تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     02-11-2024

بڑے لوگوں کی چھوٹی باتیں …( دوم)

نام نہاد آزاد عدلیہ تحریک کے سرخیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے خود ہی تبصرہ کیا تھا: ''اس تحریک نے ہمیں متعصب جج اور متشدد وکلا دیے‘‘۔ اُن کا تازہ ترین تبصرہ یہ ہے: ''نام نہاد آزاد عدلیہ کا ہرجج چھ ماہ تک انسان ہوتا ہے‘ پھر ناخدا بن جاتا ہے‘‘۔ اگر چہ اب کچھ راز ہائے دروں کے شناور یہ کہتے ہیں کہ اس تحریک کے پیچھے کارفرما اصل قوت کوئی اور تھی۔ البتہ منظر پر بعض جج صاحبان‘ وکلا‘ میڈیا کے لوگ اور بعض سیاسی لوگ تھے۔ اس تحریک کا مقصد تھا: ''حکومت‘ مقتدرہ اور عدلیہ سمیت ہر ادارہ آئین وقانون کے دائرے میں رہے‘‘۔ مگر ''آزاد عدلیہ‘‘ نے خود ہی تجاوزات شروع کر دیں‘ بظاہر آئین کی آڑ میں اپنے آپ کو آئین وقانون سے ماورا سمجھنے لگے‘ پورے نظام کو ساکت وجامد کر دیا‘ سیاستدان اور حکمران لرزنے لگے۔ انتظامیہ کو آئے دن بلا کر توہینِ عدالت کا نوٹس یا دھمکی دی جانے لگی‘ اس کا ماحصل عدمِ استحکام کی صورت میں برآمد ہوا۔ ملک سیاسی انتشار اور معاشی بدحالی سے دوچار ہوا‘ حکومتِ وقت کیلئے ملک کو نادہندگی سے بچانا سب سے بڑا ہدف قرار پایا۔ عوامی مقدمات پسِ پشت چلے گئے‘ سیاسی نوعیت کے مقدمات عدالت کی ترجیح بن گئے تاکہ ٹی وی پر ٹِکر چلیں‘ سوشل میڈیا پر وی لاگ ہوں‘ ججوں کی واہ واہ ہو‘ خواہ عدالت دنیا میں پستی کے اعتبار سے 130 ویں نمبر پر چلی جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج سر جوڑ کر بیٹھیں‘ سب سے پہلے اپنے اندر کے اختلافات اور گروہ بندی ختم کریں‘ ملک کے نظام کو تہ وبالا اور مفلوج کرنا چھوڑ دیں‘ آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے حکمت کے ساتھ نظام کی اصلاح کریں‘ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ ریاستی ادارے ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں۔ ریاستی ادارے ایک دوسرے کے معاون بنیں‘ عدلیہ سمیت ہر صاحبِ منصِب کی شان پاکستان کی بدولت ہے‘ پاکستان کی بقا‘ تحفظ اور سلامتی سب کو عزیز ہونی چاہیے۔ جسٹس بابر ستار نے جس طرح توہینِ عدالت کے اختیار کو استعمال کیا‘ اس کی شاید دنیا میں مثال نہ ملے۔ اگر آئے دن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کو عدالتوں میں بلاکر ان کی تحقیر کی جائے گی‘ تو عوام میں اُن کی کیا عزت رہ جائے گی‘ اُن کی تحدیدات کا بھی عدالت کو احساس ہونا چاہیے۔ کئی مسائل دھمکی اور دبائو کے بغیر فہمائش سے بھی حل کیے جا سکتے ہیں اور بند راستے کھولے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ملکی وملّی حالات مثالی نہیں ہیں‘ اس کا ہر ایک کو ادراک ہونا چاہیے۔ جس طرح ہم اپنے گھریلو معاملات کو تدبیر وتدبر اور فہمائش سے حل کرتے ہیں‘ کیا ملکی اور قومی معاملات میں یہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ جج اور جنرل بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں‘ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا‘ پس اعتزاز احسن کے بقول: ''ناخدا‘‘ بننے کے بجائے ''بندۂ خدا‘‘ بننے پر اکتفا کرنا چاہیے۔ یگانہ چنگیزی نے بھی اپنے ذہنی‘ فکری اور عملی تجربے کا نچوڑ یہی بتایا تھا:
خودی کا نشہ چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا؍ خدا بنے تھے یگانہ‘ مگر بنا نہ گیا
اعلیٰ منصِب کے حامل انسان کی عظمت کا راز اس میں ہے کہ عزت‘ وقار اور دبدبہ منصِب سے کشید نہ کرے‘ بلکہ اُس کے کردار اور دیانت وامانت سے منصِب کو وقار ملے۔ توہینِ عدالت کا قانون بیدردی سے استعمال کرنے سے جج کو عزت نہیں مل سکتی۔ اسی طرح کوئی کتنا ہی فلسفی ہو‘ پلک جھپکتے ہی حالات کو بدل نہیں سکتا اور ایسی تبدیلیاں پائیدار بھی نہیں ہوتیں۔ وہی تبدیلیاں پائیدار اور باوقار ہوتی ہیں جو تدبیر وتدبر کے ساتھ باوقار انداز میں لائی جائیں۔ ہم بحیثیتِ قوم اپنے مزاج کے اعتبار سے انقلابی ہیں‘ نہ ہمارے پاس کوئی انقلابی قیادت ہے۔ ہم ایک طے شدہ دستوری اور قانونی نظام کے تحت رہ رہے ہیں‘ اس میں نقائص‘ بے لاگ عدل کا فقدان‘ ناانصافیاں اور بدعنوانیاں بھی ہیں‘ مل جل کر اور قومی اتفاقِ رائے سے ان خرابیوں کے ازالے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔
نامور صحافی وتجزیہ کار جناب سہیل وڑائچ بجا طور پر پاکستان کو ''تضادستان‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہمارے تضاد کا عالَم یہ ہے: موجودہ عالمی نظام سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے تحت کام کر رہا ہے‘ ہمارا ملک بھی اسی نظام میں جکڑا ہوا ہے‘ اس نظامِ معیشت وحکومت کا فلسفہ یہ ہے: حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں‘ بلکہ کاروبار کو قاعدے اور ضابطے کے تحت لانا ہے۔ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل اور ریلوے سمیت کئی قومی ادارے عشروں سے خسارے میں چل رہے ہیں‘ ٹیکس دہندگان کے پیسے عوام کی سہولتوں پر خرچ ہونے کے بجائے ان ڈوبتے ہوئے اداروں پر خرچ ہو رہے ہیں اور ان کے قرضوں کے بوجھ میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن جب بھی کوئی حکومتِ وقت ان اداروں کی نجکاری کرنا چاہے‘ تو اُس وقت کی حزبِ اختلاف مخالفت پر اتر آتی ہے اور ہنگامہ بپا کر دیتی ہے‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم خسارے کے اس بحران سے نکل ہی نہیں پاتے۔
دستور کے آرٹیکل 63A کا دوسرا فیصلہ نہ صرف خود سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے کے برعکس تھا‘ بلکہ آئین کونئے سرے سے لکھنے کے مترادف تھا‘ کیا اُس وقت جنابِ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کوئی مکتوبِ گرامی لکھا یا وہ بھی اس عدالتی آئین سازی کے ہمنوا ہیں؟خلاصۂ کلام یہ کہ عدلیہ آزادی کی تحریک کی کامیابی کے بعد جنابِ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے‘ تو اُس کے بعد ہماری عدلیہ کی تاریخ بے اعتدالیوں کا مُرقع ہے۔ جج صاحبان نے اپنی اَنا کی خاطر پے درپے غیر متوازن فیصلے کیے‘ ایک ہی نوعیت کے مقدمے میں ایک فریق کے بارے میں ایک فیصلہ اور دوسرے فریق کے بارے میں اُس کے برعکس فیصلہ صادر ہوتا رہا۔ وزرائے اعظم کو معزول کیا گیا‘ آج بھی آئینی اور قانونی معیار پر اس کو جائز نہیں سمجھا جا رہا‘ لیکن اُس وقت کسی جج کی رگِ عدل نہیں پھڑکی اور کوئی اختلافی یا احتجاجی مکتوب ریکارڈ پر نہ آیا۔ ہر ایک کو جج صاحبان کاسیاسی جھکائو یا ترجیحات معلوم ہیں‘ اب یہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے۔ جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کو اللہ تعالیٰ نے چیف جسٹس کے منصِب پر سرفراز فرمایا ہے‘ اُن کی دانش اور فراست کا امتحان ہے۔ سابق چیف جسٹس کے مخالف جج صاحبان کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر رہے ہیں۔ وہ جسٹس سید منصور علی شاہ‘ جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ چیمبر فیلو رہے ہیں۔ ان دونوں حضرات کو بھی چاہیے کہ طبیعت میں اعتدال پیدا کریں‘ جو ہو چکا اُسے قبول کر لیں اور اگر عدالت کے سینئر جج صاحبان خود مل کر اپنے داخلی مسائل حل کر لیں اور انتہاپسندانہ رجحانات سے ایک قدم نیچے آکر توازن واعتدال کی طرف آئیں تو کوئی بعید نہیں کہ حالات میں ٹھیرائو آ جائے اور عدالت کو بے اعتدالی سے روکنے کیلئے نِت نئی آئینی ترامیم اور قانون سازی کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ جج صاحبان آپس کی مفاہمت سے ان مسائل کو حل کریں۔ سیاسی ناٹک رچانے پر عوامی مسائل اور عوامی مقدمات کو ترجیح دیں۔ جج بنچ میں بیٹھ کر بلاضرورت ریمارکس دینا اور ایک دوسرے کی کاٹ کرنا چھوڑ دیں۔ اس وقت یوٹیوبرز نے ہماری سپریم کورٹ کو ایک طرح سے یرغمال بنا لیا ہے‘ پسند وناپسند کے گروپ بن گئے ہیں‘ عدلیہ کی توہین ہو رہی ہے اور وہ جون ایلیا کے اس شعر کا مظہربن چکی ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس؍ خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اب اس رجحان کو ختم کرکے عدالت کا وقار بحال ہونا چاہیے۔ عدلیہ انقلاب لانے اور پورے نظام کو تہ وبالا کرنے کا کام چھوڑ دے‘ نظام کے اندر رہتے ہوئے جو بہتری ممکن ہو‘ وہ کرے۔ ایسے احکام کا کیا فائدہ جو عملاً نافذ ہی نہ ہوں اور انتظامیہ ومقتدرہ عدلیہ کے مقابل آکھڑی ہوں یا عدلیہ اُن کو فتح کرنے کی ٹھان لے۔ اس میں کسی کی فتح نہیں‘ سب کی شکست اور ملک کی بربادی ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا روزِ اول ہی فُل کورٹ اجلاس بلانا اور اس میں تمام جج صاحبان کی شرکت ایک اچھی علامت ہے‘ اسی شعار کو آگے بڑھانا چاہیے‘ اُن کی متانت اور کم گوئی بھی قابلِ تحسین ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved