یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ پاکستان میں فی یونٹ (فی ایکڑ) پیداوار ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بے حد کم ہے‘ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زرعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان انتہائی کم پیداواری ممالک میں شامل ہے حالانکہ یہاں کی زمین زرخیز اور کاشت کار انتہائی محنتی ہیں۔ گندم کا مجموعی قومی پیداوار میں حصہ کم وبیش تین فیصد ہے۔ پاکستان میں گندم کی اوسط پیداوار فی ہیکٹر تقریباً 2.7 ٹن ہے جبکہ مصر میں یہی پیداوار 6.44 ٹن‘ اور یورپی ممالک جیسے فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ میں سات ٹن سے زائد ہے۔ کم مقامی پیداوار کی وجہ سے فی زمانہ ہم 220 ارب روپے مالیت کی گندم پیدا کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان یورپی ممالک کی فی ہیکٹر پیداوار کو فی الحال نظر انداز کر کے صرف مصر کی فی ہیکٹر پیداوار کا ہی ہدف حاصل کر لے تو اسی رقبے سے 350 ارب روپے کی مزید گندم حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو ملک خوراک کے لحاظ سے خودکفیل ہو جائے گا اور دوسرا‘ سرپلس گندم دوسرے ممالک کو فروخت کر کے بھاری زرِمبادلہ کمایا جا سکے گا جو قرضہ اتارنے کے کام آ سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر تعلیم وصحت کے بجٹ کو بڑھایا جا سکے گا جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ایک اضافی فائدہ اس زرمبادلہ کو بچانے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے جو ہر سال گندم کی درآمد پر خرچ ہو تا ہے۔
پاکستان کی دوسری اہم فصل کپاس کی ہے۔ یہ مجموعی پیداوار میں دو فیصد حصے کی حامل ہے اور قومی معیشت میں اس کا حصہ 250 ارب روپے ہے۔ چین کی نسبت پاکستان میں کپاس کی پیداوار نصف ہے۔ اس کی پیداوار بڑھا کر 250 ارب روپے مزید حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہر سال پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ دھان ایک اور زرمبادلہ کمانے والی فصل ہے لیکن امریکہ کی فی ہیکٹر 7.4 ٹن‘ چین کی 6.57 ٹن پیداوار کی نسبت پاکستان میں فی ہیکٹر پیداوار صرف 1.7 ٹن ہے‘ جو انتہائی کم ہے۔ اسی طرح پاکستان میں مکئی کی پیداوار فی ہیکٹر لگ بھگ 1.7 ٹن ہے‘ جو فرانس کی 8.2 ٹن فی ہیکٹر پیداوار کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ زرمبادلہ کا سبب بننے والی ایک فصل گنا ہے لیکن مصر کی فی ہیکٹر 120ٹن پیداوار کی نسبت پاکستان میں گنے کی پیداوار 40 تا 60 ٹن ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں زرعی پیداوار ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کم کیوں ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ جیسے کل زرعی رقبے کا کم ہونا۔ ایک عرصے سے پاکستان کا زرعی رقبہ تقریباً ایک ہی سطح پر ہے لیکن آبادی اور خوراک کی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے کل 80 ملین ہیکٹر رقبے میں سے 22 ملین ہیکٹر رقبے پر فصلیں کاشت ہوتی ہیں یعنی کل رقبے کا تقریباً 25 فیصد۔ پھر مختلف وجوہات کی بنا پر اس قابلِ کاشت رقبے کا ایک بڑا حصہ کاشت ہی نہیں کیا جاتا۔ یہاں پچھلے 20تا 30برسوں میں زرعی شعبے میں کچھ جدید تکنیکوں کا استعمال شروع کیا گیا ہے‘ لیکن یورپی ممالک‘ حتیٰ کہ چین‘ خلیجی ممالک اور بھارت بھی زرعی ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں‘ چنانچہ ہمارے ملک میں فی ہیکٹر پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ جدید زرعی طریقوں کا استعمال نہ کیا جانا ہے۔ یہاں زرعی لیبر بھی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں؛ چنانچہ وہ ان طریقوں سے بے بہرہ ہے جو زرعی پیداوار میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ سڑکوں اور سٹوریج کی سہولتوں کی عدم دستیابی‘ زرعی پیداوار کی نقل وحمل کے لیے ٹرانسپورٹ کی قلت‘ بجلی اور ڈیزل کا مہنگا ہونا جیسے عوامل زرعی پیداوار کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور یہی عوامل اس پیداوار کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کے ہم خواہش مند ہیں۔ ناقص بیج اور ملاوٹ والی کھاد‘ زرعی ادویات اور بیج کی عدم فراہمی بھی زرعی پیداوار میں انحطاط کے اسباب میں شامل ہیں۔ زرعی شعبے میں ریسرچ کی کمی‘ کسانوں کی کمزور مالی حالت‘ موسمیاتی تنوع اور قدرتی آفات بھی فی ہیکٹر پیداوار میں کمی کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔ اور سب سے اہم آبپاشی کے لیے مناسب مقدار میں پانی دستیاب نہ ہونا۔ یہ مسئلہ اتنا گمبھیر ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے زرعی سیکٹر کو یہی سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مون سون کے موسم میں جب ملک بھر میں بارشیں ہوتی ہیں اور پہاڑوں پر وسیع و عریض گلیشیرز پگھل جاتے ہیں تو ہمارے دریا اور ڈیم پانی سے بھر جاتے ہیں بلکہ اگر بارشیں زیادہ ہو جائیں تو سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے‘ جیسے 2022ء کا سیلاب‘ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جس کے باعث پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا‘ تین کروڑ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے‘ 1700 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ محتاط اندازوں کے مطابق اس سیلاب نے نوے لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا تھا‘ تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے جبکہ 44 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ 8000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں اور 440 پل اس سیلاب سے شدید متاثر ہوئے اور بنیادی انفراسٹرکچر کو خاصا نقصان پہنچا۔ دو سال بعد بھی اس سیلاب سے ہونے والی تباہی کا مداوا نہیں کیا جا سکا۔ متعدد سڑکوں اور پلوں کی تعمیر و مرمت تک مکمل نہیں ہو سکی۔ بہر کیف‘ مون سون میں پاکستان کے دریا نالے وغیرہ بھر جاتے ہیں۔ پانی کے مسئلے کا حل ظاہر ہے کہ بڑے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہاں چھوٹے ڈیم تو ہر حکومت کے دور میں تعمیر ہوتے رہے اور کچھ پر اب بھی کام جاری ہے‘ لیکن جس حجم میں زرعی پیداوار میں اضافے کی ضرورت ہے اس کا تقاضا ہے کہ بڑے آبی ذخائر پر توجہ دی جائے۔
جب بڑے آبی ذخیرے کی بات آتی ہے تو توجہ خود بخود کالا باغ ڈیم کی طرف چلی جاتی ہے۔ آبی ماہرین نے کالا باغ ڈیم منصوبے کے لیے جو ابتدائی فزیبلٹی تیار کی تھی‘ اس کے مطابق اس ڈیم کی لمبائی 3350 میٹر یعنی 10991 فٹ رکھی جانی تھی جبکہ بلندی یعنی اونچائی کے لیے 79 میٹر (259 فٹ) کا تعین کیا گیا تھا۔ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی گنجائش 7.52 کلومیٹر یعنی 6 کروڑ 10لاکھ مربع فٹ تھی۔ کالا باغ ڈیم پر لگائی جانے والی ٹربائنوں سے کم از کم 3600 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہونی تھی‘ جس سے نہ صرف ہماری توانائی کی ضروریات پوری ہوتیں بلکہ اِس منصوبے سے صارفین کو سستی ترین بجلی مہیا ہوتی۔ یہ ڈیم بن جاتا تو پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج پاکستان نہ صرف توانائی بحران کا شکار نہ ہوتا بلکہ بجلی اور خوراک کی پیدوار کے لحاظ سے بھی خودکفیل ہو چکا ہوتا اور یہ جو بجلی کے بھاری بل عوام کو ادا کرنا پڑ رہے ہیں اور لوگوں کے کانوں سے دھواں نکل رہا ہے‘ اس کی بھی نوبت نہ آتی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ یہ عظیم منصوبہ فزیبلٹی تک ہی محدود رہا۔ ڈیم کے منصوبے پر مختلف قسم کے اعتراضات اٹھائے گئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا معاملہ ہی ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ پاکستان نے اپنی 77 سالہ تاریخ میں جو بڑے نقصانات اٹھائے کالا باغ ڈیم کا تعمیر نہ کیا جانا ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان کو ہر طرح کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی میں تحقیق اور ترقی کے پروگراموں کے لیے وسائل مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی حکومت کوئی حکمران اس جانب توجہ دے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved