تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     02-11-2024

کیا چین علاقائی حکمتِ عملی تبدیل کر رہا ہے؟

چین اور بھارت کے مابین اپنے سرحدی تنازع کے سلسلے میں حال ہی میں ایک معاہدہ طے پایا ہے جونہ صرف علاقائی ممالک بلکہ دنیا بھر میں زیر بحث ہے‘ اور اس معاہدے کے تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات پر فوری اور دور رس اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت لداخ کے مشرقی حصے‘ جہاں چار برس قبل چین اور بھارت کے سرحدی محافظوں کے درمیان خونریز تصادم ہوا تھا اور بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے‘ میں تعینات فوجی دستوں کو اپنے اپنے علاقوں میں گشت کرنے کی سہولت حاصل ہو گی۔ اب تک یہ فوجی دستے سرحد پر ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے تھے اور انہیں سرحد کے دونوں طرف متنازع علاقوں میں گشت (پٹرولنگ) کی اجازت نہیں تھی۔ اس صورتحال کے تسلسل سے دونوں ملکوں کی فوجوں میں تصادم کا خطرہ تھا اور چونکہ موسمِ سرما اور برفباری شروع ہونے والی ہے‘ اس لیے اس ممکنہ تصادم سے بچنے کے لیے دونوں ملکوں نے سرحد پر تعینات اپنے فوجیوں کو پٹرولنگ کی اجازت دے دی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین یہ معاہدہ مقامی کمانڈروں کی سطح پر طویل عرصے پر محیط مذاکرات کے بعد طے پایا ہے اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اسے ایک اچھی اور مثبت پیش رفت قرار دیا ہے کیونکہ اس سے بھارت‘ چین سرحد پر گزشتہ چار برسوں سے جاری کشیدگی میں کمی کی امید ہے۔
اس معاہدے کے فوراً بعد روس کے شہر کازان میں برکس کی 16ویں سربراہی کانفرنس میں شریک چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میں‘ کانفرنس سے ہٹ کر‘ دو طرفہ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوئی۔ سفارتی حلقے اس ملاقات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ بھارتی کا دعویٰ ہے کہ چین کی طرف سے کافی عرصہ سے اس دوطرفہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا مگر مودی حکومت اس پر راضی نہیں ہو رہی تھی اور اس کی وجہ 2020ء میں مشرقی لداخ میں چینی فوج کے ہاتھوں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت تھی۔ اس واقعے کے بعد بھارت نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ لداخ میں چین سے ملحق سرحد کی اپنی طرف نئی سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کرکے اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کر لی تھی۔ جواب میں چین نے بھی علاقے میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا کر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی تھی۔ دونوں طرف سے دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے پیشِ نظر اس بات کا خدشہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ اگر اس دفعہ دونوں ملکوں کی سرحدی افواج میں تصادم ہوا تو لڑائی صرف لداخ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ تقریباً 3500کلو میٹر طویل ہمالیائی سرحد کے مشرقی اور وسطی حصے‘ جہاں چینی اور بھارتی فوجی پہلے ہی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں‘ اس لڑائی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ 2020ء میں لداخ میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اگر اس دفعہ ہمالیائی خطے میں چین اور بھارت کے مابین جنگ چھڑی تو بھارت جواباً بحر ہند میں آبنائے ملا کا کے راستے میں چین کی سپلائی لائن بند کر دے گا۔ یاد رہے کہ امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ایک فوجی اتحاد کواڈ (Quad) کے تحت آبنائے ملاکا سے ملحقہ بحر ہند کے جنوب مشرقی حصے میں چاروں ملک گزشتہ سات برس سے ''مالابار مشقوں‘‘ کے نام سے بحری مشقیں کر رہے ہیں۔ کواڈ واضح طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر ان ممالک میں پائی جانے والی تشویش کے پیشِ نظر تشکیل دیا گیا تھا۔ چین اور بھارت کے مابین گزشتہ چار برس سے جاری ملٹری سٹینڈ آف کے پیشِ نظر ہمالیائی سرحد پر فوجی تصادم کو روکنے اور تناؤ کو ختم کرنے کے مقصد سے طے پانے والا اس معاہدے کو دونوں ملکوں میں سراہا جا رہا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ چین اور بھارت کے فوجی دستوں نے اپنے مورچے خالی کر دیے ہیں اور جن پوزیشنوں پر گزشتہ چار برسوں سے وہ موجود تھے‘ وہاں سے اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ دونوں ملکوں میں موجود سرحدی تناؤ کم کرنے کے لیے گزشتہ دو برس سے مذاکرات جاری تھے لیکن موجودہ معاہدے پر دستخط کے لیے پہل چین کی طرف سے کی گئی۔ اس سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا چین نے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع اور دیگر مسائل مثلاً تائیوان اور جنوبی بحیرۂ چین پر اپنے مؤقف میں کوئی بنیادی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے؟ اس پر مشہور پولیٹکل سائنٹسٹ اور یوریشیا گروپ کے صدر Ian Bremmer کا کہنا ہے کہ جہاں تک ان مسائل پر چین کی طویل مدتی حکمت عملی کا تعلق ہے تو اس میں کسی تبدیلی کے آثار نہیں البتہ چین نے قلیل مدت کے لیے ان مسائل پر لچک دکھانے کا عندیہ دیا ہے اور اس کی وجوہات میں چینی معیشت پر دباؤ اور امریکہ کی چین کے خلاف جارحانہ پالیسی خصوصاً تجارتی پابندیاں شامل ہیں۔
دوسری طرف بھارت کے کچھ حلقوں کی طرف سے بھی چین کے ساتھ گزشتہ چار برس سے جاری ڈیڈ لاک کو بھارت کے قومی مفادات کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے صنعتکار اور کاروباری حلقے چین کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات میں مزید اضافہ چاہتے ہیں‘ اگرچہ یہ تجارت پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اس میں توازن چین کے حق میں ہے۔ حالیہ عرصے میں معاشی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے سبب بھارت کے مینو فیکچرنگ سیکٹر نے کافی بہتری دکھائی ہے۔ پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں بھارت کو اپنی مصنوعات کے لیے نئی بیرونی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ ایسے میں پہلو میں چین جیسی وسیع منڈی کو بھارت کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔ اس لیے پیشتر اس کے کہ چین کے دیگر ہمسایہ ممالک اس سے فائدہ اٹھائیں‘ بھارت چین کو اپنی مصنوعات برآمد کرکے ایک طرف توازنِ تجارت کو اپنے حق میں کر سکتا ہے‘ دوسری طرف اپنی صنعتی پیداوارکی موجودہ سطح کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ بھارت کے اندر بیروزگاری کو کم کرنے اور عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی حکمت عملی کے یہ دونوں ستون بہت اہم ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ تناؤ کم کرنے کے اس معاہدے کے پیچھے جیوپولیٹکل سے زیادہ جیو اکنامک حرکیات کا دخل ہے۔ اس کی مزید شہادت روس میں برکس کی 16ویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر چینی صدر شی جن اور بھارتی وزیراعظم مودی کی ملاقات میں دونوں ملکوں کامذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کا عزم ہے۔ ورنہ جہاں تک چین اور بھارت کے سرحدی تنازع کا تعلق ہے اس معاہدے کو کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اس سے دونوں ملکوں کے دیرینہ اختلافات ختم ہونے کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ البتہ کازان میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی ملاقات کے بعد دونوں جانب سے جو بیانات جاری کیے گئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ دوطرفہ تنازعات خصوصاً سرحدی مسائل کے حل اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے اور اس کے لیے واحد اور مفید راستہ پُرامن مذاکرات ہیں۔
شکوک و شبہات اور بدگمانی کی موجودگی میں نہ تو سرحدی مسائل اور نہ ہی دیگر اختلافات حل ہو سکتے ہیں۔ دونوں طرف سے یہ بھی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ اختلافات کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے مابین مختلف شعبوں خصوصاً معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعاون میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے جو دونوں کے قومی مفادات کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ چند بھارتی حلقوں کے مطابق کاروباری اور صنعتی طبقات کی طرف سے مودی حکومت پر چین کے ساتھ تجارتی رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے سخت دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ بھارت کی طرف سے سرحدی تنازع ختم کرنے کیلئے معاہدے پر فوری رضامندی میں اس دباؤ کا بھی اہم کردار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved