تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-11-2024

امریکی الیکشن‘ ہماری امیدیں اور میرا تعصب

امریکہ کا صدارتی الیکشن مکمل ہو چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ امریکی صدر گروور کلیولینڈ کے بعد دوسرے شخص ہیں جو درمیان میں ایک ٹرم الیکشن ہارنے کے بعد تیسرا الیکشن جیت کر دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ میں امریکی سیاست کے بارے میں امریکہ میں رہنے والے اپنے تمام دوستوں میں شفیق کی رائے اور تجزیے کو سب سے زیادہ وزن دیتا ہوں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ شفیق امریکی سیاست‘ اس کے اسرار ورموز اور حرکیات کے بارے میں مسلسل پڑھنے‘ سننے اور جائزہ لینے میں مصروف رہتا ہے اور اس کا بغور تجزیہ بھی کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ یہ تجزیہ کرتے ہوئے سو فیصد غیر جانبداری سے کام لیتا ہے۔ وہ دونوں امریکی سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کیلئے بھی نہ تو دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتا ہے اور نہ ہی اپنی خواہش کو اس تجزیے کا حصہ بناتا ہے۔ وہ حسابی کتابی انداز میں کاغذ سامنے رکھ کر باقاعدہ دو جمع دو چار کی مانند امریکی صدارتی الیکشن کے پیچیدہ الیکٹورل کالج کے نظام اور ریاستوں کے متوقع نتائج کو سامنے رکھ کر بیلنس شیٹ بناتا ہے اور اپنے اخذ کردہ نتائج سے اس عاجز کو مستفید کرتا ہے۔ لیکن اس بار تو ڈونلڈ ٹرمپ نے شفیق کے تمام اندازوں کا دھڑن تختہ کر دیا۔
میں نے پرسوں ملتان سے لاہور جاتے ہوئے دورانِ سفر اس سے پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن کے متعلق تازہ ترین اور آخری رائے معلوم کی تو اسے پہلی بار حتمی رائے دینے میں متامل پایا۔ اس کے خیال میں معاملہ تین چار عدد Swing States پر آن پھنسا ہے۔ اس کے تجزیے کے مطابق‘ معاملہ صرف مشی گن‘ نیواڈا‘ ایریزونا اور پنسلوینیا میں اٹکا ہوا ہے۔ پچاس امریکی ریاستوں کے متوقع انتخابی نتائج کی بنیاد پر اس نے جو نقشہ بنایا اس کے مطابق الیکٹورل کالج کے کل 538ووٹوں میں سے کملا ہیرس اگر پنسلوینیا میں جیت گئی تو اسے ڈونلڈ ٹرمپ پر دو تین ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ اس نے سوِنگ سٹیٹس کے نتائج بھی اس تجزیے میں شامل کر دیے ہیں جس کے مطابق اس نے نیواڈا اور ایریزونا کو ریپبلکن کے کھاتے میں ڈالا ہے جبکہ پنسلوینیا کے بارے میں وہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اگر ٹرمپ پنسلوینیا میں جیت گیا تو پھر اس کے ووٹ کملا ہیرس سے بڑھ جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
شفیق کا کہنا تھا: اس الیکشن کے نتائج سے قطع نظر ایک اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دو امریکی صدارتی الیکشنز سے ایک نہایت ہی منفی پیشرفت سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی طرح اب بہت سے امریکیوں کے نزدیک بھی امریکی صدارتی انتخابات کی شفافیت ختم ہو چکی ہے اس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا کردار پہلے کی نسبت بہت بڑھ چکا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس صدارتی الیکشن میں کملا ہیرس کو بطور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار لانا مقصود تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ نامزدگی کے پرائمری الیکشنز میں ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی اور توثیق ممکن نہ تھی۔ اگر صدر جو بائیڈن پرائمری الیکشنز سے پہلے ہی دستبردار ہو جاتے تو مشل اوباما اور کیلیفورنیا کے گورنر گے ون نیوسم سمیت کئی دیگر مضبوط امیدوار سامنے آ سکتے تھے اس لیے انہوں نے یہ طے کرنے کے باوجود کہ جوبائیڈن اب ان کا اگلا صدارتی امیدوار نہیں ہو گا‘ پرائمری الیکشنز میں جوبائیڈن کو صدارتی امیدوار نامزد کروا دیا۔ جب پرائمری الیکشن کا وقت گزر گیا اور نئی نامزدگی ممکن نہ رہی تو انہوں نے جوبائیڈن کو دستبردار کرایا اور کملا ہیرس کو نائب صدر ہونے کی بنیاد پر جوبائیڈن کے جانشین کی حیثیت سے امریکی صدارتی امیدوار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یوکرین کی جنگ اور غزہ کی صورتحال کو جاری رکھنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں آنے سے روکنا نہایت ضروری تھا‘ لہٰذا انہوں نے یہ سارا بندوبست کیا۔ شفیق کہنے لگا: ممکن ہے آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ ہماری مقتدرہ کی طرح اپنے ذاتی اور قلیل المدتی فوائد کے بجائے عالمی امریکی تسلط کو دیرپا اور طویل المدتی بنیادوں پر قائم رکھنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے اور وہ اسی تناظر میں سارا ڈرامہ سٹیج کرتی ہے۔ تاہم امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ تہہ خاک ہو گیا۔ شفیق مجھ سے کہنے لگا: ایک اور نہایت غلط روایت جو گزشتہ دو الیکشن سے دکھائی دے رہی ہے وہ یہ کہ ووٹر اپنے امیدوار کو ووٹ اس کی محبت میں نہیں بلکہ دوسرے امیدوار کی نفرت میں دے رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی سیاسی اختلاف اب ذاتی مخاصمت میں بدل رہا ہے۔ اب امریکی سوسائٹی بھی ایک مستقل تقسیم کی طرف گامزن ہے جو نہایت تشویشناک ہے۔ نئی سیاسی تقسیم نے Redneck گورے کو نسلی اور گروہی تعصب کا شکار بنا دیا ہے۔
تقریباً ڈھائی ماہ قبل میں امریکی شہر ہیوسٹن گیا تو ہمارے دوست طاہر جاوید‘ جو امریکی سیاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سرگرم رکن کے طور پر کافی متحرک ہیں‘ نے مجھے صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی ملنے کی خوشی میں چند قریبی دوستوں کے ہمراہ‘ جن میں ہمارے دیرینہ دوست غضنفر ہاشمی بھی تھے‘ کھانے پر مل بیٹھنے کا اہتمام کیا۔ پُرجوش اور سرگرم ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود طاہر جاوید اس امریکی صدارتی الیکشن کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہنے سے گریزاں تھے۔ ہاں! البتہ جب میں نے اس سے پاکستان میں تحریک انصاف کے لوگوں کی جانب سے ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں عمران خان کی رہائی کیلئے بحیثیت امریکی صدر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے سے متعلق سوال کیا تو طاہر جاوید مسکرا پڑا۔میں نے مسکرانے کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگا کہ اگر امریکہ میں پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے تعلقات ریپبلکن پارٹی اور ٹرمپ کی نسبت موجودہ ڈیموکریٹک حکمران پارٹی سے زیادہ بہتر اور خوشگوار ہیں (جس کی تائید ساٹھ ڈیموکریٹک ارکانِ کانگریس کا جوبائیڈن انتظامیہ کو لکھا جانے والا حالیہ خط ہے) مگر اس سارے عرصے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی قدم تو رہا ایک طرف‘ عمران خان کے دورِ حکومت میں کوششوں کے باوجود انہیں فون تک کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ میں کسی بدگمانی کا اظہار نہیں کر رہا‘ صرف اپنے بہترین علم کی بنیاد پر ایک تجزیہ پیش کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ خواہ ٹرمپ جیت کر امریکہ کا صدر بن جائے یا کملا ہیرس اس عہدے پر متمکن ہو جائیں‘ میرا خیال ہے کہ عمران خان کی رہائی کا مسئلہ دونوں میں سے کسی بھی امریکی صدر کی پہلی سو ترجیحات میں بھی نہیں ہو گا۔
امریکہ کی غلامی سے انکار کے دعویداروں نے اپنی ساری امیدیں اب امریکہ بہادر سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ بندہ پوچھے بھلا امریکہ کا کون سا ایسا کام ہے جو ہماری موجودہ حکومت نے پھنسا رکھا ہے اور جسے نکلوانے کے لیے امریکہ کو عمران خان کی ضرورت آن پڑی ہے۔ امریکہ کے سب کام نہایت فرمانبرداری سے تکمیل پذیر ہو رہے ہیں تو امریکہ کو خان کی فکر میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ رہ گئے ہم لوگ‘ تو ہمارا حال وہی رہے گا۔ خواہ کملا آئے یا ٹرمپ‘ ہمارے مصیبت کے دن ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
کسی نے گھوڑے کو بتایا کہ چوروں نے آج رات اسے کھول کر لے جانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ گھوڑے نے ہنس کر کہا کہ اس میں مجھے فکرمند ہونے کی کیا ضروت ہے؟ میں یہاں بھی ریڑھا کھینچتا ہوں اور چارہ کھاتا ہوں‘ چوروں کے ہاں بھی ریڑھا کھینچوں گا اور چارہ کھاؤں گا۔ میں اس مالک کے کھونٹے سے بندھا رہوں یا مجھے چور کھول کر لے جائیں‘ میری بلا سے۔
حالانکہ گھوڑے کی طرح مجھے بھی امریکی الیکشن کے نتیجے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میری ذاتی خواہش یہی تھی کہ ٹرمپ جیت جائے اور اس خواہش کے پیچھے صرف میرا ایک تعصب تھا اور کچھ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved