ہمارے ملک میں نومبر سے فروری تک بالعموم شادی بیاہ کی تقریبات کا کثرت سے انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں بہت سی ایسی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو کسی بھی طور پر کتاب وسنت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بالعموم دکھاوا اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ آلاتِ موسیقی کا بھرپور انداز سے استعمال کیا جاتا ہے‘ اختلاطِ مرد و زن اور اسی طرح پیسے کا ضیاع بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ شادی بیاہ میں تکلف بہت زیادہ ہوتا ہے اور شادی سے متصل بہت سی ایسی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تقریبات اور رسومات ہندو معاشرت کا حصہ رہی ہیں اور مسلمانوں اور ہندوئوں کے لمبے عرصے تک اکٹھے رہنے کی وجہ سے ہمارے مسلم سماج کا حصہ بن چکی ہیں۔ شادی بیاہ کی رسومات اور تقریبات پر اٹھنے والے اخراجات کو دیکھ کر بہت سے غریب اور سفید پوش لوگ بچوں کی شادی کو اپنے لیے ایک بوجھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر بالعموم مہنگے جہیز کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جب لڑکی والے جہیز کے اس مطالبے کو پورا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو شادی کے بعد لڑکی اور اس کے گھر والوں کو طرح طرح کے طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے اسلام کے اصول وضوابط اور تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ شادی کی تقریبات کا انعقاد اچھے طریقے سے کیا جا سکے اور اس کے نتیجے میں جہاں مسلم مرد وخواتین رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں وہیں یہ شادی دو خاندانوں کو جوڑنے کا ذریعہ بھی بن جائے۔ نکاح کے حوالے سے سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید کے متعدد مقامات پر اس بات کو واضح کیا کہ اللہ نے مخلوقات کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ یس کی آیت 36 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ پاک ذات ہے جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں‘ خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النباء میں بھی اس بات کو واضح کیا کہ اس نے انسانوں کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ سورۃ النباء کی آیت نمبر 8 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا‘‘۔ اسی طرح سورۃ الروم میں اپنی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس نشانی کو بیان کیا کہ انسانوں میں ہی سے ان کے لیے ان کی بیویوں کو بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس رشتے کے فوائد اور اہمیت کو بھی ساتھ ہی بیان فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الروم کی آیت 21 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے (تمہاری) بیویاں پیدا کیں تاکہ تم سکون حاصل کرو‘ اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی‘ یقینا غور وفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ازدواجی رشتے کو سکون‘ محبت اور رحمت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ شادی کے بعد پُرسکون اور ٹھہرائو والی زندگی گزارنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں نکاح کے رشتے کو ''لباس‘‘ کی مانند قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 186 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ (تمہاری بیویاں) تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘۔ لباس انسان کی ستر پوشی کا ذریعہ ہے‘ اس کے عیوب کو ڈھانکتا اور اس کو زینت دیتا ہے۔ یہی مثال شوہر اور بیوی کی ہے‘ وہ ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے‘ ایک دوسرے کے ذریعے اپنے جبلی تقاضوں کو پورا کرتے اور ایک دوسرے کے لیے زینت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ رشتۂ ازدواج میں بندھنے کے لیے جہاں حق مہر‘ ایجاب وقبول‘ ولی کی رضامندی اور گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہیں اس رشتے کو نبھانے کے لیے ابتدا ہی سے کچھ اصول اور ضابطوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
(1) تکلفات سے اجتناب: کامیاب شادی کے لیے تکلفات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ اسراف اور تبذیر سے منع کیا ہے۔ اسراف اور تبذیر کے نتیجے میں جہاں انسان کا مال ضائع ہوتا ہے وہیں غریبوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ جس حد تک ممکن ہو نکاح میں سادگی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ نکاح سے متصل ایسی رسوم ورواج سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے جو انسان کے وقت اور وسائل کو ضائع کرنے والی ہوں۔ ہمارے معاشرے میں مایوں‘ تیل ومہندی اور اس قسم کی دیگر رسومات پر بہت زیادہ اخراجات کیے جاتے ہیں جو کسی بھی طور پر اسلامی تعلیمات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ ہمیں لغو رسومات سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ اسی طرح لڑکی والوں پر نکاح والے دن بہت زیادہ مہمانوں کا بوجھ ڈالنا اور ان سے قیمتی جہیز کا مطالبہ کرنا‘ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ یاد رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید میں اس بات سے منع کیا ہے کہ انسان دوسروں کے مال کو ناجائز طریقے سے ہڑپ کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! ایک دوسرے کے مال باہم ناجائز طریقے سے مت کھائو‘ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضا مندی سے خرید وفروخت ہو‘ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘ یقینا اللہ تم پر نہایت مہربان ہے‘‘۔
(2) منکرات سے احتراز: نکاح اور اس سے متصل تقریبات میں آلاتِ موسیقی کا استعمال‘ ناچ گانا‘ بے پردگی اور مرد وزن کا اختلاط کسی بھی طور پر اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اپنی تقریبات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی سے محفوظ رکھنے کے لیے منکرات سے اجتناب کرنا چاہیے اور احکاماتِ حجاب اور آلاتِ موسیقی سے متعلقہ کتاب وسنت کی ہدایات اور تعلیمات پر سختی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔
(3) خیر خواہی کا اہتمام: نکاح اور شادی کی بنیاد خیر خواہی پر ہونی چاہیے اور اس نکاح کو دو مسلم مرد وزن کو جوڑنے کے ساتھ ساتھ دو خاندانوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ تکبر‘دکھاوے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اور خواہش دلوں میں دوریوں اور کدورت کو پیدا کرتی اور نکاح کی برکات کو ضائع کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
(4) جھوٹ سے احتراز: نکاح کی تقریبات میں کئی مرتبہ جھوٹ سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ بالعموم لڑکی کی عمر اور لڑکے کی آمدن کے حوالے سے مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے‘ جس کا نتیجہ بعد والی زندگی میں مثبت نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید میں قولِ سدید کا حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیات 70 تا 71 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اللہ ٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔ تاکہ اللہ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے‘ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو یقینا اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی‘‘۔
اگر ان نکات کو مدنظررکھا جائے اور کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو شادی بیاہ کے بعد انسان کی زندگی امن وسکون اور مسرت سے گزر سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب وسنت کے اصول وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے شادی بیاہ اور خوشی اور مسرت کی تقریبات کا انعقاد کرنے کی توفیق دے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved