تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     04-11-2024

زندگی سے ملاقات تو کیجے

میں چلتے چلتے رک گیا۔ دائیں بائیں مچھلی کی دکانیں تھیں اور ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلیاں فروخت ہو رہی تھیں۔ میں اپنے ایک ترک دوست کے ساتھ گولڈن ہارن‘ یعنی شاخ زریں‘ استنبول کے علاقے میں گھوم رہا تھا اور یہ مچھلی بازار تھا۔ ترک دوست کو میرے رک جانے‘ مچھلی کی دکانوں پر جا جا کر نرخ پوچھنے کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ایک دکان پر بات چیت کرتے ہوئے میں نے ترک دوست کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہاں الجھن اور حیرت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ یقینا یہی سوچ رہا تھا کہ یہ پاکستانی سیاح بھی عجیب ہے۔ نہ یہاں اس کا گھر ہے‘ نہ کھانا پکانے کی کوئی جگہ اور نہ ہی اسے مچھلی خریدنی ہے۔ پھر یہاں وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ اس سے بہتر نہیں کہ ہم جوغلاطہ برج جا رہے ہیں‘ وہیں پہنچتے اور وہ تاریخی جگہ دیکھتے جس کے اشتیاق میں ادھر آئے ہیں؟ وہ ٹھیک سوچ رہا ہوگا لیکن غلط میں بھی نہیں تھا۔ میں اپنی پسندیدہ جگہ پر تھا۔ یہاں میرے قدم میرے ذہن نے نہیں‘ میری عادت اور میرے شوق نے روکے تھے۔ شاخ زریں کی صاف ستھری مچھلی مارکیٹ میں کھڑا میں برسوں پیچھے لاہور کی مچھلی منڈی میں پہنچ چکا تھا جہاں میں لگ بھگ دو کلو کی سنگھاڑا مچھلی لینے آیا تھا۔ اس وقت مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں ابھی یہ مچھلی خریدوں گا‘ صاف کروا کر گھر لے جائوں گا اور مجھے شاباش ملے گی۔
بچپن اور لڑکپن ہی میں گھر کا سودا سلف لانے کی ذمہ داری میرے سپرد کی جا چکی تھی۔ روزانہ اور ماہانہ سودا‘ اور دیگر خریداریاں بھی۔ میری بہنیں امی سے تفصیل پوچھ کر وہ پرچہ میرے سپرد کرتیں جس میں روز کی خریداری لکھی ہوتی۔ میں پیسے جیب میں ڈالتا‘ کپڑے کا تھیلا یا سرکنڈوں کی ٹوکری اٹھاتا اور بازار کا رُخ کرتا۔ گائے کا گوشت حاجی صاحب سے‘ بکرے کا گوشت ملک بوٹا سے اور مرغی کا گوشت کھوکھر سے لانا تقریباً طے تھا۔ سبزی کبھی مہر سے اور کبھی لیاقت سے لی جاتی۔ دالیں اور مسالے وغیرہ خان جی سے اور کبھی کبھی جواد سے۔ آٹے کے پیڑے تنور پر لگانے ہوتے تو کبھی رحم دل ہوٹل اور کبھی نصیبن کے تنور سے۔ کوئلے اور لکڑیاں ڈاکخانے کے سامنے خان کے ٹال سے۔ یہ سمن آباد موڑ‘ لاہور کے بازار کا خلاصہ تھا۔ سائیکل چلانے کے قابل ہوا تو چھپڑ سٹاپ یا مزنگ سے بھی گوشت لانے لگا کہ وہاں بہتر اور تازہ گوشت کی دکانیں تھیں۔ بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں تو یہ محض ایک ڈیوٹی تھی جو بہت دفعہ جل پٹخ کر اور مجبوری میں نبھائی جاتی تھی اور سب سے زیادہ غصہ اس وقت آتا جب کوئی غلط چیز واپس کرنے یا تبدیل کرنے دوبارہ جانا پڑتا تھا۔ لیکن سالہا سال کے اس معمول کا بہت بڑ افائدہ یہ ہوا کہ چیزو ں کی پہچان ہوتی گئی اور اچھی چیز لانے کا شوق بھی پیدا ہوتا گیا۔ یہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے اچھے برُ ے کا اندازہ ہوتا گیا اور گوشت سے لے کر پھلوں تک‘ ہر بہتر چیزکا انتخاب اور اس کے ملنے کی جگہیں معلوم ہو گئیں۔ چیزوں کی قیمتوں کا اور روزانہ خریداری کیلئے جتنے پیسے درکار ہوتے ہیں‘ ان کا بھی اندازہ ہو گیا۔
اس دور نے اگلے دور کے ہاتھ میں میرا ہاتھ پکڑا دیا۔ اب خود بازار جانے کی ضرورت کم کم تھی۔ یہ ضرورت دوسرے لوگ پوری کر سکتے تھے۔ لیکن خریداری کا شوق قائم رہا۔ چنانچہ ہفتے بھر کا گوشت‘ سبزی اور دیگر چیزیں لانے کا معمول شروع ہو گیا جس میں ہفتے میں ایک بار ہی بازار کا چکر لگتا تھا۔ اب یہ ڈیوٹی نہیں‘ شوق پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ مگراس میں یہ قباحت تھی کہ مجھ سے اچھی چیز دیکھ کر رہا نہیں جاتا تھا اور میں وہ اتنی زیادہ خرید لیتا تھا جس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن بہرحال اس ہفتہ وار خریداری کے بہت سے فائدے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ جن لوگوں کا عام زندگی اور عام لوگوں سے رابطہ کم کم رہ جاتا ہے‘ ان کیلئے یہ نہایت اہم مصروفیت ہے جو برقرار رہنی چاہیے۔ یاد آیا کہ ایک دفعہ ہم جناب احمد فراز کے ساتھ بیٹھے تھے‘ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب فراز صاحب مستقل اسلام آباد میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ باتوں باتوں میں فراز صاحب نے کہا کہ شاید آپ کو اندازہ نہ ہو کہ اپنے گھر کا ہفتہ وار سودا سلف لینے کیلئے میں خود بازار جاتا ہوں۔کئی لوگ حیرت سے کہتے ہیں: فراز صاحب! آپ گاجریں مولیاں خریدنے آئے ہیں؟ میں انہیں کیا بتائوں کہ میں سبزیاں خریدنے نہیں‘ لوگوں کی باتیں اور روزمرہ کی زبان سننے آتا ہوں جس کا موقع مجھے ہفتہ بھر نہیں ملتا۔ میں زندگی سے ملنے آتا ہوں‘ جو مجھے اپنے روزمرہ معمول میں نہیں ملتی۔
میرے والد مرحوم جناب ذکی کیفی کو بھی گوشت‘ سبزیوں اور پھلوں کی بہت پہچان تھی‘ اور انہیں دعوتوں کا بھی بہت شوق تھا۔ آئے دن ہمارے ہاں دعوتیں ہوا کرتی تھیں۔ یاد آیا‘ ایک بار ہمارے گھر میں ایک بہت بڑے خاندان کے سربراہ دعوت پر آئے تھے۔ نام لینا مناسب نہیں لیکن وہ مشہور بائیس خاندانوں میں سے ایک کے سربراہ تھے۔ انہوں نے آم کھایا تو کھاتے ہی چلے گئے۔ بعد میں والد صاحب سے کہنے لگے کہ ذکی صاحب! میں نے اتنا لذیذ آم کبھی نہیں کھایا‘ یہ کون سا آم ہے؟ بعد میں ہم بچوں کو والد نے کہا: میں سوچتا ہوں اتنے مالدار آدمی نے کبھی اتنا لذیذ آم نہیں کھایا تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے ملازمین جو بھی لا دیتے ہوں گے‘ وہی بہترین آم سمجھ کر کھا لیا جاتا ہوگا‘ ورنہ یہ آم تو ہر جگہ ملتا ہے۔
تو میری یہ ہفتہ وار خریداری اب بھی چلتی رہتی ہے اگرچہ اب اس میں وقفے بھی آنے لگے ہیں۔ مجھے شاپنگ مالز کی نسبت ریڑھیوں‘ ٹھیلوں اور خوانچوں والا بازار زیادہ پسند ہے۔ ایسے بازار کی اپنی ایک ثقافت ہوتی ہے اور اپنا مزاج۔ کبھی آپ ایسے کسی بازار میں صبح سویرے پہنچ جائیں جب ابھی بازار لگا نہیں ہوتا تو ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ ٹھیلوں اور ریڑھیوں والے سبزی‘ مچھلی اور پھلوں کی منڈیوں سے خریداری کرکے واپس آ چکے ہوتے ہیں‘جہاں وہ فجر کے وقت پہنچ گئے تھے۔ منڈی میں خریداری کے بعد وہ اپنے بازار میں آتے ہیں اور ایک پُرہنگامہ دن کے آغاز سے پہلے مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے پیالوں میں چنے‘ پائے‘ دہی اور کلچے۔ ان کا یہ ناشتہ انہیں دن بھر توانائی دیتا ہے۔ ذرا دیر میں ان کا خریدا ہوا سامان چنگ چی رکشوں اور پک اپ وین وغیرہ میں ان کے بازار پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔ بوروں اور تھیلوں سے یہ سامان نکالنا‘ انہیں صاف کرکے سجانا اور گاہک کا انتظار اگلا مرحلہ ہے۔ اچھے منافع پر بیچ کر رزق کمانا ان کی امید اور خواہش ہے لیکن ہر بار یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ گوشت‘ سبزی‘ پھل وغیرہ تازہ ہی پسند کیے جاتے ہیں۔ ان کا جو سودا بچ جائے وہ اگلے دن تک تازہ نہیں رہے گا اس لیے رات تک سودا بیچ کر فارغ ہوجانا ان کی مجبوری ہے۔ غیر متوقع آندھی‘ بارش آ جائے تو وہ ان کے گاہک بھی لے جاتی ہے۔ وہ ایسے کسان کی طرح ہیں جس نے ہل چلا کر بیج بو دیا۔ اب فصل اچھی ہونا یا نہ ہونا‘ موسم حق میں یا خلاف ہونا‘ اس کے بس میں نہیں۔ وہ صرف دعا کر سکتا ہے۔ اس کے پاس سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے۔
جناب! خود بازار جایا کریں۔ ایک بات اور بھی ہے‘ اپنا خریدا ہوا اور اپنا محنت سے پکایا ہوا‘ ان دونوں میں قدرت کوئی ایسی پُراسرار سی لذت ڈا ل دیتی ہے جو کسی اور چیز میں نہیں ہوتی۔ بازار کے کھانے میں وہ بات نہیں ہوتی۔ یہ ایسی ہی لذت ہے جیسی گھر میں خود اگائی ہوئی سبزی یا پھل میں ہوتی ہے۔ آپ جتنے بھی مصروف ہوں‘ جتنے بھی کاہل ہوں‘ جتنے بھی مردم بیزار ہوں‘ جتنے بھی ملازمین آپ کے حکم کے منتظر ہوں‘ اگر آپ زندگی کی اس ملاقات سے محروم ہیں تو بڑی محرومی ہے آپ کی۔ زندگی گزارنا اور زندگی سے گھل مل کرنا رہنا الگ الگ باتیں ہیں۔ حضور! لوگوں سے نہیں ملنا۔ زندگی سے ملنا ہے۔
میں ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں زندگی اپنی؍ میں تم سے شوقِ ملاقات میں نہیں آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved