مسلم لیگ (ن) کی قیادت معیشت کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتی ہے اس لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو اپنی حکومت کی ترجیح قرار دیا۔ معاشی چیلنجز ضرور ہیں لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حکومت معاشی بحالی کے لیے کوشاں ہے اور اقتصادی سفارتکاری کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ یہ مسائل کو چیلنج سمجھ کر ڈیل کرتی ہے۔ 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تھی تو ملک میں توانائی بحران عروج پر تھا‘ عوام اور صنعتکاروں کا سب سے بڑا مطالبہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا اور وعدہ کیا کہ حکومت میں آنے کی صورت میں بجلی کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔اس طرح جو بجلی منصوبے مکمل ہوئے ان کی بدولت لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بارہ گھنٹوں سے کم ہو کر ایک دو گھنٹے پر آ گیا اور صنعتی پہیہ رواں ہو گیا۔ دوسری جانب حکومت کے خلاف سازشیں جاری رہیں اور تین‘ ساڑھے تین سال بعد ہی ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ جس پاناما کیس کے تحت میاں نواز شریف کو رخصت کیا گیا‘ اب اس بارے مزید کیا بات کرنی کہ حقیقت سے سبھی پرتیں اب ہٹ چکی ہیں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اگر اُس وقت میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع مل جاتا تو ملک کے سیاسی و معاشی حالات مختلف ہو تے۔
فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے پی ڈی ایم کے اتحاد کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی لیکن معاشی بگاڑ جس نہج پر تھا اسے ٹریک پر لانے کے لیے برسوں کی محنت درکار تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے سوا کوئی پارٹی حکومت سنبھالنے کے لیے تیار نہ تھی کیونکہ حکومت کی ناکامی نوشتۂ دیوار تھی مگر مسلم لیگ (ن) نے سیاسی نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے حکومت اور مسائل کے حل کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس حکومت کے لیے دوسری بڑی آزمائش 2022ء کا بدترین سیلاب تھا جس میں لگ بھگ 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سیلاب سے معاشی بحران شدید تر ہو گیا تاہم حکومت نے سفارتی کوششیں تیز کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ پاکستان جن موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے ان میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ماحولیاتی سرمایہ کاری کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہو سکے۔ مختصراً یہ کہ فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے حکومت کے لیے معاشی بحران کا چیلنج موجود تھا اور اسی معاشی چیلنج کے پہاڑ کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے نئی حکومت کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ ناکامی کی صورت میں اسے بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اس موقع پر مسلم لیگی قیادت نے آگے بڑھ کر چیلنج کا سامنا کیا اور عوام کو اعتماد دلایا کہ مسلم لیگ (ن) معاشی بحران کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنا زور معاشی سفارتکاری پر رکھا اور اب اس کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر کی سرمایہ کاری کے پیچھے دراصل حکومت کی کئی ماہ کی محنت ہے۔ حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت سرمایہ کاروں کو بزنس ٹو بزنس تعلقات کا موقع فراہم کیا۔ معیشت کی بہتری کے لیے کچھ ایسے اقدامات کیے جو پہلے کر لیے جاتے تو ہم معاشی مسائل کی دلدل میں یوں نہ دھنسے ہوتے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی پالیسی کے تحت حکومت آگے بڑھ رہی ہے اور اب یہ پالیسی بھی اپنائی گئی ہے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں ہے‘حکومت نجی شعبے کو سہولتیں اور سازگار ماحول فراہم کر کے سرمایہ کاروں کو راغب کرے گی۔
یہ جانتے ہوئے کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے‘ ماضی میں ہم حکومتوں کی سطح پر کاروبار کے مواقع تلاش کرتے رہے۔ معاشی ترقی اور خوشحالی کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جس میں بزنس ٹو بزنس تعلقات‘ آزاد تجارتی زونز اور سرمایہ کاری کی سہولت جیسے عوامل اہم ہیں۔ یہ تینوں عوامل ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جو سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے‘ تجارت کو فروغ دیتا ہے اور معاشی نمو کو بڑھاتا ہے۔ جب دو ممالک کے مابین بزنس ٹو بزنس تعلقات مضبوط ہوتے ہیں تو ان کی باہمی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جب کاروباری ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور اپنی مصنوعات اور خدمات کو بہتر بناتے ہیں۔ اس سے ان کی عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی صلاحیت بڑھتی اور ساکھ بہتر ہوتی ہے۔ آزاد تجارتی زونز میں درآمدات اور برآمدات پر ٹیکس کم یا بالکل نہیں ہوتا اور دیگر قانونی پیچیدگیاں بھی کم ہوتی ہیں۔ اس سے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب کرنا آسان ہوتا ہے اور نئے کاروبار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ آزاد تجارتی زونز میں پیدا ہونے والی مصنوعات کو دنیا کے مختلف ممالک میں آسانی سے برآمد کیا جا سکتا ہے۔ دنیا سرمایہ کاری کو آسان بنانے کیلئے سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات‘ دوستانہ قوانین اور سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے جس میں تحفظ سرفہرست ہے۔ جب سرمایہ کاروں کو یقین ہو جائے کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہے اور انہیں اچھی آمدنی حاصل ہو گی تو وہ سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کسی ملک کی معاشی ترقی کا ایک اہم عنصر ہے۔ جب بیرونِ ملک سے سرمایہ آتا ہے تو اس سے نہ صرف سرمایہ کاری کا مجموعی حجم بڑھتا ہے بلکہ نئی ٹیکنالوجی‘ مہارت اور تجربات بھی ملک میں آتے ہیں۔ یہی عوامل دراصل ترقی کا ذریعہ ہیں۔
گو ہماری منزل ابھی کافی دور ہے تاہم سمت کا درست ہونا بھی کسی کامیابی سے کم نہیں ہے۔ حکومت جس راستے پر چل رہی ہے اگر اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنی مدت پوری کر لیتی ہے اور کوئی ناگہانی صورتحال پیدا نہیں ہوتی تو جس طرح 2018ء میں حکومت ختم ہونے سے پہلے لوڈشیڈنگ بحران کو ختم کر دیا گیا تھا اسی طرح موجودہ حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے معاشی بحران کے خاتمے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ تاہم اہداف کے حصول کے لیے حکومت کی مدت پوری ہونا اور پالیسیوں میں تسلسل کا رہنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کی مدت اسی صورت پوری ہو سکتی ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو گا۔ ترقی کے سفر میں تسلسل اور استحکام لازم و ملزوم ہیں۔ اپنی خواہش کے لیے حکومتوں کو ختم کرنے کی روایت اب ختم ہونی چاہیے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی طور پر خاموش بیٹھنے والی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دو‘ تین برس میں جلسے جلوس اور احتجاجی سیاست سے پی ٹی آئی نے کیا حاصل کیا ہے؟ انہیں جان لینا چاہیے کہ جلسوں سے کچھ ملنے والا نہیں۔ جلسوں کا مقصد عوامی شعور میں بیداری نہ ہو تو ایسے جلسے وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتے ہیں۔ صوبوں میں آگے بڑھنے کے لیے مسابقتی عمل نظر آنا چاہیے۔ جو صوبے ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں انہیں معاشی منصوبہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ عوام صرف انہی لیڈروں کی بات پر یقین کریں گے جو انہیں ریلیف دیں گے۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کہاں کھڑے ہیں‘ یہ سوال ان کے لیے اہم ہونا چاہیے جو اس وقت صوبوں کے حکمران ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved