ارون دھتی رائے سے تو آپ واقف ہیں۔ وہی لیفٹ کے نظریات رکھنے والی ہندوستان کی معروف ناول نگار‘ دانشور اور سماجی کارکن۔
قدرت نے انہیں ایک سحر انگیز قلم عطا کیا ہے۔ اس کے ساتھ جرأت اور حوصلے سے بھی نوازا ہے۔ بولنے کا فن بھی انہیں ارزاں ہوا ہے۔ دس اکتوبر کو برطانیہ کے ایک ادارے 'پین انگلینڈ‘ نے ان کی جرأت مندانہ تحریروں کے اعتراف میں انہیں ایک ایوارڈ دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے جو تقریر کی‘ وہ اس ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ انہوں نے جس شاندار انداز میں پیش کیا‘ وہ سننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ارون دھتی رائے نے اس بے باکی کے ساتھ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ وہ بھارت کی شہری ہونے کے باوجود اپنی ریاست کے جبر اور ظلم کے خلاف بھی بولتی ہیں۔ انہوں نے کشمیریوں پر روا ریاستی ظلم کو بارہا موضوع بنایا ہے اور دس اکتوبر کی تقریر میں بھی مظلوموں کی فہرست میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ایسے افراد اپنے نظریات کی صحت کے سبب نہیں‘ اپنی فکری دیانت اور جرأت کی وجہ سے محترم مانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں۔
میں جب بھی اس طرح کے دانشوروں کو پڑھتا اور سنتا ہوں تو ایک سوال پہلو بدل بدل کر لازماً دل ودماغ کے دروازے پر دستک دیتا ہے: کیا ایک دانشور کا کوئی ملک اور مذہب ہونا چاہیے؟ کیادانش کا یہ تقاضا ہے کہ اس کا حامل ایک آفاقی شہری ہو؟ کیا پوری انسانیت اس کی قوم اور ساری دنیا اس کاملک ہوتا ہے؟ ریاست اور مذہب کے تنگنائے میں رہنے والا کیا دانش کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟ ارون دھتی رائے اور نوم چومسکی جب بھارتی اور امریکی ریاست پر تنقید کرتے ہیں توکیا اس وقت وہ محبِ وطن نہیں ہوتے؟ میں نے پہلے بھی اس سوال کو موضوع بنایا ہے۔ جب اس نوعیت کا کوئی واقعہ ہوتا ہے‘ یہ سوال پھر زندہ ہو جاتا ہے۔
ایک عام شہری کی طرح دانشور کا بھی وطن‘ ملک اور مذہب ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ اس کی بھی وابستگی ہوتی ہے۔ وطن اور ملک (ریاست) کا فرق‘ میں اس سے پہلے ایک کالم میں بیان کر چکا ہوں۔ وطن سے لگاؤ فطری ہے۔ ماں باپ کی طرح اس میں انتخاب نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ کوئی اور کرتا ہے اور آپ اس کے پابند ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت اسی طرح فطری ہے جیسے ماں باپ سے۔ مذہب کا معاملہ اختیاری اور شعوری ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ اکثر لوگ مذہب کے باب میں اختیار اور شعور کو کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ ہم اس کو مانتے ہیں کہ مذہب تبدیل کیا جا سکتا ہے اور یہی معاملہ ریاست کا بھی ہے۔ کسی ریاست کی شہریت بھی آپ کا اختیاری فیصلہ ہے۔
ایک دانشور سے ہم یہ تو قع رکھتے ہیں کہ مذہب یا نظریہ بھی اس کے لیے وہی اہمیت رکھتا جو اہمیت وطن کو حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو مذہب یا نظریہ اختیارکرے گا‘ وہ شعوری ہو گا۔ شعوری فیصلوں پر بھی اہلِ دانش کو اتنا تیقن ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے جان دے سکتے ہیں‘ تاہم چونکہ اصلاً یہ اختیاری معاملہ ہے‘ اس لیے یہ امکان بہر صورت موجود رہتا ہے کہ مذہب کی کوئی بات اس کے شعور کے لیے قابلِ قبول نہ رہے اور وہ اپنا مذہب بدل لے۔ رہا معاملہ ریاست کا تو کیا ریاست کی حکمتِ عملی اور مقاصد کے بارے میں عدم اطمینان کے بعد وہ یہ حق رکھتا ہے کہ اس سے وابستہ بھی رہے اور اختلاف بھی کرے؟
جدید ریاست جس سماجی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے‘ اس میں ریاست سے وفاداری شہری کے فرائض میں شامل ہے۔ وہ اس کا حلف بھی اٹھاتا ہے۔ اس سے روگردانی پر ریاست چاہے تو اسے سزا بھی دے سکتی ہے۔ شہری کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ذاتی حیثیت میں ایسا قدم اٹھائے جو اس کے خیال میں ریاست کے مفاد میں ہے مگر سماجی معاہدہ (آئین) شہری کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر ریاست کا کوئی ملازم اگر کسی موقع پر یہ سمجھتا ہے کہ ملک میں آئینی طور پر قائم حکومت اگر قائم رہی تو یہ قومی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے اور وہ اپنے اس 'اجتہاد‘ کی بنیاد پر کسی ریاستی ادارے یا غیرریاستی جتھے کی مدد سے حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدارپر قبضہ کر لے تو ریاست کا قانون اسے جرم قرار دیتا اور اس کے لیے سنگین سزا تجویز کرتا ہے۔
لیکن اگر اس سوچ کے ساتھ وہ ریاست اور حکومت پر تنقید کرتا ہے کہ اس کی پالیسی کسی اخلاقی اصول یا قومی مفاد کے خلاف ہے لیکن عملاً کوئی اقدام نہیں کرتا تو کیا وہ اس کا حق رکھتا ہے؟ جدید ریاستیں بالعموم اس حق کو تسلیم کرتی ہیں‘ تاہم اس میں ریاست اور حکومت کا فرق باقی رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ریاست اگر کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ چھیڑ دے اور کوئی شہری اس کو ظلم سمجھتا ہو تو اس کے اختلاف کو گوارا نہیں کیا جاتا۔ محمد علی کلے نے ویتنام کے خلاف امریکی جنگ کو غلط کہا تو بطور سزا ان کا باکسنگ کا اعزاز چھین لیا گیا۔
ایک دانشور کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کی طرح ریاست اور حکومت کی اصلاح کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اگر اسے یہ محسوس ہو کہ ریاست کا کوئی اقدام اخلاقی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تو اسے اپنی بات کہنی چاہیے۔ اگر ریاست بالغ نظر ہو گی تو وہ اس کی تنقید کو برداشت کرے گی۔ اس کا رویہ وہی ہوگا جو سارتر کے معاملے میں صدر ڈیگال کا تھا۔ جب سارتر کو سول نافرمانی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تو ڈیگال کی مداخلت سے انہیں رہا کر دیا گیا۔ صدر ڈیگال نے اس موقع پر کہا: You do not arrest Voltaire۔ 'والٹیئر کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا‘۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ کسی قوم میں سارتر جیسے لوگوں کا وجود اس کی اخلاقی قوت کا اظہار ہے۔ اگر ریاست کوتاہ نظر افراد کے ہاتھ میں ہو گی تو وہ اہلِ دانش کو اپنی جہالت کی بھینٹ چڑھا دے گی۔
جب ایسی ریاست سے پالا پڑے تو اہلِ دانش کو کیا کرنا چاہیے؟ قوم کے ساتھ دانشور کی خیر خواہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اسے سچ پر قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ انہیں اپنے مؤقف سے رجوع کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے پاس دو راستے ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ حالات موقع دیں تو ملک سے ہجرت کر جائیں۔ کسی پُرامن جگہ جائیں اور اپنی بات کہتے رہیں۔ اگر اس کا موقع نہ ہو تو ملک میں رہ کر اپنی بات حکمت کے ساتھ کہیں اوراس کے لیے تیار رہیں کہ حق گوئی کی جو قیمت ہو گی‘ وہ ادا کریں گے۔ تیسرا راستہ بھی ہے جو خاموشی اور رخصت کا ہے۔ اس سے آدمی تو زندہ رہتا ہے‘ دانش مگر مر جاتی ہے۔ ایک دانش مند کے لیے سچائی سے تعلق ہر دنیاوی رشتے سے بلندتر ہے۔ علامہ اقبال نے اگر نیشنل ازم کو رد کیا تو اسی دلیل کی بنیاد پر۔ خدا سچائی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ سچائی کے مقابلے میں وطن یا ریاست کو ترجیح دینا اسے خدا ماننا ہے۔ اقبال نظریے کو وطن پر ترجیح دیتے ہیں۔
ارون دھتی رائے جیسے لوگوں کی باتیں سن کر میرے ذہن میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے: اگر پاکستان میں کوئی دانشور ان کی طرح حق گوئی کی راہ اختیار کرے اور جسے درست سمجھے اس کا بے باکانہ اظہار کر لے تو ہماری سرزمین پر اور دل میں کیا اس کے لیے کوئی جگہ ہو گی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved