تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     01-11-2024

داعی کے اوصاف

بین الاقوامی شہرت یافتہ داعی ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک ماہ کے قیام کے بعد پاکستان سے روانہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے قیام کے دوران بہت سے دینی اجتماعات سے خطاب کیا اور عوام کی کثیر تعداد نے اُن سے استفادہ کیا۔ میں نے دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران بہت سے داعیوں سے ملاقات کی ہے۔ سعودی عرب میں ائمہ حرمین کے علاوہ بھی بہت سے کامیاب داعی موجود ہیں جو دین کی دعوت کا کام بڑے ذوق اور شوق سے کر رہے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کے دورے کے دوران بھی دعوتِ دین کا کام کرنے والے بہت سے مؤثر افراد سے ملاقات ہوئی‘ جن میں یوسف چیمبرز‘ عبدالرحیم گرین‘ حمزہ انڈریاس اور پاکستانی نژاد برطانوی خطیب عدنان رشید شامل ہیں۔ امریکہ میں یوسف ایسٹس ایک عرصے سے دین کی دعوت کا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر ابو امینہ بلال فلپس بھی بین الاقوامی سطح پر مؤثر خطیب اور داعی کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ پاکستان کے طول وعرض میں دین کی دعوت کا کام کرنے والے بہت سے مؤثر افراد موجود ہیں جن کو چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر اگرچہ ذمہ دار داعیوں کی تقاریر غیر متنازع ہوتی ہیں لیکن کئی مرتبہ ان کی کسی بات سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو جاتا ہے اور ان کی باتوں پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ داعی میں بہت سے اہم اور نمایاں اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے‘ جن میں سے چند اہم اوصاف درج ذیل ہیں:
(1) صاحبِ علم ہونا: داعی کا صاحبِ علم ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عوام تک ثقہ معلومات منتقل ہوں۔ بعض داعی ثقہ اور غیر ثقہ مواد کے درمیان تفریق نہیں کرتے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ غیر ثابت شدہ معلومات عوام تک منتقل ہو جاتی ہیں اور لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ حصولِ علم کا سفر تاحیات جاری رہنا چاہیے اور کامیاب داعی کبھی بھی اپنے علم کے بارے میں کوتاہی نہیں کرتا۔ وہ اس حوالے سے مسلسل جدوجہد کرنے میں مصروف رہتا اور اپنے علم کوترقی دینے کے لیے مسلسل مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ مطالعے سے انسان کی شخصیت اور گفتگو میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور انسان کے وعظ میں تاثیر بھی بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں علم کے اضافے کی دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 114 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور دعا کرو: اے میرے رب! مجھے علم زیادہ عطا کر‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو نہ صرف یہ کہ حصولِ علم کے لیے کوشاں رہنا چاہیے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے علم میں اضافے کی دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے۔
(2) صاحبِ عمل ہونا: داعی کے لیے جہاں صاحبِ علم ہونا ضروری ہے وہیں عملی طور پر اسے اپنے علم کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ صف کی آیات 2 تا 3 میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو ایسی بات کہتے ہیں جس پر ان کا عمل نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ تم جو کرتے نہیں اس بات کا کہنا اللہ کو سخت ناپسند ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت 44 میں بھی دوسروں کو نصیحت اور اپنے آپ کو فراموش کرنے کی مذمت کی ہے۔ ارشاد ہوا ''کیا (تم) لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو‘ کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اُن علمائے یہود کا بھی ذکر کیا جن کے پاس تورات کا علم تو تھا مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الجمعہ کی آیت 5 میں ان کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں اٹھائے ہوئے ہو‘‘۔
(3) اللہ سے اجر کی امید رکھنا: داعی کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ وہ محض اللہ تبارک وتعالیٰ سے اجر کی امید رکھتا ہو۔ داعی‘ انبیاء کرام علیہم السلام کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے دین کی دعوت دیتا ہے۔ انبیاء کرام نے ہمیشہ دعوتِ دین کے بدلے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی سے اجر کی امید رکھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الشعرا میں حضرت نوح‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی دعوت کا ذکر کیا کہ یہ تمام انبیاء اللہ تبارک وتعالیٰ ہی سے اجر کے طلبگار اور امیدوار رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بات سورۃ الشعرا کے کئی مقامات پر بیان فرمائی۔ سورۃ الشعرا کی آیت 109 میں ارشاد ہوا ''میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں چاہتا‘ میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ہاں ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ داعی کو انسانوں سے کسی صلے کی طلب رکھنے کے بجائے اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ ہی سے اجر کی طلب رکھنی چاہیے۔
(4) اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف: داعی کو فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات سے خوفزدہ ہونا چاہیے اور اس کو غیر اللہ کے خوف کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ مخلوق کا خوف کئی مرتبہ انسان کی گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ یونس میں اس بات کو بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد فقط فرعون اور اس کے مصاحبین کے خوف کی وجہ سے اسلام میں داخل نہ ہو سکی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ یونس کی آیت 83 میں ارشاد فرماتے ہیں ''پس موسیٰ پر ان کی قوم میں سے قدرے قلیل آدمی ایمان لائے‘ وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے اور واقعی فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا‘ اور (یہ بھی بات تھی کہ) وہ حد سے باہر ہو جاتا تھا‘‘۔ غیر اللہ کے خوف کو دل میں جگہ دینے سے انسان حق بات کہنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ ائمہ دین بالخصوص حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبلؒ نے دین کی تبلیغ اور نشر واشاعت کے دوران بہت سی تکالیف کو برداشت کیا لیکن اس کے باوجود دین پر پوری شدت سے کاربند رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں قرآن مجیدکی سورۃ العصر میں حق کی وصیت کا حکم دیا وہیں صبر کی تلقین کا بھی حکم دیا‘ اس لیے کہ حق کی دعوت مصائب سے جڑی ہوئی ہے اور کامیاب داعی وہی ہو سکتا ہے جو مصائب پر صبر کرنے والا ہو۔
(5) حکمت اور دانائی سے اللہ کے دین کی دعوت دینا: داعی کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جب وہ دین کی دعوت دے رہا ہو تو اس کو حکمت اور دانائی سے کام لینا چاہیے تاکہ لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف راغب اور مائل ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ جب حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھیجا گیا تو ان کو بھی یہ ہدایت کی گئی کہ وہ اس سے نرم بات کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ طہ کی آیات 43 تا 44 میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''تم دونوں فرعون کے پاس جائو‘ اس نے بڑی سرکشی کی ہے۔ اور تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا‘ شاید وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النحل میں بھی اس حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النحل کی آیت 125 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے‘ یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بخوبی جانتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے‘‘۔
اگر ان اوصاف کو داعی اپنی ذات میں جمع کرے تو اس کی دعوت انتہائی مؤثر ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو دین کی دعوت کا کام احسن طریقے سے کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved