تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     07-11-2024

دانش کی موت …(اوّل)

یہاں دانش سے کوئی شخص مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی ہیں: ''فہم وفراست‘ سوجھ بوجھ‘ بصیرت‘ دور اندیشی‘ عقل مندی‘ حکمت پر مبنی فیصلے اور اقدامات‘ الغرض اسی کو دانش مندی کہتے ہیں‘‘۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے حکمران اس نعمت سے محروم ہیں۔ اس لیے ان کے منصوبے اور اقدامات ناقص حکمتِ عملی‘ جلد بازی اور عاقبت نااندیشی کے آئینہ دار ہوتے ہیں‘ اس کی تازہ مثال آئینی ترامیم ہیں۔ وفاقی حکومت نے شروع میں اسے مخفی رکھنے کی پالیسی اختیار کیے رکھی‘ جبکہ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے خود ہی اسے اِفشا بھی کر دیا۔ لہٰذا نہ اِخفا سے کام چلا اور نہ اِفشا کام آیا اور دونوں صورتیں نقصان دہ ثابت ہوئیں۔ آج کل کی سیاسی اصطلاح میں اسے ''بیک فائر‘‘ یعنی اپنی ہی چلائی ہوئی گولی کی زد میں آنا کہا جا سکتا ہے۔ پھر وزیراعظم شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘ ڈپٹی وزیراعظم‘ وزیر قانون اور دیگر عمائدینِ حکومت کو طویل مشقت سے گزرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کا آستانہ سیاست کا مرکز بنا رہا اور بڑی مشکل سے یہ ہمالیہ سر ہوا۔ الغرض حکومت کا حال منیر نیازی کے اس شعر جیسا تھا:اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو؍میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔
ہمارے حکمران عام طور پر کوتاہ بیں اور عاقبت نااندیش ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کی پالیسیاں اور اقدامات وقتی مفاد کے تابع ہوتے ہیں۔ کسی خاص شخص یا گروہ کو ہدف بنانا یا وقتی فائدہ اٹھانا مقصود ہوتا ہے‘ اس لیے وہ بھی بیک فائر ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً: سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار محمد چودھری‘ ثاقب نثار‘ آصف سعیدکھوسہ اور عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت ازخود نوٹس لینے اور مختلف مقدمات کیلئے بینچ بنانے کے اختیار کو اس بیدردی سے استعمال کیا کہ سپریم کورٹ کا توازن درہم برہم ہو گیا‘ کیونکہ اس وقت تک یہ اختیار چیف جسٹس کی ذات میں مرکوز تھا۔ حتیٰ کہ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ صاحبان سادہ کاغذ پر گمنام درخواستوں کو بھی پٹیشن میں تبدیل کرتے رہے اور دربار سجائے رکھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے موقع پر ایسا ہی ہوا کیونکہ عالمِ غیب سے انہیں اشارہ دیا گیا تھا کہ اس مہم میں رکاوٹ نہ ڈالیں‘ آپ کو بھی توسیع مل جائے گی۔ پھر جب انہیں توسیع نہ ملی تو انہوں نے اسے تماشا گاہِ عالم بنانے کی ٹھانی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اُس وقت کی حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کی بے بسی سامنے آئی۔
بعدکو پی ڈی ایم کی حکومت نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ''سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ بنایا اور یہ اختیار چیف جسٹس کی ذات سے نکال کر تین سینئر ترین ججوں پرمشتمل کمیٹی کو دے دیا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ایک احسن اقدام تھا اور ہم نے اس کی تحسین بھی کی تھی‘ کیونکہ اجتماعی یا اکثری دانش انفرادی دانش سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔ لیکن بعد کو ہوا یہ کہ چیف جسٹس اقلیت میں رہ گئے اور دوسرے دو جج صاحبان ہم خیال بن گئے اور ان کا جھکائو حکومت مخالف ہوگیا‘ حکومت کاحال عربی کے اس محاورے کا مصداق بن گیا کہ بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا۔
بعد کوحکومت نے ''سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ میں ایک بار پھر ترمیم کی اور سہ رکنی کمیٹی میں چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کیساتھ تیسرے رکن کا تقرر چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑ دیا تاکہ چیف جسٹس بے بس نہ ہوں۔ پی ٹی آئی اور اسکے ہم خیال جج صاحبان پہلے اس ترمیم کے مخالف تھے اور بینچ بنانے کے اختیار کو چیف جسٹس کی ذات ہی میں مرکوز رکھنا چاہتے تھے‘ جبکہ سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ اس سے متفق تھے۔ مگر پھر کمیٹی کی ساخت میں مجوزہ نئی ترمیم نے اسے پی ٹی آئی اور اسکے ہم خیال ججوں کیلئے ناپسندیدہ اور حکومت کیلئے ایک بار پھر پسندیدہ بنا دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسے چلایا‘ مگر نئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے قانون میں کسی تبدیلی کے بغیر دو سینئر ترین ججوں کو اپنی کمیٹی میں شامل کر کے کمیٹی کو اپنی سابقہ حیثیت پر بحال کر دیا اور معنوی اعتبار سے یہ تبدیلی حکومت کیلئے بے اثر ہو گئی۔کوتاہ بینی اور عاقبت نااندیشی پر مبنی اقدامات کا نتیجہ ہمیشہ ایسا ہی نکلتا ہے‘ کیونکہ انسانوں کے فیصلے وقتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں اور جب زمینی حقیقتیں بدل جاتی ہیں تو ان کے فیصلے بیک فائر ثابت ہوتے ہیں۔ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور چیف جسٹس کے ساتھ سینئر ترین جج کے علاوہ آئینی بنچ کے سربراہ جج کو رکن بنا دیا گیا‘ اب پھر ایک طرح سے توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم وزیراعظم تھے اور اس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی معتوب تھی‘ اس کو غیر قانونی قرار دینے کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس خاص صورتحال کیلئے قانون بنایا کہ غیر ملکی وکیل جب تک پاکستان بار کونسل میں رجسٹرڈ ہو کر چھ ماہ تک پریکٹس نہ کرے‘ وہ سپریم کورٹ میں دائر کسی مقدمے میں کسی فریق کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اُس وقت اُن کا ہدف یہ تھا کہ کوئی برطانوی بیرسٹر آکر عوامی نیشنل پارٹی کی وکالت نہ کر سکے‘ ورنہ عالمی سطح پر رسوائی ہو گی۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہواکہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا‘ اُس مقدمے میں برطانیہ کے ایک وکیل مبصر کے طور پر تو آکر بیٹھے‘ لیکن مقدمے میں حصہ نہ لے سکے‘ الغرض یہ اُن کیلئے ''بیک فائر‘‘ ثابت ہوا۔ اسی طرح بھٹو مرحوم ہی کے دور میں آئی ایس آئی میں سیاستدانوں کو قابو میں رکھنے کیلئے سپیشل سیل بنایا گیا تھا‘ اس سے مقتدرہ کو سیاست میں نفوذ مل گیا۔ آج تمام سیاستدان مل کر بھی چاہیں تو مقتدرہ کو اپنے اصل فرضِ منصبی تک آنے میں بڑا وقت چاہیے۔ وہ سیاستدانوں کی کمزوریوں سے بھی آگاہ ہوتے ہیں‘ سب کی فائلیں بھی ہمہ وقت تیار رہتی ہیں‘ نیز ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کا نسخۂ کیمیا بھی اُن کے ہاتھ آ گیا ہے‘ اُن کا نام بھی اشارات وکنایات ہی میں لیا جا سکتا ہے۔ 2011ء سے جو تجربہ شروع کیا گیا تھا‘ 2018ء اُس کی معراج تھی‘ اس میں مقتدرہ اور عدلیہ ایک صفحے پر تھے‘ اس لیے منتخب وزیراعظم کو بھی بیک بینی ودوگوش گھر بھیجنا‘ چند سیکنڈ کا کام تھا‘ اب اس تعلق میں دراڑ پڑ گئی ہے‘ ہو سکتا ہے: کوئی ایسی ایلفی ایجاد ہو جائے کہ دوبارہ دونوں یکجان ہو جائیں۔
اب چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی اور آرٹیکل 184/3 کے مقدمات کی سماعت کیلئے ایک علیحدہ مستقل پانچ رکنی آئینی بنچ قائم کر دیا گیا ہے اور 13 ارکان پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کی بھی تشکیلِ نَو کر دی گئی ہے۔ اس تبدیلی کی حکمت یہ ہے کہ حکومت بے بس نہ ہو جائے اور اعلیٰ عدلیہ کے مہم جو جج صاحبان پورے نظام کیلئے خطرہ نہ بن جائیں‘ کیونکہ حکومت کو ایسے خطرات کی ہوائیں چلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ اس آئینی بینچ میں شامل جج صاحبان سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں سے پانچ کے مقابلے میں سات کی اکثریت سے لے لیے گئے ہیں اور جسٹس امین الدین خان کو اس آئینی بنچ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی موجودہ ساخت میں توازن حکومت کے حق میں آ گیا ہے اور مقتدرہ وحکومت نے کسی حد تک اطمینان کا سانس لیا ہے کہ ان کے خیال میں اب نظام کو پٹڑی سے اتارا نہیں جائے گا‘ نظامِ حکومت میں ٹھیرائو آئے گا اور معیشت چل پڑے گی۔ اب پی ٹی آئی نے بھی نئے تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن میں حصہ لے کرعملاً اسے قبول کر لیا ہے‘ حالانکہ چھبیسویں ترمیم کے تحت چیف جسٹس کا انتخاب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے کے باوجود اُس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا‘ الغرض سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ لیکن اگر کل پی ٹی آئی کی حکومت آ جائے تو اُس کو اُس وقت یہ سب چیزیں قبول‘ بلکہ پسندیدہ ہوں گی۔ کسی نے کہا ہے:بس ایک بات پر اسے میں نے کیا پسند؍پھر اس کو ناپسند اسی بات پر کیا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved