تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     06-11-2024

اختلاطِ مردو زن

حافظ عبدالرحمن المعلمی ایک سلجھے ہوئے عالم دین ہیں‘ جو گوجرانوالہ کی ایک جامع مسجد میں خطابت وتدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ علم اور تحقیق کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کوپیش کرنے کیلئے مختلف موضوعات پر وہ معیاری کتب تحریر کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک تقریب کے دوران انہوں نے مجھے اپنے ادارے میں آنے کی دعوت دی۔ ادارے کا نظم ونسق ہر اعتبار سے مثالی تھا اور وہاں پر نمازیوں اور طلبہ کیلئے کیا جانے والا انتظام دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی بعض کتب بھی بطور تحفہ مجھے پیش کیں‘ جن میں سے ایک کتاب 'اختلاطِ مرد وزن‘ تھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جہاں اس موضوع کے حوالے سے مفید معلومات حاصل ہوئیں‘ وہیں مولانا کی علمیت اور ان کا ذوق بھی ابھر کے سامنے آیا۔ 175صفحات کے لگ بھگ اس کتاب میں اختلاط کے معنی اور مفہوم کو بیان کرنے کے بعد اسکی حرمت کے دلائل کو جمع کیا گیا ہے۔ آج اس کتاب کے حوالے سے چند اہم گزارشات کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
اسلام شرم وحیا کا مذہب ہے اور اس میں جبلی انسانی تقاضوں کو پورا کرنے کا واحد ذریعہ نکاح کو قرار دیا گیا ہے اور زنا کے تمام راستوں کو مسدود کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل میں حکم دیاکہ ''زنا کے قریب بھی نہ جائو‘‘۔ زنا کے اسباب میں جہاں اپنی نگاہوں کی حفاظت نہ کرنا‘ بالغ ہونے کے بعد بلاوجہ نکاح میں تاخیر کرنا اور حدود و تعزیراتِ اسلامیہ کا کسی معاشرے میں قائم نہ ہونا شامل ہیں‘ وہیں اختلاطِ مرد وزن بھی بدکرداری کی ایک بڑی وجہ ہے۔
حافظ عبدالرحمن المعلمی نے سب سے قبل اختلاط کی چار صورتوں کو بیان کیا ہے جن میں سب سے پہلی صورت محرم رشتہ داروں کے ساتھ ملاقات ہے جس کے حلال ہونے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ دوسری صورت برائی کی غرض سے مرد وزن کا ملنا ہے‘ جس کی حرمت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ تیسری صورت وہ ہے جس میں عور ت اور مرد اہم ضرورت یا مجبوری کے تحت ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں‘ جیسے راہ چلتے کسی عورت کا کسی مرد سے راستہ پوچھنا یا خاتون طبیب کی عدم موجودگی میں کسی مرد طبیب سے علاج معالجہ کی غرض سے ملاقات کرنا۔ اختلاط کی یہ صورت بھی اسلام میں ممنوع نہیں ہے۔ اختلاط کی وہ صورت جس کے حوالے سے مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ وہ لمبے عرصے تک مسلسل ملاقاتیں کرنا‘ مخلوط ماحول میں تعلیم حاصل اور کام کرنا ہے۔ ایسی صورتوں کا دفاع کرنے والے لوگ بنیادی طور پر اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ یہ اختلاط برائی کی غرض سے نہیں لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے اختلاط کے نتائج بسا اوقات انتہائی مہلک نکلتے ہیں۔ اس حوالے سے معاشرے میں دو طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے کہ جو اس طرح کے اختلاط کو وقت کی ضرورت یا سماج کی ترقی سے تعبیر کرتا ہے جبکہ اہلِ مذ ہب اس پر شدید قسم کے تحفظات کا اظہار کرتے اور اس کو اسلام کے تصورِ حیا اور حجاب سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اس طرح کے اختلاط کے حوالے سے مختلف قسم کے شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
شبہ پیدا کرنے والوں کا ایک استدلال ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد وزن کو مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب مرد وزن نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کیلئے آتے تھے تو ان کے داخلے کے لیے الگ الگ دروازے قائم تھے جن کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ اختلاط کے امکانات باقی نہ رہیں۔ مردوں کو ہمیشہ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی تلقین کی گئی جبکہ خواتین کیلئے آخری صفوں کو بہترین قرار دیا گیا۔ مساجد میں نماز ادا کرنا مرد کیلئے انتہائی فضیلت کی بات ہے لیکن خواتین کی نماز کیلئے گھروں کو بہترین جگہ قرار دیا گیا۔ مساجد‘ جو اللہ کا گھر ہیں‘ کے مقابلے میں خواتین کی نمازوں کو گھروں میں افضل قرار دے کر اس بات کو واضح کیا گیا کہ اختلاطِ مرد وزن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نبی کریمﷺ صحابہ کرام کیلئے اکثر علمی مجالس کا اہتمام فرماتے لیکن عورتوں کیلئے باضابطہ طور پر ایسی مجالس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ بعض اوقات خواتین نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں مسائل کے پوچھنے کیلئے حاضر ہوتیں مگر ایسے مواقع پر ہمیشہ پردے میں ہوتیں‘ نبی کریمﷺ ان کو مسئلہ بتاتے تو وہیں سے وہ تشریف لے جایا کرتی تھیں۔ بسا اوقات حساس اور پردے والے مسائل کے بارے میں امہات المومنین ان کو آگاہ فرماتی تھیں۔ نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات‘ جو مومنوں کیلئے ان کی ماں کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بھی صحابہ کرام کے سامنے آنے کے بجائے پردے کی اوٹ سے کلام کیا کرتی تھیں اور ان کو قرآنِ مجید میں اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ نرم آواز میں کسی سے بات نہ کریں‘ تاکہ اگر کسی کے دل میں مرض ہے تو وہ ان کی آواز کو سن کے دل میں کوئی امید نہ رکھے۔ اسلام میں مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے جو احکامات ہیں‘ ان پر جدید دور کے لوگوں نے بہت سے اعتراضات اٹھائے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ جب بھی مرد وزن کے اختلاط کو قبول کیا گیا‘ اس کے نتائج مثبت برآمد نہیں ہوئے اور نتیجتاً معاشرے کے اندر صنفی بدامنی اور برائیوں کا آغاز ہو گیا۔
اس حوالے سے ایک شبہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ عورتیں رسول اللہﷺ سے علیحدگی میں بھی سوال پوچھنے کا تقاضا کرتی تھیں۔ مگر اس عمل کا مقصد بھی خلوت اختیار کرنا نہیں تھا بلکہ معاملہ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوا کرتا تھا اور نبی کریمﷺ اگر تھوڑا فاصلہ اختیار کرتے تو اس کا مطلب خلوت اختیار کرنا نہیں بلکہ کسی کے راز یا سوال کو پوشیدہ رکھنا مقصود ہوتا تھا۔ اس حوالے سے اس بات کو ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ نبی کریمﷺ نے تنہا مرد اور عورت کو خلوت اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ان کے درمیان تیسرا شخص شیطان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ بعض لوگ کئی ایسے واقعات بھی بیان کرتے ہیں کہ جن کا تعلق حجاب کی فرضیت سے قبل کے واقعات سے ہے‘ ایسے واقعات سے اختلاطِ مرد وزن کے جواز کی بات کرنا کسی صورت درست نہیں۔ اختلاط سے بچنے کے احکامات کا بنیادی مقصد عورت کی عزت ووقار اور اس کی عظمت کا تحفظ ہے۔ اس حوالے سے پائے جانے والے اشکالات درحقیقت ان لوگوں کی طرف سے ہیں جو عورت کی عزت‘ حیا اور حجاب کو برقرار رکھنے کے حوالے سے منفی سوچ رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ معاشرے میں حجاب اور حیا کو عام کر دیا گیا تو ان کی عیاشی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی۔
حافظ عبدالرحمن المعلمی نے اپنی کتاب میں بڑے خوبصورت دلائل جمع کیے اور سابقہ قوموں سے حضرت شعیبؑ کی بیٹیوں کا واقعہ جبکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے گھرآنے کی دعوت دینے کیلئے آئیں‘ کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ اور عزیز مصر کی بیوی کے واقعے کو بھی بیان کیا اور ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ شریعت اسلامیہ کے ہوتے سابقہ امتوں کے واقعات ہمارے لیے حجت نہیں بن سکتے۔ ہمارے لیے حجت محض کتاب وسنت ہے۔ جبکہ مذکورہ واقعات سے بھی یہی نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو بہر طور حیا اور حجاب کا اہتما م کرنا چاہیے۔ حجاب کے نہ ہونے ہی کی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی فتنے کا شکار ہوئی اور حضرت شعیب ؑ کی بیٹیوں کا واقعہ درحقیقت ان کی مجبوری کا عکاس ہے کہ ان کے گھر میں کوئی مرد موجود نہ تھا۔ کتاب میں جن دلائل کو جمع کیا گیا ہے‘ یقینا وہ قابلِ قدر اور پڑھنے کے لائق ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے انسان کے دل میں پردے اور حیا کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حیا اور پردے کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved