ڈینش مسلمان عبدالرحمن کا تذکرہ چل رہا تھا ۔ یہ ایک طویل داستان ہے جس کے تفصیلی بیان کا اس وقت موقع نہیں۔ مختصر یہ کہ اسے اس کے ادارے نے اپنی ملازمت سے نکال دیا۔ اب اس کا مطالبہ تھا کہ اسے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی مل جائے اور اس کے پاسپورٹ میں اس کے مطابق نام کی تبدیلی بھی ہو جائے۔ یہ کام بھی الحمدللہ چیف قاضی صاحب کی مدد سے بحسن وخوبی ہو گیا۔ عبدالرحمن نے اس کے بعد عمرہ کیا اور واپس آیا تو ہم سے الوداعی ملاقات کرنا چاہی۔ ہم نے اسے پیشکش کی کہ وہ کچھ عرصہ ہمارے ساتھ کام کرے۔ ہم وہ معاوضہ تو نہیں دے سکیں گے جو اسے اس کے مشن سے مل رہا تھا‘ تاہم دو وقت کی روٹی کا انتظام بخوبی ہو جائے گا۔
اللہ کے اس مخلص بندے نے ہماری پیشکش خوش دلی سے قبول کی اور پھر اس نے ہمارے ساتھ دو‘ ڈھائی سال کام کیا ۔ اس دوران اس نے اسلامی تعلیمات بھی حاصل کیں اور پھر ہم سے اجازت لے کر واپس اپنے وطن چلا گیا۔ ماشاء اللہ مکمل داڑھی کے ساتھ اس کی شخصیت بہت خوبصورت اور بارعب نظر آتی۔ ڈنمارک جانے کے بعد ایک یا دو بار عبدالرحمن پاکستان بھی آئے تھے۔ ان کی اہلیہ پاکستانی خاتون ہیں‘ جو لالہ موسیٰ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ اس جوڑے کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔ بہرحال عبدالرحمن کی بڑی خوش نصیبی ہے کہ کفر سے اسلام کی طرف اسے رہنمائی مل گئی اور وہ ایک مثالی مسلمان بننے میں کامیاب ہو گیا۔ اللہ پیدائشی مسلمانوں کو بھی اخلاصِ نیت اور اعمالِ صالحہ کی ایسی ہی دولت سے سرفراز فرمائے۔
اسیولو کے علاقے میں رائو محمد اختر مرحوم‘ راقم الحروف اور دیگر ساتھیوں کی کاوش سے اسلامک فائونڈیشن کو حکومت کی طرف سے ایک غیر آباد زرعی زمین الاٹ کی گئی‘ جو میری معلومات کے مطابق‘ 625 ایکڑ پر مشتمل تھی۔ تاہم حافظ وصی محمد خاں‘ جو اس فارم پر خدمات سرانجام دیتے رہے‘ کہتے ہیں کہ یہ 640 ایکڑ تھے۔ اسے آباد کرنے کی کوشش کی گئی مگر بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے زیادہ کامیابی نہ مل سکی۔ اس فارم پر حافظ وصی محمد خاں‘ ڈاکٹر شفیق بٹ مرحوم‘ میاں محمد الیاس مرحوم اور عبدالغنی صاحبان مختلف ادوار میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اب بھی یہ زمین اسلامک فائونڈیشن کے پاس ہے۔ تازہ ترین صورتحال کا پتا نہیں‘ تاہم ایک زمانے میں یہاں ڈیری فارم کے لیے بڑی تعداد میں دودھ دینے والی گائیں رکھی گئی تھیں جن سے اخراجات نکالنے کے بعد معقول ماہانہ انکم آ جاتی تھی۔
دوسرا بڑا سنٹر گربہ تُلّہ (Garba Tulla)میں تھا۔ اس شہر کا فاصلہ نیروبی سے 355 کلومیٹر ہے۔ یہ بھی اسیولو کی جانب ہی واقع ہے۔ یہاں بچیوں کا بہت بڑا ادارہ تھا جس میں تعلیم‘ رہائش اور بچیوں کو مختلف ہنر سکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس شہر میں عیسائیوں کا بھی بہت بڑا ادارہ تھا جس میں یتیم اور غریب مسلم بچیوں کو داخل کیا جاتا اور پھر ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ کر لیا جاتا۔ اس ادارے میں مولانا مودودیؒ کی کتاب ''رسالہ دینیات‘‘ کا سواحلی ترجمہ کسی بچی کے ہاتھ آیا تو اس نے چھپ چھپا کر اس کا مطالعہ کیا۔ پھر یہ کتاب اپنی ایک اور سہیلی کو پڑھنے کے لیے دی۔ یوں بہت سی مسلم بچیوں نے اس کتاب کو پڑھا اور آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کر لیا کہ ہمیں عیسائیت کا انکار کر کے اپنے دینِ حق پر واپسی کا اعلان کر دینا چاہیے۔
وہاں کے حالات میں یہ کام آسان نہیں تھا مگر باہمی مشاورت سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ پاسنگ آئوٹ تقریب کے موقع پر وہ کسی نہ کسی طرح یہ اعلان کریں گی۔ چنانچہ اس روز وہ اپنے بستروں میں لیٹی رہیں اور چرچ میں سرمن سننے کے لیے نہیں گئیں۔ جب انتظامیہ نے ان کے ہاسٹل میں آ کر وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ چرچ میں ہمارا کیا کام‘ ہم عیسائی نہیں مسلم ہیں۔ ایک لڑکی نے ہمت کر کے کہا: میرا نام حلیمہ ہے‘ جسے تم لوگوں نے تبدیل کر کے 'میری‘ بنا دیا۔ دوسری نے کہا: میرا نام مریم ہے جسے تم نے مارگریٹ میں بدل دیا۔ تیسری نے کہا: میرا نام خدیجہ ہے جسے تم نے الزبتھ کر دیا۔
اسی طرح بیس پچیس بچیوں نے یکے بعد دیگرے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں اور انہیں سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ مقامی آبادی میں اس واقعے سے خاصی ہلچل پیدا ہوئی۔ پھر یہ مسئلہ مسلم ممبر پارلیمان حاجی خولے خولے نے اسمبلی میں اٹھایا اور ان بچیوں کو ان کے سرٹیفکیٹ دلوائے۔ حاجی خولے خولے مرسابت (Marsabit) سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کینیا میں چونکہ ایک ہی سیاسی پارٹی تھی‘ اس لیے وہ بھی اس پارٹی کے رکن تھے۔ ان سے میری ذاتی دوستی تھی۔ ایک بار ہم نے اکٹھے حج بھی کیا تھا۔ گربہ تلّہ میں اس واقعہ کے بعد اسلامک فائونڈیشن کے سنٹر میں بہت سی بچیاں داخل ہوئیں۔
مچاکوس (Machakos) نیروبی سے 61 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب ضلعی صدر مقام ہے۔ یہاں اسلامک فائونڈیشن کا ایک دینی تعلیمی ادارہ بہت اچھی عمارت کے ساتھ شہر کے مرکز میں قائم کیا گیا تھا۔ اس میں ہاسٹل بھی تھا اور طلبہ کے لیے تعلیم کے علاوہ کھیل کود کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سکول کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔ یہ سکول بھی اسلامک فائونڈیشن نے قائم کیا تھا‘ مگر بعد میں ایک ایم او یو کے ذریعے وزارتِ تعلیم‘ حکومت کینیا کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ سکول کی عمارت کی ملکیت تو فائونڈیشن کی ہو گی تاہم اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات حکومت ادا کرے گی۔ حکومت طلبہ سے حسب ضوابط وقواعد فیس وصول کر سکے گی تاہم مچاکوس اسلامک سنٹر کے طلبہ کو مفت تعلیم دی جائے گی۔ یہ ہائی سکول ہے جو اب تک حکومت کے زیر اہتمام چل رہا ہے۔ اسلامی مرکز بوجوہ بند کر دیا گیا ہے۔ اب نئے سرے سے اسے بحال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
کسائونی (Kisauni) نیروبی سے 485 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف واقع ایک خوبصورت چھوٹا سا شہر ہے۔ کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ممباسا‘ جو بہت بڑی بندرگاہ اور سیاحت کا مرکز ہے‘ نیروبی سے 482 کلومیٹر دور ہے اور کسائونی ممباسا سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اب تو کسائونی کی آبادی ممباسا شہر سے تقریباً مل گئی ہے۔ یہاں پر ایک بڑا قیمتی اور وسیع قطعہ زمین ایک میمن تاجر حاجی قادر دینہ مرحوم نے وقف کیا تھا جس پر ایک بہت بڑا ادارہ قائم کیا گیا۔ اس میں اعلیٰ دینی تعلیم اور عصری تعلیم کے ساتھ بہترین ہاسٹل بھی تعمیر کیا گیا۔ درمیان میں مالی مشکلات کی وجہ سے اس ادارے کا کام بھی خاصا متاثر ہو گیا تھا‘ اب الحمدللہ نئے سرے سے یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ فائونڈیشن کے ساتھ کام کرنے والے محمد اسلم کافی پرانے ساتھی ہیں‘ اس ادارے میں مسلسل کئی سالوں سے وہ کام کر رہے ہیں۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ اب نئے سرے سے مشکلات کے باوجود کام آگے بڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے مشکلات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔
نیری (Nyeri) نیروبی اور اسیولو کے درمیان کینیا کا ایک ضلعی صدر مقام ہے۔ اس کا فاصلہ نیروبی سے شمال مغرب کی طرف 143 کلومیٹر ہے۔ اس مقام پر میرے کینیا جانے کے بعد ایک بڑی مسجد اور تعلیمی ادارہ تعمیر کیا گیا۔ اس تعلیمی ادارے میں پاکستان سے جماعت اسلامی کے رکن اور مانسہرہ کے عالم دین قاری محمد جمیل کی ذمہ داری لگائی گئی۔ کچھ عرصہ یہ ادارہ اچھی طرح چلتا رہا‘ پھر معاشی حالات میں بحران پیدا ہوا تو میرے کینیا سے واپس آنے کے چند سال بعد ادارہ بند کرنا پڑا۔ اس وقت مسجد تو آباد ہے مگر تعلیمی ادارہ چالو نہیں ہو سکا۔ اللہ کرے حالات بہتر ہوں تو یہ ادارہ بھی فعال ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved