کہ جنگ کا دائرہ وسیع ہونے سے انکے اپنے مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ امریکہ آٹھ دہائیوں میں اپنے رویے سے ثابت کر چکا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اُس کی موجودگی امن اور استحکام کی ضمانت نہیں بلکہ جنگ اور عدم استحکام کی علامت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved