یہ جو مفلوج قسم کی جمہوریت ہمارے ملک میں چل رہی ہے یہ بھی ہمیں ایک مغربی ملک نے یہاں سو سال حکومت کرنے کے بعد عطا کی تھی۔ اختلافِ رائے کا احترام‘ ووٹ کے ذریعے قیادت کا انتخاب‘ ریاست کے تین ستونوں میں اختیارات کی تقسیم‘ چیک اینڈ بیلنس‘ دستور کی سرفرازی‘ قانون اور میرٹ کی حکمرانی‘ یہ سب جمہوری نظام کے اہم اجزا ہیں۔ یہاں مجھے اس بات کا اعتراف بھی کرنا ہے کہ جو جمہوری نظام ہمیں مغربی استعمار کی بدولت ملا تھا‘اسے مفلوج اور لاغر بنانے میں خود ہمارا ہاتھ ہے۔ قیادت آمرانہ ہو یا جمہوری‘ ایک عجیب سا خوف ہمارے لیڈروں پر طاری رہتا ہے۔ یہی خوف قائدین کو سیاسی قوت اپنے تئیں مرکوز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کچھ ادارے اپنی آئینی حدود کو پھلانگنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اس افراط و تفریط کا سبب وہ خوف ہے جو بظاہر طاقتور لیڈروں کو بھی لاحق رہتا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر لیڈر ڈنڈی مار کر اقتدار میں آتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ کل کے سیاسی دشمن آج کے سیاسی پارٹنر بن جاتے ہیں اور مل کر ایک مشترکہ حریف کو ناکوں چنے چبوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2006ء میں یہ مشترکہ حریف پرویز مشرف تھا اور آج ایک مقبول سیاسی پارٹی ہے۔
غیردستوری طور پر اقتدار میں آنے والا آمر ایک مقبول سیاسی لیڈر کی عوامی سپورٹ سے خائف ہوتا ہے تو اس لیڈر کو تختہ دار پر چڑھنا پڑتا ہے۔ ایک سیاسی لیڈر بھاری مینڈیٹ لے کر کامیاب ہوتا ہے تو اسے امیر المومنین بننے کا شوق چراتا ہے‘ وہ تمام کا تمام اقتدار و اختیار اپنے ہاتھوں میں مرکوز کرنا چاہتا ہے‘ حتیٰ کہ پارلیمان کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا جاتا ہے لیکن پھر اپنی ہی جماعت سے خورشید محمود قصوری اور ہم خیال افراد اس آمرانہ سوچ کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں اور بیل منڈھے نہیں چڑھ پاتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آمرانہ سوچ کے عمومی جنگل میں کہیں کہیں جمہوری سوچ کے چراغ روشن رہے ہیں‘ جو جنگل کی تاریکی کو کم کرتے رہے۔
وطنِ عزیز میں اقتدار کا یہ بے رحم دنگل سالوں سے جاری ہے۔ ایک سپہ سالار کو پتا چلا کہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اس کا نعم البدل تلاش کر لیا گیا ہے تو اس نے جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی۔ مخالف سیاسی پارٹی نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف اقتدار کی اس غیر آئینی تبدیلی کی توثیق کی بلکہ آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق بھی دے دیا۔ یہ فیصلہ آئین کی صریح خلاف ورزی تھا‘ جس کا حق اعلیٰ عدلیہ کو بھی حاصل نہیں تھا۔
ہم اُس سرزمین پر رہتے ہیں جہاں اقتدار کے حصول کے لیے بھائی بھائی کی جان کا دشمن ہو جاتا تھا۔ مدِ مقابل کی ناک رگڑنا ہماری قدیم روایت رہی ہے اور نظام میں تبدیلی لانے کے داعی بھی اس مکروہ فعل سے دامن نہ بچا سکے۔ یہاں کبھی چودھری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بنتا ہے تو کبھی رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات نکلنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ کبھی احمد رضا قصوری کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا سوچا گیا ‘ آج اسی صورت ایک پاپولر جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر قسم کے غیر جمہوری حربوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ پارلیمانی جمہوریت‘ جو مغرب سے آئی تھی‘ آج ہمارے غیر جمہوری رویوں کے نرغے میں ہے۔ حریف پر مختلف طرح کے حملے ہماری قیادت کے عدم تحفظ کے احساس کی غمازی کرتے ہیں۔
دو حالیہ مثالوں سے شاید بات مزید واضح ہو سکے۔ ڈھائی تین سال پہلے حکومتِ وقت کی اپوزیشن کو یہ غم لاحق ہوا کہ وزیراعظم ایک مخصوص فوجی افسر کو بہت اہمیت دیتے ہیں چنانچہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اس افسر کو سپہ سالار بنا دیا گیا تو وہ مذکورہ حکومتی پارٹی کو آئندہ پانچ سال اقتدار میں ضرور رکھے گا۔ یعنی 2023ء کے متوقع انتخابات میں اپنی منشا کے نتائج حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گا۔ ادھر حکومتِ وقت بھی کوئی ٹھوس کام کرنے کے بجائے اپوزیشن کے لیے دن رات چور ڈاکو کا راگ الاپتی رہی۔ اس کے کچھ ممبر مشکوک ہو گئے اور اپوزیشن نے اقتدار کا پانسہ پلٹنے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی‘ جو کامیاب ہو گئی۔ یہ ایک احمقانہ اور جلد بازی والا فیصلہ تھا جو اس وقت کی حکومتی جماعت‘ تحریک انصاف کے لیے مسائل تو پیدا کر گیا لیکن اس فیصلے سے سابق وزیراعظم کو نئی سیاسی زندگی مل گئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت تو بنا لی مگر ملک میں سیاسی عدم استحکام کا بدترین دور شروع ہو گیا اور اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کا بھی ابتر حال ہو گیا۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر آ گئی۔ ہنر مند لوگ ملک سے کوچ کرنے لگے۔ ڈالر کو پَر لگ گئے اور ملک میں افراطِ زر کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہونے لگا۔ شرحِ سود بلند ترین سطح پر چلی گئی جس کی وجہ سے حکومت کے اندرونِ ملک قرضوں پر سود بے حساب بڑھ گیا۔ روپے کی قدر گرنے سے بیرونی قرضے بھی بڑھ گئے۔ ہمارے لیڈرکشکول لیے ملکوں ملکوں پھرنے لگے۔ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط مزید کڑی کر دیں۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے کارخانے بند ہونے لگے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہوا‘ جرائم بھی بڑھ گئے تو لوگوں کو سابق حکومت یعنی عمران خان پھر سے یاد آنے لگا۔
اصل برائی کی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں ایماندارانہ انتخابات کرانے میں بار بار ناکام ہوئے ہیں۔ 2018ء میں بھی الیکشن متنازع تھے لیکن 2024ء والے انتخابات تو بہت ہی متنازع ہو گئے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو‘ اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی وقت بھی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ لہٰذا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی طاقتور ادارہ اس کا ہمنوا بن جائے۔
حال ہی میں منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم اسی بدظنی کا نتیجہ نظر آتی ہے۔ حکومت کا خیال تھا کہ سینئر ترین جج کا جھکاؤ بظاہر کسی اور جانب ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب 1993ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹایا گیا تو منطق یہ تھی کہ جسٹس اجمل میاں چونکہ سب سے سینئر ہیں لہٰذا انہیں چیف جسٹس ہونا چاہیے۔ اس مرتبہ یہ منطق اُلٹ دی گئی ہے اور چیف جسٹس کی نامزدگی میں ایک پارلیمانی کمیٹی اور وزیراعظم کی منظوری لازمی ٹھہری ہے۔ شاید اب اس سسٹم سے جسٹس کیانی اور جسٹس کارنیلیس جیسے لوگ سامنے نہ آ سکیں۔
یہ جو دنگل ہماری سیاست میں برسوں سے جاری ہے اور روز بروز شدید تر ہو رہا ہے۔ یہ ہمسایہ ملک میں کیوں نہیں ہوا؟ اس لیے کہ بھارت میں الیکشن ہم سے بہت بہتر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں الیکشن بھی متنازع ہوتے رہے‘ لہٰذا منتخب شدہ لیڈر کی جائزیت (Legitimacy) پر سوال اٹھتے رہے۔ آئین کی پامالی ہم نے خود ہوتے دیکھی ہے۔ جو قوم اپنے متفقہ آئین پر عمل نہیں کرتی وہ اپنی قبر خود کھودتی ہے‘ اس کی دنیا میں عزت صفر رہ جاتی ہے۔
سنگاپور کی چھوٹی سی ریاست کوئی ایٹمی طاقت نہیں لیکن اکانومی مضبوط ہے‘ قانون کا احترام ہے۔ اگر پاکستان کا مقام دنیا میں بلند کرنا ہے تو سیاسی حریفوں کوبرداشت کرنا سیکھیں۔ آئین پر من وعن عمل کریں اور میرٹ کو سرفراز کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved