تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-11-2024

ٹرمپ‘ جمہوریت اور پاپولزم

ٹرمپ کی کامیابی‘ کیا جمہوریت پر پاپولزم کی فتح ہے؟
ٹرمپ‘ یہ کہا جا تا ہے کہ سیاست میں جمہوریت کے نہیں‘ پاپولزم کے نمائندے ہیں۔ جمہوریت ایک طرزِ سیاست ہے جس کا ایک جُز عوام کا بالواسطہ حقِ حکمرانی ہے۔ یعنی یہ بات عوام کے ووٹوں سے طے ہو گی کہ کس کو حکومت کرنی ہے۔ جمہوریت اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اس کے آداب ہیں جس میں رائے عامہ کو شترِ بے مہار نہیں سمجھا جاتا۔ اپویشن اور اقلیتوں کے حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے باب میں کسی امتیاز کو روا نہیں رکھا جاتا۔
پاپولزم ایک لہر ہے۔ اس کے آداب ہوتے ہیں نہ ضوابط۔ ایک فردِ واحد یا گروہ کی رائے اور منشا ہی ادب بھی ہے اور ضابطہ بھی۔ سسٹم اگر مضبوط ہو تو وہ اس لہر کو تھام لیتا ہے۔ کمزور ہو تو خس و خاشاک کی طرح بکھر جاتا ہے۔ 2016ء میں یہ لہر پہلی دفعہ اُٹھی تو امریکہ کے نظام نے اس کو تھام لیا۔ اداروں کی مضبوطی نے اس سیلابِ بلا کو زیادہ اندر تک گھسنے نہیں دیا۔ چند دیواریں ہی گریں کہ ٹرمپ کی صدارت کا دورانیہ تمام ہو گیا۔ کل مکمل نتیجہ آیا نہیں تھا کہ امریکیوں کو اس نظام کی 'دیواروں ‘ کی فکر ہونے لگی۔ پارلیمان کی عمارت کے باہر باڑ لگانے کا کام شروع ہو گیا۔
یہ اُس تلخ تجربے کا نتیجہ ہے جو امریکہ کو گزشتہ انتخابات میں ہوا‘ جب ٹرمپ ہار گئے۔ پارلیمان پر حملہ ہوا۔ امریکہ میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی نے سوچا نہ تھا۔ گمان تھا کہ اس بار بھی اگر انتخابی نتائج حسبِ منشا نہ ہوئے تو ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے ویسا ہی ردِ عمل سامنے آ سکتا ہے۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر انتخابی نتائج کے اعلان سے پہلے ہی حفاظت کا بندوبست کر لیا گیا۔ جیسے ہمارے ہاں ایسے امکان سے پہلے کنٹینر رکھ دیے جاتے ہیں۔ نتائج نے مگر باڑ کی ضرورت ختم کر دی۔
پاپولزم کو پندرہ‘ سولہ برس سے یورپ اور امریکہ میں جمہوریت کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کا آغاز برطانیہ میں بریگزٹ کے دنوں میں عوامی ردِ عمل سے ہوا۔ اس کے بعد ہی سے تجزیے ہو رہے ہیں کہ یہ لہر کیا جمہوریت کے لیے ایک برا شگون ہے؟ ''فارن افیئرز‘‘ کے تازہ شمار ے میں سیاسیات کے پرفیسر لیری بالٹرز کا مضمون 'پاپولزم کا واہمہ‘ (Phantom of Populism ) شائع ہوا ہے۔ ان کا خیال دوسروں سے مختلف ہے۔
ان کا تجزیہ یہ ہے کہ یہ اصلاً مغربی معاشروں میں آنے والی ایک سماجی تبدیلی کا اظہار ہے جس کا تعلق کلچر اور تہذیب سے ہے۔ 2016ء میں ٹرمپ کی کامیابی معاشی اضطراب کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ اس کلچرل خوف کا ظہور تھا جو دوسرے معاشروں سے امریکہ میں آنے والے لوگوں کی بدولت امریکی سماج کو لاحق ہے۔ یورپ کو بھی یہی خوف ہے۔ اس خوف کو سیاستدانوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ یہ جمہوریت پر عدم اطمینان کا اظہار نہیں ہے جس نے پاپولزم کی صورت میں ظہور کیا ہے۔ پروفیسر بالٹر اس نقطۂ نظر کے حامی ہیں کہ واقعات اور عوامی رائے عامہ کا تعلق ایسا سریع اور تیز رفتار نہیں ہوتا۔ یہ سیاستدان ہیں جو واقعات کی سیاسی صورت گری کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاپولزم سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ ٹرمپ کی مقبولیت کو پاپولزم کا مظہر بھی نہیں سمجھتے۔
مجھے اس بات سے ایک حد تک اتفاق ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جمہوری عمل کس طرح آگے بڑھتا ہے۔ اس کی ذمہ داری اہلِ سیاست کی ہے۔ جس سماج میں جمہوری اقدار مستحکم نہ ہوں وہا ں اس بات کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ کوئی آئے اور عوامی اضطراب کے گھوڑے پر سوار ہو کر سماج کو کسی بحران میں مبتلا کر دے۔ جہاں جمہوریت بطور سماجی قدر مضبوط ہوتی ہے‘ وہاں نظام میں یہ جان ہوتی ہے کہ وہ ایسے گھڑ سوار کی لگام تھام لے۔
امریکی معاشرے میں مسائل ہیں اور وہ بڑھ رہے ہیں۔ شناخت کا بحران بھی روز افزوں ہے۔ اس معاشرے نے ایک عالمی قوت کا بوجھ بھی اٹھایا ہوا ہے۔ امریکہ ایک ایسی ریاست نہیں ہے جو ایک جغرافیے میں قید آبادی کی فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔ وہ عالمی سیاست کی باگ بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اسے جنگیں چھیڑنی ہیں اور صلح بھی کرانی ہے۔ اس نے دنیا کی دوسری اقوام کی حمایت بھی حاصل کرنی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان جنگوں کا بالواسطہ فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے۔ وہ ایک وار مشین ہے۔ دنیا میں ہر جنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اسلحے کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ یوں ہر جنگ کا معاشی مستفید امریکہ ہوتا ہے یا اس کے اتحادی۔ اسی آمدن سے امریکہ اپنے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اگر یہ جنگیں ختم ہو جائیں تو اس کا ایک بڑا ذریعہ آمدن ختم ہو جائے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی راہنما عوامی سطح پر نہیں کہہ سکتا۔ وہ اگر عراق پر حملہ آور ہو گا تو یہی بتائے گا کہ یہ جنگ تباہ کن ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے ہے۔ تاہم خود امریکی انتظامیہ کو تو معلوم ہے کہ اس جنگ کا اصل محرک کیا ہے۔ اگرکوئی امریکی صدر دیانت داری سے جنگ کے خاتمے کی بات کرتا ہے تو اسے اپنی انتظامیہ کو بتانا پڑے گا کہ ایک عام امریکی کے معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اگر آپ ساتھ ہی ٹیکس کم کرنے کی بات کریں گے تو آمدن کے دو ذرائع متاثر ہوں گے: اسلحہ سازی اور ٹیکس۔ اب آپ کے پاس متبادل کیا ہے۔ ٹرمپ صاحب اس کا ایک متبادل غیرملکیوں کا انخلا سمجھتے ہیں۔ یہ انہیں امریکی معاشرے کی بربادی کا ایک ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ امریکہ کے دو جماعتی نظام کا حصہ ہیں۔ وہ اگرچہ غیرروایتی سیاستدان ہیں لیکن وہ اسی روایتی سیاست ہی سے سامنے آئے ہیں۔ انہیں تیسری قوت قرار دینا مشکل ہے۔ پاپولر سیاستدان عام طور پر 'تیسری قوت‘ کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں جو مبینہ دوجماعتی آمریت کے خلاف صدائے احتجاج ہیں۔ ٹرمپ کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہی نہیں‘ امریکہ کے روایتی سرمایہ دار اُن کے ساتھ ہیں جن میں سر فہرست ایلون مسک ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کی جیت پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے۔ انتخابی مہم میں انہوں نے 132 ملین ڈالر عطیہ کیے۔ اس طرح کے شواہد کی بنیاد پر پروفیسر بالٹر کے خیال میں وہ 'پاپولزم‘ کے نمائندہ نہیں ہیں۔
اس تجزیے سے قطع نظر ٹرمپ کی جیت بہر حال امریکی جمہوری نظام کی کمزوریوں کا اعلان ہے۔ اگر اہلِ سیاست نے جمہوریت کو اس کی روح کے ساتھ قبول نہیں کیا تو جمہوری نظام میں وہ دراڑیں پیدا ہو جائیں گی جن سے ٹرمپ جیسے لوگ اندر آ سکتے ہیں جن کی جمہوری اقدار سے وابستگی زیادہ قابلِ بھروسہ نہیں اور جو کسی نظام کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔
ان کی جیت کا ایک اور پہلو پوسٹ ماڈرنسٹ زاویۂ نظر ہے۔ ٹرمپ نے معلوم ہوتا ہے کہ موجود سٹرکچر توڑ دیے ہیں۔ وہ اگرچہ ایک سسٹم سے نمودار ہوئے لیکن سسٹم کے اصولوں کے برخلاف۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔ اگلے چار سال میں یہ معلوم ہو جائے گا کہ سیاسی عمل کو آگے بڑھانے میں صدر ٹرمپ موجود سٹرکچر کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ کیا وہ اس کا حصہ بنتے ہیں یا پوسٹ ماڈرنسٹ بنتے ہیں۔ کیا وہ جنگیں ختم کریں گے یا ان کے خاتمے کے لیے کوئی جنگ چھیڑیں گے؟
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved