یہ ونود کھنہ کی کہانی ہے‘ جو پشاور کی سحر انگیز فضاؤں میں پیدا ہوا اور پھر ان فضاؤں کا سحر ہمیشہ کیلئے اس کی شخصیت میں رچ بس گیا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہندوستان کی تقسیم کی خبریں گلی‘ محلوں میں پھیل رہی تھیں۔ پھر 1947ء کا سال آ گیا‘ جب ہندوستان کی تقسیم کا باضابطہ اعلان ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی سرحد کے دونوں طرف فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی اور پھر سرحد کے دونوں طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ونود کے گھر والوں کیلئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ پشاور سے انہیں بے پناہ محبت تھی۔ یہ خوبصورت بازاروں‘ پُرہجوم قہوہ خانوں اور دلبر لوگوں کا شہر تھا۔ کیسے کیسے فنکار تھے جن کے نام پشاور سے وابستہ تھے۔ پرتھوی راج‘ راج کپور‘ دلیپ کمار۔ ان سب کا تعلق پشاور سے ہی تھا۔ یہ وہ فنکار تھے جن کے نام بالی وُڈ کی تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ اُس وقت ونود کے والدکشن چند کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ننھے بیٹے ونود کا نام بھی ایک دن ان فنکاروں میں شامل ہو گا جو بالی وڈ کے آسمان پر پھیلی کہکشاں کے روشن ستاروں میں شامل ہوں گے‘ جن کا بنیادی حوالہ پشاور ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوتے ہی سرحد کے دونوں طرف فسادات شروع ہو گئے ۔ ہر روز پریشان کن خبریں آ رہی تھیں لیکن کشن چند مطمئن تھا۔ اس نے سوچا ہندوستان تقسیم ہو بھی گیا تو کیا‘ پشاور تو ان کا اپنا شہر ہے‘ جہاں ان کا اپنا گھر ہے۔ وہ اپنا گھر کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ اور پھر وہ دن آہی گیا جب کشن چند کے خاندان نے بھاری دل کے ساتھ گھر چھوڑنے اور بمبئی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ بمبئی پشاور کے خاموش اور رومانوی شہر سے یکسر مختلف تھا۔ یہ ایک ہنگامہ خیز شہر تھا جہاں زندگی کی رفتار بہت تیز تھی۔ کشن چند نے ننھے ونود کو سینٹ میریز (St. Mary's) سکول میں داخل کر ا دیا۔ سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب ونود کالج میں آیا تو اسے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ وہ ایک وجیہ اور جاذبِ نظر شخصیت کا مالک تھا جو ہزاروں کے مجمع میں سب سے ممتاز نظر آتا تھا۔
بمبئی فلمی سرگرمیوں کا مرکز تھا‘ کتنے ہی نوجوانوں کی خواہش ہوتی کہ وہ فلموں میں اداکاری کریں۔ اس کے لیے وہ فلم سٹوڈیوز کے چکر لگاتے رہتے۔ ونود نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اداکار بنے گا لیکن ایک دن وہ سنیل دَت کی نظر میں آگیا۔ سنیل دت نے ونود کھنہ کو اپنی فلم ''من کا میت‘‘ میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فلم کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ سنیل دت نے یہ فلم اپنے سے چھوٹے بھائی سوم دت کو فلمی دنیا میں متعارف کرانے کے لیے بنائی تھی۔ کیسی عجیب بات ہے‘ سوم دت‘ جس کے لیے سنیل دت نے فلم بنائی تھی‘ فلم بینوں کو متاثر نہ کر سکا۔ لیکن ونود کھنہ کے لیے یہ فلم اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس فلم میں اس کا کردار منفی تھا لیکن اس کی اداکاری نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ یوں پہلی ہی فلم نے اس کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیے۔ ''من کا میت‘‘ میں منفی کردار سے اداکاری کا آغاز کرنے کے بعد ونود نے اپنے کیریئر کے آغاز میں اسی طرح کے منفی کردار ادا کیے۔ اگلی فلم ''میرے اپنے‘‘ تھی‘ یہ بطور ہدایت کار گلزار کی پہلی فلم تھی۔ اس میں بھی ونود کا کردار ایک ناراض شخص کا تھا۔ اسی طرح ''میرا گا ؤں میرا دیش‘‘ میں ونود نے ایک ڈاکو کا کردار ادا کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان منفی کرداروں میں بھی لوگوں نے اسے پسند کیا۔ اس کی بنیادی وجہ ونود کی اداکاری تھی جس نے ان کرداروں میں جان ڈال دی تھی۔ 70ء کی دہائی میں اسے فلموں میں مثبت کردار ملنا شروع ہو گئے۔ یہ ونود کھنہ کے فن کا کمال تھا کہ وہ مختلف کرداروں میں خوبصورتی سے ڈھل جاتا۔ ولن کا کردار ہوتا تو اس کے لہجے میں در شتگی ہوتی اور ہیرو کا کردار ہوتا تو اس کے لہجے میں محبت‘ نرمی اور حلاوت آجاتی۔
1971ء ونود کھنہ کی زندگی کا اہم سال تھا جب 25 برس کی عمر میں اس کی شادی گیتانجلی سے ہوئی۔ اس شادی سے اس کے دو بیٹے راحل اور اکشے پیدا ہوئے۔70 اور 80 کی دہائی نے ونود کھنہ کا فنی عروج دیکھا۔ اسی زمانے میں ونود کی کامیاب ترین فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ہاتھ کی صفائی‘ میں تلسی تیرے آنگن کی‘ ہیرا پھیری‘ خون پسینہ‘ امر، اکبر اور انتھونی‘ قربانی اور مقدر کا سکندر شامل ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب اس کی مقبولیت عروج پر تھی اور وہ امیتابھ بچن کے ہم پلہ اداکار بن چکا تھا۔اب دولت‘ عزت اور شہرت اس کے گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی لیکن اس کے اندر کسی چیز کی کمی تھی۔ فلموں کی چکا چوند میں سکون کی دولت نہیں تھی۔ تب اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے اس کے چاہنے والوں کو چونکا دیا۔ ایک روز اس نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ فلمی دنیا سے ریٹائر ہو رہا ہے۔ فلمی دنیا میں اس طرح کی مثال شاذو نادر ہی کسی فنکار کی ہو گی جس نے اپنے فن کی بلندیوں پر فلمی دنیا کو چھوڑنے کا اعلان کیا ہو۔ ونود کھنہ نے سٹوڈیو کی روشنیوں سے دور امریکہ کے شہر اوریگن (Oregan) میں راجنیش اوشو کے آشرم میں گیان کا سفر شروع کیا۔ فلمی کیریئر کے عروج پر فلمی دنیا چھوڑنے اور اوشو کے آشرم میں رہنے کے اس اچانک فیصلے کا اثر اس کی ازدواجی زندگی پر بھی پڑا۔ ونود کھنہ اور گیتانجلی کے درمیان اختلاف کی خلیج وسیع ہونے لگی جس کا خاتمہ ان کی شادی کے اختتام پر ہوا۔ گیان کی تلاش کا یہ سفر پانچ برسوں پر محیط تھا۔ 1987ء میں اس نے ایک بار پھر فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ پانچ برس کے عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ طویل غیر حاضری کے بعد اس نے ''انصاف‘‘ فلم سے اپنے فلمی سفر کا دوبارہ آغاز کیا اور اگلی دو دہائیوں تک دوبارہ فلمی دنیا کا محور بنا رہا۔ اس دوران اس نے بہت سی فلموں میں کام کیا جن میں چاندنی‘ دبنگ‘ دبنگ 2 اور کرانتی شامل ہیں۔ آشرم میں پانچ سال گزارنے اور فلمی دنیا میں ایک بار پھر سے قدم جمانے کے بعد ونود نے 1990ء میں کو یتا سے شادی کر لی۔ اس شادی سے اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ کویتا اور ونود کا یہ ساتھ آخر دم تک رہا۔ ونود کھنہ کی شخصیت کا ایک اور رُخ سیاست سے گہری وابستگی تھا۔ سیاست کے لیے اس نے بی جے پی کا انتخاب کیا اور گورداسپور کے حلقے سے چار مرتبہ لوک سبھا کا ممبر بنا۔ اس دوران وہ 2002ء میں کلچر اور ٹورازم اور پھر منسٹری آف فارن افیئرز میں وزیر رہا۔
ونود کھنہ کی کارکردگی کے اعتراف میں اسے کئی ایوارڈز ملے۔ ان میں فلم فیئر ایوارڈ‘ فلم فیئر اچیومنٹ ایوارڈ اور سٹار ڈسٹ ایوارڈ شامل ہیں۔ اس کی موت کے بعد 2017ء میں اسے اس کی خدمات کے عوض دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ لیکن اس کا سب سے بڑا اعزاز اس کے شیدائیوں کی بے پناہ محبت تھی۔ اس کے چاہنے والے اس سے دیوانہ وار محبت کرتے تھے۔
اب ونود زندگی کے سفر کے آخری سنگِ میل پر پہنچ چکا تھا۔ وہ گزرے ہوئے ماہ وسال پر نظر ڈالتا تو اسے بے طرح اپنے مہربان والد کشن چند کی یاد آتی جنہیں اپنے آبائی شہر پشاور سے عشق تھا اور جو آخر دم تک اسے پشاور کے گلی کوچوں کی کہانیاں سناتے رہے۔ وہی پشاور جس کے بازاروں‘ قہوہ خانوں اور فضاؤں میں محبت اور پیار کی خوشبو تھی‘ وہی شہرِ دل ربا جو اس کی زندگی کے سفر کا پہلا سنگِ میل تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved