فروری 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے‘ انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جو الیکشن کمیشن میں منظور بھی ہو گئے۔ پارٹی میں خدمات کی بنا پر وہ پُرامید تھے کہ انہیں پارٹی ٹکٹ ضرور ملے گا کیونکہ جب 2018ء کے بعد پی ٹی آئی کی پوری قیادت حکومت میں جا بیٹھی تو سیف اللہ خان نیازی کے ساتھ مل کر وہ پارٹی معاملات کو دیکھ رہے تھے۔ اپنے حلقے میں انہوں نے الیکشن کی تیاریاں بھی شروع کر دیں لیکن ٹکٹ کا فیصلہ چونکہ خان صاحب جیل سے جاری کر رہے تھے‘ اس لیے ان کی جگہ کسی خاتون کو یہ کہہ کر ٹکٹ جاری کر دیا گیا کہ انہوں نے نو مئی کے واقعات میں گرفتاری کی تکلیف اٹھائی ہے۔یعنی الیکشن ٹکٹ جاری کرنے کا معیار یہ تھا کہ مشکل وقت میں پارٹی بیانیے کے ساتھ کون کھڑا رہا ہے۔ پارٹی کی حد تک اس طرزِ عمل کو سپورٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر پارٹی کے اندرونی معاملات پر قیادت کو حق حاصل ہوتا ہے کہ اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے مگر حکومت سنبھالنے کے بعد پارٹی معاملات اور حکومتی امور کو الگ الگ کرنا ضروری ہوتا ہے۔اکثر جماعتیں اس کا خیال رکھتی ہیں‘ تاہم پی ٹی آئی اس فرق کو سمجھنے سے قاصر معلوم ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی نہ صرف سرکاری وسائل کو پارٹی اثاثہ سمجھ کر استعمال کرتی ہے بلکہ اپنے اس اقدام کو درست بھی سمجھتی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے ڈی چوک میں گرفتار ہونے والے سرکاری ملازمین کو ایک درجہ ترقی دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ خان صاحب کے بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں۔ ڈی چوک احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے 86سرکاری ملازمین کو اٹک جیل سے رہائی کے بعد خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس لایا گیا جہاں علی امین گنڈا پور نے اہلکاروں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعلیٰ نے تمام اہلکاروں کو اگلے درجہ میں پروموٹ کرنے کا اعلان کرکے انہیں ایک ہفتے کی چھٹی بھی دے دی۔ رہا ہونے والے اہلکاروں کو 10‘ 10ہزار روپے وظیفہ بھی دیا گیا۔
علی امین گنڈا پور نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں جن افراد کا استقبال کیا وہ سب اُنہی کے ہمراہ احتجاج کے لیے اسلام آباد گئے تھے۔ علی امین گنڈا پور نے اپنے طرزِ عمل سے خان صاحب کے ساتھ وفاداری کا ثبوت تو پیش کر دیا مگر اُن کے اس طرزِ عمل سے کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے حکم یا ذاتی خواہش پر جیسے بھی ہو‘ بہرصورت خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین وفاق کے خلاف کھڑے تھے‘ کیا سرکاری ملازمین اس طرح دیدہ دلیری سے کسی سیاسی احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں؟ یہ واضح ہے کہ صوبائی سرکاری ملازمین کا وفاق کے خلاف سیاسی احتجاج کا حصہ بننا درست نہیں تھا‘ پھر ایسے افراد کو وزیراعلیٰ ہاؤس بلا کر ان کی پذیرائی کیوں کی گئی؟ علی امین گنڈا پور کے طرزِ عمل سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنا کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔ علی امین گنڈا پور احتجاج کا حصہ بننے والے افراد کی خدمات کا صلہ دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیں مگر قومی خزانہ لٹانے کے بجائے وہ انہیں اپنی جیب یا پارٹی فنڈ سے کیوں نہیں نوازتے؟ سرکاری ملازمین کو جب ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ وفاداری کا صلہ دیا جا رہا ہے تو اُن پر سرکاری خزانہ اور عوام کا پیسہ کیوں لٹایا جا رہا ہے؟ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق اس صوبے کے عوامی وسائل کو سیاسی مقصد کے لیے دونوں ہاتھوں سے لٹایا جا رہا ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چھ سو ارب روپے سے زائد کا مقروض ہے‘ اے این پی کے صدر ایمل ولی خان کے بقول صوبے کا مجموعی قرضہ 1800ارب روپے ہو چکا ہے۔
دوسری طرف آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی کے نت نئے تضادات سامنے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو آئینی ترمیم پر تحفظات تھے مگر ان تحفظات کے باوجود وہ آئین میں ترمیم کے لیے قائم کی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا حصہ بنی اور کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں شرکت بھی کرتی رہی‘ تاہم جب آئینی ترمیم ایوان میں پیش ہوئی تو پی ٹی آئی نے خود کو الگ کر لیا۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد فوری نوعیت کا مسئلہ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل تھا جس میں دیگر جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی نے بھی تین نام دیے مگر کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پی ٹی آئی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے باوجود نئے چیف جسٹس کی تقرری کا عمل نہیں رُکے گا کیونکہ کمیٹی کے اکثر ارکان موجود تھے۔ اس صورتحال نے پی ٹی آئی قیادت کو پریشان کیا اور مبینہ طور پر قیادت میں پایا جانے والا اختلاف سامنے آیا۔ علی محمد خان جیسے رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ ماضی میں جب جب پی ٹی آئی نے میدان کو خالی چھوڑا تو پارٹی کو اس کا نقصان ہوا‘ سو فیصلہ یہ ہوا کہ پی ٹی آئی جوڈیشل کمیشن کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی کا حصہ بنے گی۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے بل کی محرک پی ٹی آئی کی سینیٹر فوزیہ ارشد ہیں مگر جب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ججز کی تعداد بڑھانے کی منظوری دے دی تو تحریک انصاف اس کی مخالفت پر اُتر آئی کہ یہ غلط فیصلہ ہے اور سینیٹر فوزیہ ارشد نے اپنا بل واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافہ پی ٹی آئی کا دیرینہ مطالبہ تھا تو پھر اس اہم موقع پر بل کی مخالفت کیوں کی گئی؟ آئے روز پی ٹی آئی کا دہرا معیار اور قول و فعل کا تضاد آشکار ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کے متضاد رویے درحقیقت پارٹی میں موجود مختلف گروپوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک گروپ کہتا ہے کہ پارلیمانی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے اور ایوان کے اندر رہتے ہوئے کوشش جاری رکھی جائے کیونکہ عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں جبکہ دوسرا گروپ مزاحتمی رویے کو کسی صورت ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ گروپ احتجاج کو خان صاحب کی رہائی سمیت تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ خان صاحب بھی یہی چاہتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ خان صاحب نے مصالحت پسند گروپ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ لوگوں کو اتنا وقت دیا گیا تو کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلا؟ خان صاحب سے جیل میں ملنے والوں کی حالیہ ناکام احتجاج پر بھی بات چیت ہوئی ہے جس کے بعد علی امین گنڈا پور کو بڑے احتجاج کا ٹاسک دیا گیا ہے جس میں تین لاکھ افراد کی شمولیت کو یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ علی امین گنڈاپور کی سرکاری ملازمین کی پروموشن کے پیچھے یہی عوامل کارفرما ہیں کہ اس سے کارکنان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ بڑھ چڑھ کر احتجاج میں حصہ لیں گے۔
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی دو کشتیوں پر سوار نظر آتی ہے‘ کچھ لوگ مزاحمتی بیانیے کی کشتی میں سوار ہیں جبکہ باقی پارلیمانی جدوجہد کی کشتی پر سوار ہیں۔ بہرحال‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دو کشتیوں کے سوار کو کبھی منزل نہیں ملتی پی ٹی آئی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved