تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     07-11-2024

ڈونلڈ ٹرمپ پھر آ گئے!

ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی کی کملا ہیرس کو شکست دے کر امریکہ کے 47ویں صدر بن گئے ہیں۔ ایک امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 277 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ کملا ہیرس اب تک 226الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔ صدارتی انتخاب میں جیت کے لیے 538میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار تھے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔ دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد اپنی وکٹری سپیچ میں اپنے ووٹرز اور حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابی مہم اور اس کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی ملکی تاریخ کی عظیم ترین سیاسی تحریک تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے‘ ہم امریکہ کے زخموں پر مرہم رکھیں گے‘ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے‘ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھوں گا جب تک آپ لوگوں کے خواب پورے نہ کروں۔ ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء سے 2020ء تک امریکہ کے صدر رہے اور سب کو یاد ہو گا کہ وہ دور خاصا ہنگامہ خیز تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ بیانات اور اقدامات پوری دنیا میں موضوعِ بحث بنے رہے تھے۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہی ہنگامہ خیز اور جارحانہ بیانات والا دور واپس لوٹ آیا ہے؟ حال ہی میں ان کی صدارتی مہم کے دوران ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے جو کامیاب نہیں ہو سکے۔
ٹرمپ امریکی تاریخ کے تیسرے صدر ہیں جن کا مواخذہ کیا گیا‘ ان پر طاقت کے غلط استعمال‘ کانگریس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور حامیوں کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات لگے لیکن وہ لگائے گئے الزامات سے بری ہو گئے تھے۔ ان سے پہلے امریکی صدر اینڈریو جانسن کا 1868ء میں اور ولیم جیفرسن کلنٹن کا 1998ء میں مواخذہ کیا گیا تھا۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے فوج کے لیے مختص فنڈز کو امریکہ اور میکسیکو کے مابین سرحد پر بلند دیوار تعمیر کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ میکسیکو سے تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کو روکا جا سکے۔ انہوں نے غیرقانونی تارکینِ وطن کے لیے خاندانی علیحدگی کی متنازع پالیسی نافذ کی تھی۔ (یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے اپنائی گئی زیرو ٹالرنس پالیسی کے نتیجے میں سرحد پار کرنے والے بچوں اور والدین کو حراست میں لے کر ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا تھا)۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک (شام‘ عراق‘ ایران‘ لیبیا‘ سوڈان‘ صومالیہ اور یمن) سے لوگوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی جس کا ٹرمپ کے تئیں مقصد انتہا پسندی کے امریکہ در آنے کو روکنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس ماحولیاتی معاہدے (The Paris Agreement) اور ایرانی جوہری معاہدے (Iran Nuclear Deal) سے علیحدہ کر لیا تھا جس کے بعد دنیا بھر میں ٹرمپ اور امریکہ پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے ان کے اسرائیل حامی ہونے کا تاثر ابھرا تھا۔ انہوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں چین کے ساتھ تجارتی جنگ چھیڑے رکھی تھی اور اس تجارتی مخاصمت کے تحت متعدد چینی اشیا کی درآمد پر ڈیوٹی میں کئی بار اضافہ کیا تھا۔ کورونا کی وبا ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہی شروع ہوئی تھی اور ٹرمپ نے اس وبا کے حوالے سے بھی غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کیا تھا۔ انہوں نے کورونا وبا کے خلاف غیرسائنسی اقدامات کو فروغ دیا جس کی وجہ سے امریکہ میں اس وبا کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو خاصا تبدیل کر دیا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا‘ وہاں سے اربوں ڈالر کے معاہدے حاصل کیے اور بعد ازاں سعودی قیادت کو ہی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو کم و بیش دو سال تک ایک اور تنازع کا بھی سامنا رہا جس میں ایک خصوصی وکیل 2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ کی مہم میں روس کے مبینہ کردار کی چھان بین کرتا رہا۔ اس سلسلے میں 34 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی جس میں کمپیوٹر ہیکنگ سے لے کر مالیاتی جرائم تک جیسے الزامات شامل تھے لیکن تحقیقات سے پتا چلا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان معاملات میں شریک نہیں تھے۔ تفتیش میں کسی قسم کا مجرمانہ اشتراک بھی ثابت نہیں ہوا تھا۔ حال ہی میں جب یہ سننے میں آیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن ہارنے کی صورت میں اس کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے تو مجھے 2020ء کاصدارتی الیکشن یاد آ گیا‘ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ دھاندلی کے الزامات بھی لگائے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے 2020ء کا الیکشن ہارنے پر اپنے حامیوں کوکیپٹل ہل کے باہر جمع ہونے کا کہا تھا اور اس جتھے نے کیپٹل ہل پر ہلہ بول دیا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری بار جیت کے بعد کا‘ یعنی آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس نئے دورِ حکومت میں اپنی پرانی پالیسیاں جاری رکھیں گے؟ اور جو رویہ انہوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں اپنائے رکھا‘ اب برداشت کیا جائے گا؟ میرے خیال میں اب ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا‘ اور اس خیال کے پس منظر میں کئی دلائل ہو سکتے ہیں‘ جیسے 2016ء تا 2020ء ڈونلڈ ٹرمپ کو حکمرانی کا تجربہ نہ تھا‘ وہ سیاسی آداب اور سفارتی و بین الاقوامی آداب (Norms) سے بھی پوری طرح واقف اور آگاہ نہ تھے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں زمینی حقائق کا بھی پوری طرح ادراک نہ تھا۔ اس بار بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا رجحان پرو اسرائیل ہی ہو جیسا کہ سبھی امریکی صدور کا ہوتا ہے‘ اور وہ غیر ملکی تارکینِ وطن کے بارے میں بھی سخت رویہ اختیار کریں لیکن وہ ماضی جیسے بے تُکے بیانات دینے سے یقینا گریز کریں گے۔ پہلے دور میں ان کی جانب سے بے تکے بیانات دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اکثر اعلانات اور بیانات کے لیے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کا سہارا لیتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ اکثر غیر ملکی سربراہانِ حکومت و مملکت سے کھلے عام جھگڑتے رہتے تھے۔ اگرچہ سوشل میڈیا کا اوزار اب بھی ان کے ہاتھ میں ہو گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وہ ایسے اوزاروں کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے کئی مسائل موجود ہیں‘ ایک عالمی طاقت کے سربراہ کے طور پر انہیں کئی امور پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پڑے گی‘ جیسے فلسطین کی جنگ‘ امریکہ ایران تعلقات‘ امریکہ چین معاملات‘ یوکرین روس جنگ‘ ڈولتی ہوئی بین الاقوامی معیشت‘ مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والے تغیرات‘ چین‘ روس‘ ایران اور کچھ دوسرے ممالک کے تعاون پر مبنی ایک نیا ابھرتا ہوا اقتصادی بلاک‘ افغانستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور افغان سرزمین سے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان میں دہشت گردانہ حملے‘ شدید موسمیاتی تبدیلیاں اور امریکہ پاکستان و امریکہ بھارت تعلقات۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال کر معاملات کو بہتری کی جانب لانے میں کامیاب ہوں گے یا ان کے اگلے چار سال بھی اسی طرح گزر جائیں گے جیسے ان کا پچھلا دورِ حکومت گزرا تھا؟ ان سوالات کا جواب ہمیں آنے والا وقت ہی دے گا۔ ان کی وکٹری سپیچ کو سامنے رکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ باقی دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے اس بار ان کی پالیسیاں اور اقدامات امریکہ کو اپنا محور و مرکز بنائیں گے یعنی ان کی پالیسیاں America Centric ہوں گی۔ البتہ ایک بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی جیت کے ساتھ بہرحال دنیا میں ایک نئے کھیل کا آغاز ہونے والا ہے‘ ایک نئے دور کی ابتدا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved