آدھی رات والی 26ویں آئینی ترمیم خطرے میں ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔ ملک کی تین بار ایسوسی ایشنز اسے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج کر چکی ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ پچھلے دو دن میں نے لاہور ہائی کورٹ کے روبرو لگے مقدمات کی سماعت میں پیش ہو کر گزارے۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ کے نوجوان وکلا کے لیے بار کے نائب صدر میاں سردار نے آئینی حقوق کے نام پر لیکچر منعقد کرایا۔ ہال وکلا سے بھرا ہوا تھا۔ جہاں میں نے شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کی‘ پھر وکلا کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔ لیکچر میں پاکستان بار کونسل کے ممبر اور سابق وفاقی سیکرٹری قانون پیر مسعود چشتی بھی میرے ہمراہ تھے۔ لاہور میں حالیہ قیام کے دوران پنجاب کی بہت سی بار ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں‘ جو سپریم کورٹ بار کے انتخابات کی وجہ سے وہاں موجود تھے۔ ان میں سے کئی سینئر وکلا نے اصرار کیا کہ مجھے ذاتی حیثیت میں 26ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے بانی رکن اور سابق وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کچھ عہدیداروں نے یہ بھی بتایا کہ جلد وہ بھی 26ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کے مستقبل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فاضل جج‘ جسٹس اطہر من اللہ کا تازہ فیصلہ قانونی حلقوں میں ایک اہم اور بنیادی پیشرفت کے طور پر لیا گیا۔ اس فیصلے کا تعلق آئین کے آرٹیکل 19-Aکے تحت معلومات تک رسائی کا بنیادی حق استعمال کرنے سے ہے۔ فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان کے عام شہری اور عوامی اہمیت یعنی Public Interest کے سوال پر 'منظور الٰہی بنام وفاقِ پاکستان‘ کیس کا حوالہ دیا اور ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے Public Interest کے آئینی الفاظ کی وضاحت 'بینظیر بھٹو بنام وفاقِ پاکستان‘ مقدمے میں کی گئی جو PLD 1988 سپریم کورٹ صفحہ نمبر 416 پر رپورٹ شدہ ہے۔ اس فیصلے کے صفحہ 491 سے عوامی اہمیت کا مفہوم ان الفاظ میں جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے کا حصہ بنایا:
''عوامی اہمیت کا مفہوم ایک محدود معنی میں نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ آئینی حقوق اور آزادیوں کو محفوظ رکھنے اور ایسی آزادیوں پر پابندی کو شدید حملے کے طور پر سمجھنا چاہیے۔ ایسے سارے معاملات عوامی اہمیت کے مقدمے کے طور پر سپریم کورٹ کو دیکھنے کا اختیار ہے جو پاکستانی شہریوں کی آزادی اور خود مختاری کے انسانی حقوق سے تعلق رکھتے ہوں۔ چاہے وہ کسی فرد کے مقدمے سے پیدا ہوئے ہوں یا کسی جماعت یا افراد کے گروہوں سے متعلق ہوں‘‘۔
قارئینِ وکالت نامہ! آپ کو یاد ہو گا کہ حال ہی میں اسی صفحے پہ ہم نے ایک سے زیادہ مرتبہ 26ویں آئینی ترمیم پر آئینی اعتراضات اٹھائے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہر قسم کے سرکاری و ریاستی ملازمین کو بنیادی آئینی حقوق پامال کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے اپنے تازہ فیصلے کے صفحہ نمبر چھ‘ پیراگراف نمبر 14 میں اس موضوع کو بڑی ذہانت اور دلیری کی ساتھ نئی جہت دے ڈالی۔ جسٹس اطہر من اللہ لکھتے ہیں: ''ہم دیکھتے ہیں کہ جب شہریوں کو مطلوبہ معلومات تک رسائی حاصل ہو تو وہ صرف تب ان افراد سے معنی خیز طور پر سوال کر سکتے ہیں جو عوامی خزانے سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں اور جن کی خدمات صرف عوام کے مفاد کے لیے ہی محدود ہوتی ہیں‘‘۔ ساتھ ہی جسٹس اطہر صاحب نے عوام کے معلومات تک رسائی کے حق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جیمز میڈیسن کی طرف سے W.T Barry کے نام ایک اہم اور تاریخی خط کا حوالہ دیا۔ جو مورخہ 4 اگست 1822ء کو‘ یعنی آج سے 202سال پہلے لکھا گیا تھا۔ جیمز میڈیسن کے اس تاریخی خط کا درج ذیل پیراگراف فیصلے میں شامل کیا گیا ہے: ''ایک مقبول حکومت‘ بغیر مقبول معلومات یا ان کے حاصل کرنے کے ذرائع کے‘ محض ایک تماشے یا المیے کا آغاز ہے۔ یا شاید دونوں کا۔ علم ہمیشہ جہالت پر حکومت کرے گا۔ ایک قوم جو اپنی حکمران خود بننا چاہتی ہے‘ اسے اپنے آپ اس طاقت کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے جو علم اسے دیتا ہے‘‘۔ مختلف قانونی کتب‘ انسائیکلوپیڈیاز کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ چشم کشا وضاحت بھی کی کہ ''اب تک 100سے زیادہ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں اس آزادی کے بارے میں قانون سازی موجود ہے جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عدالتِ عظمیٰ نے اسے جمہوریت‘ احتساب اور بدعنوانی سے بچائو کا لازمی راستہ قرار دے رکھا ہے‘‘۔
جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے فیصلے کے دو اہم نکات آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔
بنیادی حقوق کے حوالے سے پارلیمان کا اختیار: فاضل جج صاحب نے لفظوں کا قیمہ کیے بغیر 1973ء کے آئین میں دیے گئے انسانی اور شہری حقوق کا دفاع کرتے ہوئے لکھا کہ مناسب پابندیوں کی اصطلاح پارلیمان کو شہریوں کے آئینی حقوق کا دائر محدود کرنے کا اختیار ہر گز نہیں دیتی بلکہ 1973ء کے دستور کا آرٹیکل آٹھ ریاست کو ایسی قانون سازی سے روکتا ہے جو بنیادی حقوق کو ختم کر ڈالے یا پھر محدود کر چھوڑے۔
بنیادی حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اختیار: جسٹس اطہر من اللہ نے 26ویں آئین ترمیم سمیت پارلیمنٹ کے بنائے ہر قانون کے بارے میں یہ آفاقی نکتہ واضح کر دیا کہ سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے تناظر میں ملک کے دیگر تمام اداروں کے اقدامات کا عدالتی جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ ظاہر ہے تمام اداروں میں پارلیمنٹ بھی شامل ہے۔ یہ بات سرے سے ناقابلِ تصور ہے کہ سپریم کورٹ خود اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لے۔ اگر عوام یہ سمجھیں کہ ان کے محافظ خود یہ حقوق محدود کرنے میں ملوث ہیں تو پھر لازماً عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔
اسی اصولِ قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے میں قارئین وکالت نامہ کے لیے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اصول 26ویں آئینی ترمیم میں آزاد عدلیہ کے عوامی حق اور بنیادی انسانی حقوق پر لگائی گئی بے جا پابندیوں کو کالعدم قرار دینے کا کافی جواز ہے۔
اب ذرا چلیے مڈل ٹیمپل‘ سینٹرل لندن‘ جہاںعوامی حقوق چھیننے والے منصف کو عوام سے منہ چھپانا پڑا‘ وہ بھی بعد از ریٹائرمنٹ سرکاری گاڑی کی سیٹ پہ بیٹھ کر۔ منصف اگر عدل کرے تو اسے چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر عدل نہ کرے تو شاعر کا یہ سبق یاد رکھے:
اب کدھر جاؤ گے‘ کیا اپنا وطن‘ کیا پردیس
ہر طرف ایک سی سمتوں کا نشاں ملتا ہے
پھونک کر خود کو نظر آتی ہے احساس کی راکھ
وقت کی آنچ پہ لمحوں کا دھواں ملتا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved