ہماری انوکھی اور دلچسپ تاریخ میں بڑی انگوٹھا چھاپ اسمبلیاں رہی ہیں لیکن اس فارم47 والی اسمبلی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ جو ایجنڈا اس کے سامنے رکھا جاتا ہے اُس پر فوراً انگوٹھا لگ جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے جوکچھ ہو رہا ہے‘ عین قرینِ انصاف ہے کیونکہ فارم47 کا جادو نہ چلتا تو یہ اسمبلی کہاں سے قائم ہونی تھی اور پھر اس اسمبلی سے جس حکمرانی بندوبست نے جنم لیا ہے وہ کہاں سے آتا۔ ایک جماعت کا دعویٰ تھا 'ووٹ کو عزت دو‘ ووٹ کو تو ایسی عزت ملی ہے کہ کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسری جیے بھٹو والی جماعت کا نعرہ تھا 'طاقت کا سرچشمہ عوام‘۔ اس دور میں جمہوریت کے ایسے عَلم زمین میں گاڑے جا رہے ہیں کہ خیال اٹھتا ہے کہ بھٹو کی روح پرکیا گزر رہی ہو گی۔
چھبیسویں ترمیم کا ناٹک مکمل ہوا تو قبلہ مولانا صاحب کے چہرے کا چمکنا قابلِ دید تھا۔ ہر ایک کوئی اُن کے در پر حاضری دے رہا تھا۔ لیکن یہ جو تاریخی قانون سازی ہوئی ہے اس کے بعد حضرت کے چہرے کو غور سے دیکھئے‘ بالکل اُترا ہوا لگتا ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا کہ کالے ناگ کے دانت ہم نے نکال دیے ہیں۔ اصل میں دانت سپریم کورٹ اور اس فارم 47 کی پارلیمنٹ کے نکل گئے ہیں۔ اور ایسے نکلے ہیں کہ چبانے کیلئے اب کچھ نہیں رہا۔ یہ جو قانون پاس ہوئے ہیں‘ تاریخی نوعیت کے حامل ہیں کیونکہ جو اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ہوا ہے وہ ماضی کا کوئی طالع آزما بھی‘ چاہے اُس کا نام ضیاالحق تھا یا پرویز مشرف‘ نہیں کر سکا۔ گزرے ادوار میں اس پر اکتفا کیا جاتا تھا کہ جج صاحبان سے نیا حلفِ تابعداری لے لیا جاتا۔ ناپسندیدہ ججوں کو اس رسمِ وفا کی زحمت نہیں دی جاتی تھی۔ اب کی بار کوئی نیا حلف نہیں لیا گیا‘ کسی کو فارغ نہیں کیا گیا‘ بس سپریم کورٹ کے دودھ میں نزدیک گزرتی کسی ندی سے اتنا پانی ملا دیا ہے کہ نہ پانی کا ذائقہ رہا نہ دودھ کی چاشنی۔ اب جس مدھانی میں بھی یہ سب کچھ ڈالا جائے اُس میں زور لگا کر رِڑکتے رہیے‘ کچھ نہیں نکلے گا۔ اب بھی حکمرانی بندوبست کے فیصلوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا لیکن نوزائیدہ ترمیمات کے بعد عدالتی چیک ایند بیلنس کا تصور ہی کسی گہرے گڑھے میں دفنا دیا گیا ہے۔ جو دماغ اس کارنامے کے موجد ہیں اُن کو داد دینی پڑتی ہے۔ سترہ جج تھے سپریم کورٹ کے‘ ان میں اکثریت اُن جج صاحبان کی تھی جن کے فیصلے سرکاری بندوبست سے ہضم نہیں ہو رہے تھے۔ سترہ کی تعداد چونتیس تک پہنچا دی گئی ہے‘ ظاہر ہے نئے ججوں کی تقرریوں کا جو طریقہ کار بنایا گیا ہے اُس سے اپنے ہی بندے اوپر آئیں گے۔ کیا فیصلے ہو سکیں گے اورحکومتی من مانیوں پر کیا نظر رکھی جا سکے گی!
اور یہ جو توسیع والا قانون پاس ہوا ہے‘ یقین مانیے اس کیلئے تو وہ انگریزی کا لفظ ہی فٹ آتا ہے‘ ماسٹر سٹروک۔ سارا ٹنٹا ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک تو عمران خان کی اسمبلی تھی جس نے بلاوجہ اور بلاضرورت توسیع کا باقاعدہ قانون بنایا تھا۔ مدت اور توسیع دونوں تین تین سال رکھی گئی تھیں۔ اس ماسٹر سٹروک میں تین کو پانچ کر دیا گیا ہے اور بہت لوگ ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ توسیع بھی تین سے پانچ ہو گئی ہے۔ پانچ اور پانچ کو جوڑیں‘ کتنے بنتے ہیں؟ دس! اتنا یاد دلاناکافی ہے کہ ایوب کا دورِ اقتدار دس سال پر محیط رہا‘ ضیا کا ساڑھے گیارہ سال اور مشرف کا ساڑھے آٹھ سال۔ صدور تو سب ہی تھے لیکن اُن کی طاقت کا اصل سرچشمہ اُن کا دوسرا عہدہ تھا۔ ایوب نے اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بنا لیا اور موسیٰ کو کمانڈر اِنچیف مقرر کیا۔ ایسا تکلف ضیا اور مشرف نے نہیں برتا‘ دونوں عہدے اُن کے پاس رہے۔ اب کی بار نظام تھوڑا مختلف ہے‘ اوپر صدر زرداری ہیں لیکن اصل کام دیگر طریقوں سے چل رہا ہے۔ آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی ہے اس سے توسیع کی فکر قومی سوچ سے نکال دی گئی ہے۔ (ن) لیگی طبلہ نواز صحیح طور پر چہچہا رہے ہیں کہ اس قانون سازی سے ملک میں استحکام آ جائے گا۔ استحکام تو بہت حوالوں سے پہلے بھی تھا‘ بس یوں سمجھنا چاہیے کہ پرانے استحکام کے اوپر ایک بھاری تہہ مزید استحکام کی لگا دی گئی ہے۔
پارلیمنٹ کا کام آسان ہو گیا ہے ۔ کرنے کو تو اب کچھ رہ نہیں گیا بس تالیاں بجانا باقی ہے اور وہ کام (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نہایت خوش اسلوبی سے کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کڑھتی رہے گی یا کبھی کبھار اسمبلی میں بیٹھے کاغذ کے پرزے ہوا میں اڑا دے گی۔ مولانا فضل الرحمن سمیٹ لیں جو کچھ سمیٹ سکتے ہیں کیونکہ اب اُن کی افادیت ختم ہو چکی ہے اور کسی نے اُن کے در پر حاضری نہیں دینی۔ جو قانون پاس کرانے تھے وہ ہو چکے ہیں‘ اب دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں رہی۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ جو کرنا تھا وہ ہو چکا اور توسیع کے مسئلے میں جو کچھ مطلوب تھا وہ حاصل ہو گیا۔ مولانا صاحب اپنے ممبران پاس رکھیں‘ اب ان کی کسی کو تلاش نہیں۔ ہاتھ بہتوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ آئین کی بات کو چھوڑیے‘ اس کے ساتھ تو اتنے ہاتھ ہوئے ہیں کہ مزید ذکرکرنا بیکار لگتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ تو بہت بڑا ہاتھ ہو چکا ہے اور ہاں! یاد پڑا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان کے ساتھ بھی ملاوٹ والا کام ہو گیا ہے‘ نو سے بڑھا کر اُس عدالت کی تعداد بارہ کر دی گئی ہے۔ اب اسلام آبادہائیکورٹ کے جج صاحبان مزید خط لکھیں کہ اُن کے کام میں مداخلت ہو رہی ہے‘ دیکھتے ہیں ان پر کون غورکرتا ہے۔
قانون سازی ایسی ہوئی ہے کہ یہ سارے قصے تمام ہو گئے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو اصل ہاتھ قبلہ مولانا کے ساتھ ہوا ہے‘ کہاں وہ تمتما رہے تھے کہ ناگ کے دانت نکال لیے اور کہاں یہ صورتحال کہ کیا عدلیہ‘ کیا پارلیمان‘ کیا سیاست اورکیا قانون کی حکمرانی‘ سب کو اپنی اوقات یاد کرا دی گئی ہے۔
سچ پوچھئے تو ان دنوں میری ہنسی رُک نہیں رہی۔ ایک تو وہ قاضی صاحب والا مسئلہ لندن میں‘ جس پر ظاہر ہے ہنسی نہیں آنی چاہیے افسوس کرنا چاہیے کیونکہ نوجوانوں نے قبلہ قاضی صاحب کے ساتھ کچھ زیادہ ہی کر دیا۔ آہستہ سے کچھ نعرہ بازی ہو جاتی توکوئی مضائقہ نہ تھا لیکن طوفانِ احتجاج اتنا ہونا کہ قبلہ قاضی صاحب کو سرگھٹنوں میں چھپانا پڑے‘ اس پر کچھ ہنسی چھوٹنا قدرتی ردعمل تھا۔ لیکن جس روز یہ تازہ قانون سازی ہوئی اورسمجھ آئی کہ سارے ناٹک کا مطلب کیا ہے تو ہنسی ایسی چھوٹی کہ رکنے کا نام نہ لے۔ یہ قانون سازی پاکستانی قوم کی خوش فہمیوں کا علاج ہے۔ بشریٰ بی بی کی ضمانت ہوئی تو لوگ کہنے لگے کہ لگتا ہے موسم بدل رہا ہے‘ علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی ضمانتیں ہوئیں تو ایسی افواہ سازیوں نے مزید زور پکڑا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ خوش فہموں سے کوئی پوچھے کہ پچھلے دو سالوں سے ملک میں جو کچھ ہوا ہے اُس کے بعد کسی خوش فہمی کی گنجائش رہنی چاہیے؟ اقتدار کی جنگوں میں طشتری پر کچھ نہیں پیش کیا جاتا ۔ پانچ مرلے زمین کا قبضہ آسانی سے نہیں چھوٹتا چہ جائیکہ اقتدار اور حکمرانی پر قبضہ۔
مشکل حالات ہیں‘ ان میں استقامت کی ضرورت ہے۔ ہماری تاریخ میں کئی ایسے ادوار آ چکے ہیں اور اقتدار کے دائروں سے باہر سیاسی قوتوں کو مشکل حالات کا سامناکرنا پڑا۔ یہ پتھر توڑ قانون سازی قوم کو عندیہ ہے کہ جس راستے سے قوم کو گزرنا پڑ رہا ہے‘ کٹھن اور طویل ہے۔ سیاست‘ صحافت‘ قانون کی حکمرانی کے ساتھ جو ہو چکا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ لیکن انہی حالات میں جینا ہے اور انہی میں آگے کا سوچنا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ موسم بدلے تو بہت سی بظاہر مضبوط تعمیرات ریت کا گھروندا ثابت ہوتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved