مسابقتی نظریات سے تشکیل پانے والی دنیا میں ایک بحث اکثر جذبات کو بھڑکاتی ہے‘ وہ یہ کہ کیا ریاست کو کارپوریشنز کا مالک ہونا چاہیے اور ان کا انتظام خود سنبھالنا چاہیے؟ اس بحث میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ نجکاری‘ مسابقت اور انفرادی انٹرپرائز جدت‘ کارکردگی اور خوشحالی کا باعث بنتی ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ضروری خدمات اور صنعتیں ریاست کے ہاتھ میں رہیں تاکہ انصاف تک رسائی اور عوامی بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ ریاستی ملکیت پر یہ نظریاتی تقسیم محض علمی نہیں ہے‘ اس کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بحث آج کل پاکستان میں پی آئی اے کی نجکاری یا نیم نجکاری کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے بے شمار سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مفادات کھل کر بیان کر چکے ہیں۔ نجکاری کے فوائد و نقصانات پر طویل مباحثے بھی ہو چکے ہیں۔ اس موضوع کو لے کر جو بحث ہو رہی ہے‘ اس ضمن میں سارے بنیادی دلائل بھی دیے جا چکے ہیں جن میں نصابی کتابوں میں درج نفع و نقصانات بھی شامل ہیں لیکن اس کے باوجود پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ہے کہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔
ایک چھوٹے سے خوبصورت ملک کا تصور کریں جہاں صاف پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں‘ کھیت زرخیز ہوں اور لوگ تنگ دستی کا شکار نہ ہوں۔ صدیوں سے ملک کی اہم صنعتیں پانی‘ توانائی اور نقل و حمل کا نظام رہی ہیں اور یہ کہ ان کا نظام ریاست کے پاس ہو۔ وہ وسائل‘ جو شہریوں کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں‘ سب کے لیے قابلِ رسائی ہوں‘ غریب ترین شہریوں کے لیے ان کی قیمتیں خاص طور پر کم ہوں۔ حکومت نے طویل عرصے سے اس خیال کو فروغ دیا کہ ریاستی ملکیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر کسی کو بنیادی ضروریات تک مساوی رسائی حاصل ہو گی‘ عوام کو منافع کے اصول پر چلنے والی کارپوریشنوں کے استحصال سے بچانے کا ٹھوس بندوبست ہو گا۔تاہم حالیہ برسوں میں ایک نیا نظریہ سامنے آیا ہے جس نے ریاستی ملکیت کی بنیادوں کو چیلنج کیا ہے۔ اس میں نیو لبرل ازم سے لے کر جدید سرمایہ داری نظام کے کچھ بنیادی تصورات شامل ہیں۔ ریاستی اداروں کی نجکاری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ریاست ان اداروں کو خوش اسلوبی سے چلانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نجی کارپوریشنیں ان اداروں کو زیادہ بہتر طریقے سے چلا سکتی ہیں جو خدمات کو بہتر بنانے‘ لاگت کو کم کرنے اور اختراعات کرنے کے لیے مسابقت سے چلتی ہیں۔ ان کے لیے ریاست ماضی کی کوئی یادگار ہے جو تیز رفتار ٹیکنالوجی سے چلنے والی دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ شہریوں کو انتخاب کا حق ہونا چاہیے‘ انہیں خدمات پر سرکاری اجارہ داری تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
یہ بحث اُس وقت شدت اختیار کر لیتی ہے جب ایک امیر اور بااثر کاروباری شخص آگے بڑھتا ہے اور قومی وسائل جن میں پانی‘ بجلی وغیرہ شامل ہیں‘ خریدنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ وہ ایک یوٹوپیائی ویژن پیش کرتا ہے: ہر گھر کے لیے نئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا خودکار نظام۔ حکومت سرمایے کی فوری فراہمی کے وعدے پر آمادگی ظاہر کر کے اس تجویز پر غور کرتی ہے۔ حکومت کے کچھ ارکان اس خیال سے متاثر ہوتے ہیں کہ نجی کمپنیاں ان صنعتوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے چلا سکتی ہیں جس سے ریاست کے مالی بوجھ کو کم کرنے کے اضافی فوائد حاصل ہوں گے۔تاہم اس تبدیلی کی مخالفت کی نظریاتی اور عملی وجوہات ہیں۔ نجکاری کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ضروری خدمات مثلاً پانی‘ توانائی اور نقل و حمل کے ذرائع کو نجی شعبے کے سپرد نہیں کرنا چاہیے۔ یہ زندگی کے لیے ضروری ہیں اور ان کو نجی کارپوریشنوں کے منافع پر مبنی مقاصد سے باہر رہنا چاہیے۔ جب منافع بنیادی مقصد بن جاتا ہے تو یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ کمپنیاں عوامی بھلائی پر شیئر ہولڈرز کو ترجیح دیں گی۔چنانچہ صاف پانی یا سستی توانائی تک رسائی کسی کی ادائیگی کی صلاحیت پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔ مزید برآں ریاست اپنی تمام خامیوں کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ منتخب عہدیداروں کو ووٹ دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے اگر وہ عام آدمی کی خدمت کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور عوامی اثاثوں کا انتظام طویل مدتی پائیداری کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف نجی کارپوریشنز صرف اپنے مالکان اور شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہیں جو اکثر قلیل مدتی سوچ رکھتے ہیں اور لاگت میں کمی کے اقدامات کو ترجیح دیتے ہیں‘ جو سروس کے معیار کو گرا دیتے ہیں۔ اس صورت میں عوام اپنے تحفظات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا نجکاری واقعی دعوے کے مطابق بہتری کا باعث بنے گی یا یہ بہت سے لوگوں کی قیمت پر صرف چند لوگوں کو مالا مال کرے گی۔ یہ خدشہ ہے کہ پرائیویٹ کارپوریشن ایک بار پانی کی افادیت پر قابو پانے کے بعد اس کی قیمت بڑھا سکتی ہے‘ کم منافع بخش دیہی علاقوں میں خدمات میں کٹوتی کر سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ منافع کے نام پر بہتر نگہداشت کو نظر انداز کر سکتی ہے۔ اس طرح صاف پانی تک رسائی امیروں کے لیے عیش و عشرت کا سامان بن سکتی ہے جبکہ غریبوں کے لیے ایک مہنگی شے بن کر رہ جائے گی۔
لوگ کہتے ہیں کہ کچھ چیزیں فروخت کے لیے نہیں ہونی چاہئیں۔ پانی سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو فروخت کرنے والی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک بنیادی حق ہے۔ اسی طرح توانائی‘ صحت کی سہولتیں اور عوامی نقل و حمل کے ذرائع ایسی خدمات ہیں جو معاشرے میں مساوات کو برقرار رکھتے ہیں اور ان کی نجکاری سے جو عدم مساوات پروان چڑھے گی اس کے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک بار فروخت ہونے کے بعد عوام کا ان اثاثوں پر کنٹرول ختم ہو جائے گا اور منافع کی دوڑان لوگوں کے درمیان جو اعلیٰ معیار کی خدمات حاصل کرنے کی مالی استطاعت رکھتے ہیں اور جو یہ سکت نہیں رکھتے‘ ایک وسیع خلیج پیدا کر سکتی ہے۔
یہ بحث بالآخر معاشرتی اقدار پر آ کر ختم ہوتی ہے کہ کیا معاشرے کو انفرادی مسابقت اور منافع کو اجتماعی فلاح پر ترجیح دینی چاہیے؟ کیا بازار کا غیر مرئی ہاتھ واقعی اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ تمام شہریوں کو ضروریاتِ زندگی تک رسائی حاصل ہو‘ یا کیا ریاست کا یہ اخلاقی فرض نہیں ہے کہ وہ ان وسائل کی حفاظت ہر کسی کیلئے کرے‘ نہ کہ صرف دولت مندوں کیلئے؟ان مباحث سے نجکاری کو نظریاتی بنیادوں پر عدم مساوات‘ وسائل تک رسائی اور عوامی بھلائی کی عملی حقیقتوں کے ساتھ تولنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
ریاستی اثاثوں کی نجکاری کو مسترد کرنے سے یہ پیغام واضح ہو جاتا ہے کہ کچھ چیزیں بہت اہم ہیں جنہیں مارکیٹ کی قوتوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ خیال کہ عوامی اشیا کو عوام کے ہاتھ میں رہنا چاہیے‘ جدت یا کارکردگی کا رد نہیں ہے‘ یہ مساوات کا دفاع ہے اور یہ ایک یقینی امر ہے کہ معاشرے کی انتہائی ضروری خدمات تک بہت سے لوگوں کی رسائی ہونی چاہیے‘ چند لوگوں کی نہیں۔ یہ بہت سے لوگ کون ہیں؟ جو کسی نہ کسی طریقے سے ریاستی اور قومی ملکیت میں اپنے حصے کے دعویدار ہیں‘ جو سٹیک ہو لڈرز ہیں اور اپنے مفادات سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے میں اس طرح کے سوالات کا جواب جمہوری عمل سے ہی دیا جا سکتا ہے جو نجکاری کے سوال کا جواب بھی فراہم کرتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved