تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     04-11-2024

بیرونی سرمایہ کاری‘ پی آئی اے اور آئی ایم ایف

ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری میں تقریباً 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب کے بعد قطر نے بھی پاکستان میں تقریباً تین ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اطلاع وفاقی وزیر اطلاعات نے دی ہے‘ زیادہ بہتر ہوتا اگر اس کی تصدیق قطری حکومت کا کوئی نمائندہ بھی کرتا۔ سرمایہ کاری کے معاملات چند دنوں میں طے نہیں کیے جا سکتے‘ اس کے لیے لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی سرمایہ کاروں کے پہلے دو دوروں میں سرمایہ کاری کی واضح شکل نظر نہیں آ رہی تھی لیکن تیسرے دورے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ابتدائی طور پر دو ارب 20 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان ہوا اور اب اسے بڑھا کر دو ارب 80 کروڑ ڈالر کر دیا گیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری حوصلہ افزا ہے ۔ سعودی آئل کمپنی آرامکو نے پاکستان میں پہلے پٹرول پمپ کا افتتاح بھی کر دیا ہے ۔ پٹرول پمپوں کی تعداد 121 سے زیادہ کی جائے گی۔ سعودی سرمایہ کاروں کا سب سے بڑا مطالبہ تحفظ کا ہے۔ دوسری جانب چین‘ جو پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے‘ کے سفیر نے پہلی مرتبہ ایک تقریب کے دوران وزیر خارجہ اسحق ڈار کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں دو مرتبہ کہا کہ چھ ماہ میں چینی باشندوں پر دو دہشت گردانہ حملے ناقابلِ برداشت ہیں‘ ان سے چینی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے گا۔ یہی تحفظات اس وقت سعودی اور قطری سرمایہ کاروں کے بھی ہیں۔
سعودی عرب ابھی تک پاکستان کے منافع بخش کاروباروں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ریکوڈک اور آئل سیکٹر ہاٹ پراڈکٹس ہیں۔ عمومی طور پر ایسی ڈیلز کو بیلنس کرنے کے لیے زیادہ منافع بخش کاروبار کے ساتھ چند چیلنجنگ شعبوں کو بھی جوڑ دیا جاتا ہے۔ پی آئی اے نجکاری ڈیل میں سعودی عرب اور قطر کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ قطر دنیا کو سب سے بہترین ایئر لائن سروسز فراہم کر رہا ہے۔ پی آئی کے اکثریتی شیئرز قطر کو بیچنے سے پی آئی اے کا معیار بہتر ہو سکتا ہے اور ملکی خزانے پر بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ فی الحال پی آئی اے نجکاری ناکام ہو گئی ہے‘ جس سے ملکی امیج متاثر ہوا ہے۔ حکومت نے جس ملکی اثاثے کی بولی کی ابتدائی قیمت 85 ارب روپے لگائی‘ اس کو خریدنے والوں نے آخری قیمت 10 ارب روپے لگائی ہے۔ اس سے نہ صرف پی آئی اے کی نجکاری متاثر ہو گی بلکہ دیگر اداروں کی نجکاری بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ تاثر بڑھ سکتا ہے کہ حکومت سرمایہ کاری یا نجکاری کے لیے اپنے اثاثوں کی جو قیمت بتاتی ہے وہ درست نہیں۔ جب مقامی سرمایہ کار لگ بھگ پچاسی فیصد کم قیمت میں ملکی اثاثے خریدنے کی بات کریں گے تو بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد کیسے بحال ہو سکتا ہے؟ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب حکومت کو معلوم تھا کہ تمام کمپنیاں پیچھے ہٹ گئی ہیں اور صرف ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی بِڈنگ کر رہی ہے تو اسے مؤخر کیوں نہیں کیا گیا؟ شاید حکومت کو معلوم تھا کہ کتنی آفر ہونے جا رہی ہے‘ اسی لیے کوئی وزیر نجکاری کی تقریب میں شامل نہیں ہوا۔ یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کن بنیادوں پر قومی ایئر لائن ایک ایسے گروپ کو بیچی جا رہی تھی جس کا ایئر لائن انڈسٹری میں کوئی تجربہ ہی نہیں۔ نجکاری کے لیے جو شرائط سرکار نے رکھی ہیں‘ ان کے ہوتے ہوئے مطلوبہ قیمت پر فروخت مشکل ہی نہیں بلکہ شاید ناممکن ہے۔ سب سے عجیب شرط پی آئی اے ملازمین کو دو سے تین سال تک ملازمتوں سے فارغ نہ کرنا ہے‘ حالانکہ پی آئی اے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی غیر ضروری اور سیاسی بھرتیاں ہیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ پی آئی اے کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قوی امکان ہے کہ کسی خاص کو نوازنے کے لیے یہ سارا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت نے پی آئی اے خریدنے کی آفر دے دی ہے جبکہ اس وقت صوبائی معاملات بھی اس سے چل نہیں پا رہے۔ کے پی میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کی زمینیں بیچی جا رہی ہیں اور گورننس کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ کے پی حکومت کے بعد میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت پی آئی اے خرید سکتی ہے اور بہتر انداز میں اسے چلا سکتی ہے۔ میرے خیال میں ان کے اندازے درست نہیں۔ اگر پنجاب حکومت سمجھتی ہے کہ وہ پی آئی اے چلا سکتی ہے تو پنجاب کے سب سے کامیاب سمجھے جانے والے سابق وزیراعلیٰ اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں‘ پھر ان کی حکومت اس ایئر لائن کو چلانے میں ناکام کیوں ہو گئی؟ انہیں سمجھنا چاہیے کہ پی آئی اے چلانا پنجاب حکومت کے بس کی بات نہیں‘ ایئر لائن چلانا یا کاروبار کرنا نجی شعبے کا کام ہے نہ کہ سرکار کا۔
ملک میں سرمایہ کاری کا شرح سود سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس وقت مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے آج (4 نومبر بروز سوموار) کے اجلاس میں دو سو بیس پوائنٹس کی کمی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے‘ جس سے مارکیٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے لیکن شرح سود کے سنگل ڈیجٹ تک آنے میں اب بھی وقت لگے گا ‘ البتہ شرح سود کم ہونے سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بہتری آ سکتی ہے۔ حکومت معاشی سرمایہ گرمیاں بڑھانے کے لیے مختلف شعبوں پر توجہ دے رہی ہے۔ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً نو فیصد حصہ براہِ راست رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سے منسلک ہے اور تقریباً پچاس سے زیادہ صنعتیں ان شعبوں سے وابستہ ہیں۔ حکومت تعمیراتی شعبے میں بہتری کے لیے ایک نیا معاشی پلان لانے کی تیاری کر رہی ہے لیکن اس کے لیے آئی ایم ایف کی منظوری درکار ہو گی۔ یہ ٹیکس ایمنسٹی نہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ حالات میں آئی ایم ایف سے منظوری لینا شاید ممکن نہ ہو کیونکہ ایف بی آر چار مہینوں کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر سکا اور آئی ایم ایف کی جانب سے منی بجٹ کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔ یہ معاملہ سنگین ہے۔ ایف بی آر ٹیکس اہداف کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے درخواست کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف 'ڈو مور‘ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چار ماہ میں تقریباً 200 ارب روپے کم ٹیکس اکٹھا ہوا ہے۔ ٹیکس ہدف تقریباً 3600 ارب تھا جبکہ 3400 ارب روپے وصول ہوئے ہیں۔ ریکارڈ ٹیکس گوشوارے جمع ہونے سے ٹیکس اہداف حاصل ہونے کی امید تھی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ ایف بی آر نے برآمدکنندگان کے تقریباً 280 ارب سے زیادہ کے ٹیکس ریفنڈ بھی روک رکھے ہیں‘ اگر وہ ادا کر دیے جائیں تو ٹیکس شارٹ فال 485 ارب تک پہنچ سکتا ہے۔ ٹیکس اہداف حاصل نہ کرنے پر اب ایف بی آر افسران کو تبدیل کیا جا رہا ہے مگر یہ رسمی کارروائی لگتی ہے اور اس سے بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ٹیکس اہداف حاصل نہ کر سکنے کی وجہ ڈیجیٹائزیشن کیلئے مطلوبہ رفتار سے کام نہ کرنا ہے۔ تقریباً 64 فیصد معیشت ڈاکیومنٹڈ نہیں ہے۔ سٹیٹ بینک نے دو سال قبل اعلان کیا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی لائی جا رہی ہے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ وفاقی حکومت ایک مرتبہ پھر ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا اظہار کر رہی ہے۔ سٹیٹ بینک قوانین میں تبدیلی کے لیے تجاویز کابینہ کو بھیجی گئی ہیں۔ اگر یہ تجاویز کابینہ اور پارلیمنٹ سے منظور ہو گئیں تو معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کرپٹو کرنسی کے مقابلے میں ایک کنٹرولڈ ڈیجیٹل کرنسی لانچ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 25ارب ڈالرز سے زائد کرپٹوکرنسی سے منسلک ہیں اور دو کروڑ سے زیادہ افراد اس شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر اس رقم کو سسٹم میں شامل کر لیا جائے تو ٹیکس اور سرمایہ کاری اہداف حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved