جن لوگوں کو دوسروں پر حکمرانی کا جنون ہوتا ہے وہ اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ کسی بھی حد تک‘ چاہے اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ وہ قتل کر دیے جائیں‘ ان پر قاتلانہ حملے ہوں‘ پھانسی لگ جائیں‘ عمر بھر قید میں رہنا پڑے‘ جلاوطنی بھگتنی پڑے‘ بیوی بچوں سے دور رہنا پڑے یا کچھ اور قیمت‘ مگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زرداری صاحب کے بقول‘ ہم ایسا دل ہی نہیں رکھتے جو بندے کو تنگ کرے۔ اس میں اگر دل کے ساتھ ضمیر کا بھی اضافہ کر دیں تو جملے کی معنویت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ضمیر سے امریکی ادیب مارک ٹوئن یاد آتے ہیں‘ جنہوں نے کہیں لکھا تھا: کتابیں ہوں‘ دوست ہوں اور ضمیر مردہ ہو تو زندگی بہت خوبصورت ہے۔
جو لوگ دوسروں پر حاکم بننا چاہتے ہیں ان کی سوچ اور مقاصد عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کو استعمال کرنا خوب جانتے ہیں۔ وہ ان ہالی وڈ اداکاروں سے بھی بڑے اداکار ہوتے ہیں جو ہر سال آسکر جیتتے ہیں۔ اداکاروں کو تو فلموں میں اداکاری پر ایوارڈ ملتا ہے جبکہ حاکم بننے کے شوقین حضرات کو کوئی اداکاری نہیں کرنا پڑتی‘ وہ فطرتاً اور پیدائشی اداکار ہوتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کے سکرپٹ‘ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ سب 'ون اِن ٹین‘ ہوتے ہیں۔ وہ روزانہ خود ہی اپنی سیاسی فلم کا سکرپٹ لکھتے ہیں کہ آج کیا بولنا ہے‘ کہاں بولنا ہے‘ کتنا بولنا ہے‘ کہاں آواز بھرانی ہے‘ کہاں آواز کی پِچ کو اوپر نیچے کرنا ہے‘ کہاں ایک غریب آدمی‘ جسے وہ اپنے گھر کے قریب سے بھی نہیں پھٹکنے دیتے‘ اسے اس طرح گلے لگانا ہے جیسے وہ کوئی جڑواں بھائی ہو جو بنارس کے کمبھ میلے میں کھو گیا تھا اور برسوں بعد اچانک ملا ہے۔ جذبات میں اسے گلے لگا کر رونا اور اسے بتانا کہ جب سے وہ گم ہوا‘ بابا چارپائی سے لگ گئے ہیں اور اماں تو اس کے غم میں چل بسیں۔
دوسری جانب عام آدمی ہمیشہ بڑے آدمیوں سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ بڑے لوگوں کی قسمت‘ دولت‘ حسن اور زندگی میں عیاشی کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ امیر یا کامیاب انسان اگر اس پر نظرِ کرم کر دے تو اس کی زندگی بدل جائے گی۔ اس لیے وہ اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے‘ جو دولت اور شہرت حاصل کرنے کے بعد اب انسانوں پر راج کرنا چاہتا ہے۔ اُسے اپنے جنون کی تکمیل کیلئے عام لوگوں کی حمایت درکار ہوتی ہے اور عام انسانوں کو اس سے وہ نسخۂ کیمیا درکار ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ بھی راتوں رات اس جیسے امیر بن جائیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ایک عام بندہ اپنے جیسے عام بندے کو ووٹ نہیں دے گا‘ نہ ہی اس کیلئے وہ سڑکوں پر مار کھائے گا یا جیلوں میں جائے گا یا آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں کھائے گا۔ اسے لگتا ہے کہ یہ تو عام بندہ ہے‘ اس جیسا ہی ہے‘ اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا تو اس کی زندگی میں خاک کچھ نیا کرے گا۔ لہٰذا عام بندہ اپنے جیسے بندے کیلئے ٹکے کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا لیکن بڑے آدمی کی کشش اسے اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ امیر اور بڑا آدمی جو کچھ بھی کہے‘ جھوٹے سچے وعدے کرے‘ جذباتی تقریریں کرے‘وہ اس کی باتوں پر فوراً یقین لے آئے گا کیونکہ وہ پہلے ہی یہ ثابت کر چکا ہے کہ اس نے اپنی زندگی بدلی ہے اور آج وہ ایک کامیاب انسان ہے۔ آپ نے کبھی سنا کہ ایک عام بندہ کسی ناکام یا غریب سے مشورہ مانگنے گیا ہو۔ وہ مشورہ ہمیشہ اس سے کرنا مناسب سمجھتا ہے جو اس سے بہتر زندگی گزار رہا ہو۔
صدیوں سے ان بڑے لوگوں نے عام لوگوں کی نفسیات سے خوب کھیلا اور اب تک کھیل رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں لوگوں کو اپنی خاطر مرنے مارنے پر تیار کر لینا یا احتجاجاً خود کو آگ لگانے یا پھانسی چڑھنے پر تیار کر لینا کوئی آسان کام ہے؟ یہ کام فلموں میں تو ہو سکتا ہے لیکن اصل زندگی میں بہت بڑا اداکار ہی یہ کرشمہ کر سکتا ہے۔ لفظوں کے ساتھ کھیلنا آسان کام نہیں‘ ہر کوئی اپنے الفاظ‘ اپنی تقریروں کے ساتھ آگ نہیں لگا سکتا۔ لوگوں کو مرنے مارنے پر تیار نہیں کر سکتا۔ کبھی آپ نے مظلوم کی آواز بننا ہے تو کبھی ظالم کو چیلنج کرنا ہے‘ کبھی منت ترلے کا انداز اپنانا ہے تو کبھی دھمکی بھرا لہجہ۔ کبھی معصومیت اور مظلومیت کا رونا تو کبھی غرور بھرے لہجے میں احسان جتانا کہ میں چاہتا تو اپنی زندگی عیاشی سے گزار سکتا تھا‘ مجھے کیا پڑی تھی کہ میں جیلیں بھگتوں یا میں گولیاں کھائوں۔ یا پھر یہ کہنا کہ میں تو بڑے بزنس مین گھرانے سے تھا اور منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا لیکن آپ نے دیکھا کہ آپ کی خاطر میں طاقتوروں سے لڑ پڑا‘ اور دس سال بیرونِ ملک جلاوطنی کاٹی۔ مزے کی بات ہے کہ حاکم بننے کے یہ سب جنونی عوام پر احسان جتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے یہ سب کچھ آپ کی محبت‘ آپ کے سکھ کی خاطر بھگتا‘ ورنہ ہم بیوقوف تھے کہ اس بُرے کام میں پڑتے جسے سیاست کہتے ہیں۔ اگر آپ اقتدار کی اس جنگ میں ان لوگوں کی شرکت کا آغاز دیکھیں تو حیران ہوں گے کہ وہ عوام نہیں‘ شان وشوکت اور جاہ وجلال کیلئے اس تھیٹر کا حصہ بنے تھے۔ بھٹو صاحب جب اسکندر مرزا کی کابینہ کے کم عمر ترین وزیر بنے تھے تو کیا عوام کا ریلا گڑھی خدابخش ان کے گھر گیا تھا کہ صاحب مہربانی فرمائیں اور ہمارے حاکم بنیں یا نواز شریف جب گورنر غلام جیلانی کے دفتر کے باہر‘ بقول عابدہ حسین‘ مٹھائی کا ڈبہ لے کر بیٹھے تھے تو کیا وہ عوامی فرمائش پر وہاں گئے تھے یا پھرعمران خان کو عوام کا درد سیاست میں لے کر آیا تھا‘ یا انہیں لگا تھا کہ کرکٹ کے بعد بھی اگر لوگوں کے دلوں پر مسلسل راج کرنا ہے تو اقتداری سیاست میں آنا ہے۔ کبھی آپ نے کوئی عوامی احتجاج دیکھا جو زمان پارک لاہور کے باہر ہوا ہو کہ آپ سیاست میں آئیں؟ عمران خان 1997ء کا الیکشن ہارے‘ 2002ء کا الیکشن ہارے‘ 2008ء میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا‘ 2013ء کا الیکشن ہارے اور پھر جس طرح وہ 2018ء کا الیکشن جیتے وہ بھی سب جانتے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف کو دیکھ لیں کہ جنرل جیلانی کی مدد سے میدانِ سیاست میں داخل ہوئے‘ جنرل ضیا نے 'روحانی بیٹا‘ بنا لیا اور پھر سب راستے کھلتے چلے گئے۔ اب جس طرح 'عوامی مقبولیت‘کے سہارے وہ 2024ء کا الیکشن جیتے ہیں‘ وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ بھٹو صاحب بھی اسی طرح سیاست میں آئے تھے۔ کوئی جدوجہد نہیں‘ پہلے اسکندر مرزا اور پھر جنرل ایوب خان کے وزیر بنے۔ لیکن ایوب کے خلاف عوامی نفرت کو خوب کیش کرایا۔ حاکم بننے کے خواہشمند کی یہی اچھی خوبی ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ڈرامے صرف پاکستان میں چلتے ہیں جہاں ہمارے پیارے ملکو بھائی کا ''نک دا کوکا‘‘ الیکشن کا نعرہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کو کسی سیاستدان کی کارکردگی سے کوئی غرض نہیں‘ بس ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر شغل لگائے رکھیں تو عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ انہیں کچھ غرض نہیں کہ کس نے کتنا کام کیا۔ مگر امریکہ بھی زیادہ مختلف نہیں۔ وہاں ٹرمپ بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ ایک ارب پتی بندہ کچرے کے ٹرک پر چڑھ گیا تاکہ لوگ اسے اپنی طرح سمجھیں‘ کیونکہ جوبائیڈن نے کہہ دیا تھا کہ ٹرمپ کے فالوورز کچرا ہیں۔
ٹرمپ ایک دن برگر شاپ پر برگر ڈیلیور کرنے لگ گیا حالانکہ باب وڈورڈ کی نئی کتاب The War پڑھ رہا تھا‘ ٹرمپ کہتا ہے کہ اس نے دس کروڑ ڈالرز کی ایک ڈیل بغیر کسی ہوم ورک کے محض اپنی جبلت کے سہارے کر لی تھی کہ یہ نقصان نہیں دے گی اور پورا امریکہ حیران تھا۔ اسے اب ووٹوں کیلئے ٹھوس کارکردگی کی نہیں بلکہ کچرا ٹرک اور برگر ڈیلیوری بوائے بننے کی ضرورت ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر 'نک دا کوکا‘ یا ٹرمپ کی کچرا ٹرک چلانے کی وڈیوز چلتی ہیں‘ اور انہی پر ووٹ ملتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved