تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     03-11-2024

تصویر دیکھی اورہنسی چھوٹ گئی

قاضی سے کوئی پوچھے کہ لندن جانے کی اتنی جلدی کیا تھی۔ پاکستانیوں کے موڈ سے اتنے بے خبر تھے کہ سمجھ بیٹھے کہ جائیں گے اور وہاں کوئی پوچھے گا نہیں؟بہرحال پہنچ گئے اوروہاں مڈل ٹیمپل کے سامنے ایسی کیا بات تھی کہ گاڑی میں گردن جھکالی اورمنہ چھپانے کی کوشش کی؟ کوئی تصویر نہ بناتا پھر تو کوئی بات نہ تھی لیکن کسی کمبخت نے تصویربنالی اور تصویرپھر ایسی وائرل ہوئی کہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ قاضی امرہوگئے۔ یہ ایسی شاہکار تصویر ہے کہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ہمارا حال تو ایسا ہوا کہ تصویر دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ گئی۔
پاکستان کا اپنا ماحول ہے‘ گاڑیاں آگے پیچھے ہوتی ہیں اورہرچیز میں مرضی چلتی ہے تو لوگ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ساری دنیا ایسی ہی ہے۔ پاکستانی جو باہرمقیم ہیں اُن کا اپنا مزاج ہے اوروہی کرتے ہیں جو اُن کے جی میں آئے۔ نوازشریف بھی انہی دنوں لندن پہنچے‘ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے باہر اُن کا بھی خوب استقبال ہوا۔ عطاتارڑ کی بھی ایک وڈیو وائرل ہے۔ بہرحال ہمارے قاضی کے ساتھ جو ہوا وہ یاد رکھا جائے گا اور ضروراُنہوں نے بھی کچھ سبق حاصل کرلیا ہوگا کہ عام پاکستانیوں میں اُنہیں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
سیاستدان تو رہے ایک طرف کیا کسی کو یاد نہیں کہ حضرت باجوہ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ یہاں کیا اُن کی بات تھی‘ کیاشان و شوکت‘ رعب اور دبدبہ تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیر کرنے پہنچ گئے فرانس اور وہاں ایک شہر میں کسی افغان یا پختون کے ہتھے چڑھ گئے۔پھر جو اُس نے کیا‘ وائرل وڈیوز کی لائبریری میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ اُس کے مقابلے میں جو قاضی کے ساتھ ہوا وہ تو ایک بڑا نفیس قسم کا احتجاج تھا‘ باجوہ کے ساتھ تووہ ہوا کہ تمام الفاظ کو محفوظ کرنا چاہیں توقلم انکاری ہو جائے۔یہ ایسے واقعات ہیں کہ ان کا اثر دل پر ہمیشہ رہتا ہے۔ انسان جو بھی کر لے‘ موسم بدل جائیں‘ ایسے نشان مٹتے نہیں۔ خاص طور پر اُن لوگو ں کے حوالے سے جنہوں نے اس ارضِ پاک‘ اس مملکتِ خداداد کی شان و شوکت کے مزے لیے ہوں۔یہاں کا پروٹوکول تو ایسا کہ لگتا ہے کہ تمام زمین کے مالک ہیں‘ وہاں باہر قدم رکھتے ہیں تو پاکستانی سب یاد کرادیتے ہیں۔ اور بھی ایسی کئی شخصیات ہیں جو اس مشق سے گزرچکی ہیں۔ جو یہاں کے حکمران بنے ہوئے ہیں ان کی اصل حالت یہ ہے لیکن مملکتِ خداداد میں ہوں توان کے نخرے ختم نہیں ہوتے۔
بہرحال کسی قاضی یا کسی سیاستدان کے ساتھ باہر کچھ ہو تواُس کے بارے میں کتنا تبصرہ کیا جاسکتا ہے؟ بنیادی مسئلہ یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ پچھلے دو سال اورکچھ زائد مہینوں میں ملک کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ بلوم برگ کی ایک رپورٹ آئی ہے کہ پاکستان سے پڑھے لکھے پاکستانیوں کے انخلا سے پاکستان اندر سے کھوکھلا ہورہا ہے۔ انگریزی میں اصطلاح ہے برین ڈرین ‘ یعنی دماغوں کا انخلا۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ کیاغریب اور کیا امیر‘ اَنـ پڑھ اور پڑھے لکھے‘ یہاں کوئی رہنا نہیں چاہتا‘ جس کسی کا بس چلے باہر جانے کی کررہاہے۔ محکمہ امیگریشن سے پوچھ لیا جائے کہ پاسپورٹوں کی درخواستیں کہاں تک پہنچ چکی ہیں۔یہاں کے حالات غزہ‘ لبنان اوریوکرین جیسے ابتر نہیں لیکن یہاں کچھ ایسا ماحول بنایا دیا گیا ہے کہ لوگو ں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں‘ امیدیں ٹوٹ گئی ہیں۔ مستقبل پر اعتبار نہیں رہا۔ عام لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ملک میں اونچ نیچ کتنی ہے‘ ایک وہ ہیں جن کے پاس بہت ہے اوراکثریت ہے جن کی زندگیاں مشکل بنی ہوئی ہیں۔ اوپر سے حکمرانی کرنے وہ بیٹھے ہیں کہ اُن کی عقل اور سمجھ کو دیکھیں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں چین کے حوالے سے ایک سیمینار میں اسحاق ڈار آتے ہیں جو موقع مناسبت سے صحیح الفاظ ادا نہیں کرسکتے۔ چین پاکستان تعلقات کے بارے میں کچھ ایسا کہتے ہیں کہ چینی سفیر کو وہیں احتجاج کرنا پڑتا ہے اور چینی سفیرسکیورٹی کے تناظر میں کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں کہ جو پاک چین دوستی کی تاریخ میں کبھی نہ کہا گیا ہو۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایک دو روز بعد دفترخارجہ کی جو ہفتہ وار بریفنگ ہوتی ہے اُس میں ہماری سپوکس پرسن الفاظ کے چناؤ سے مزید بگاڑ پیدا کردیتی ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ملک کا ماحول کچھ یوں بن چکا ہے کہ کوئی بھی ڈھنگ کی چیز ہم سے نہیں ہو رہی۔ جب موقع ملے کشکول اٹھائے وزیراعظم دوست ممالک جاتے ہیں اورانویسٹمنٹ کی فریاد کرتے ہیں۔ چیختی ہوئی سرخیاں لگتی ہیں کہ سعودی عرب نے یہ کہا‘ قطر وہ کرے گا‘ حساب لگائیں تواصل میں کچھ نہیں ہوتا۔ملک کی اس حالت میں ‘ سکیورٹی کے ان حالات میں‘ یہاں کون پاگل آکے سرمایہ کاری کرے گا؟ سب سے بڑا سرمایہ کاری کرنے والا چین ہے اورسکیورٹی کے حوالے سے چین کے جو خدشات ہیں اُن کے بارے میں یہاں بیان بازی تو بہت ہو جاتی ہے لیکن خطرات تو اپنی جگہ موجود ہیں۔
عجیب صورتحال سے ہم گزر رہے ہیں۔ ایک طرف رہی حقیقت اوردوسری طرف رہی اس حقیقت کو چھپانے کی بھرپور کوششیں۔پی آئی اے کی نجکاری کرنے چلے تھے ہم اور ہوا کیا ہے؟ حکومت نے بنیادی قیمت رکھی 85ارب اورصرف ایک آفر آئی وہ بھی 10ارب کی۔ اورآفر دینے والے نے یہ پھبتی بھی کَسی کہ پی آئی اے کو سرکار خود چلانا چاہتی ہے تو ہماری دعائیں اُس کے ساتھ ہیں۔ ائیرپورٹوں کوبھی لیز کے لیے رکھا گیا تھالیکن اُنہیں بھی لینے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا۔ وہ زمانہ بھی ہم نے دیکھا کہ کم از کم عرب دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ اب ہمارا امیج بن چکا ہے مسکینوں کا جو کشکول ہاتھ میں اٹھائے ہر دروازے پر دستک دیتے ہیں۔
پاکستان میں جو انصاف کا معیار ہے وہ تو ہم دیکھ رہے ہیں‘ اصل انصاف فراہم کرنے کا فریضہ باہر مقیم پاکستانی ادا کررہے ہیں۔ شہنشاہیت کا لبادہ اوڑھے نکموں کی یہاں تو پوچھ گچھ ہوتی نہیں لیکن غیرملکی پاکستانیوں کے ہتھے چڑھ جائیں توپھر ایک سرور سا آجاتا ہے۔جس دن قبلہ قاضی کی گردن جھکائے تصویر دیکھی یقین مانیے مزہ آگیا۔ اور یہاں رہ کیا گیا ہے؟ شام کو بیٹھتے ہیں توشام کے سائے ہوتے ہیں اور ہماری ناتواں کوششیں غم بھلانے کی۔ عموماً ایسا ہوتا ہے گانے بھی نہیں سنتے‘ سوشل میڈیاپر قاضی جیسی تصویر آ جائے توموڈ اور ماحول بدل جاتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ خداکی خدائی میں کہیں تو انصاف ہے۔باہر مقیم پاکستانیوں کو یہ داد دینی پڑتی ہے کہ کچھ ایسی درگت بناتے ہیں کہ نکموں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ کوئی مکا نہیں چلتا‘ لاتوں کا استعمال نہیں ہوتا‘ لیکن جو آوازیں کَسی جاتی ہیں اگلوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں ۔
جمائما کے ساتھ جو یہ لوگ کرتے تھے بھول گئے ہیں۔ اپنے پہ آئی ہے تو برداشت نہیں ہوتی۔ باہر کے احتجاجیوں کے پاسپورٹ ضبط کرنے چلے ہیں۔ ہوش کے ناخن لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved