''بزرگوارم علامہ صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
یکے از پسرانِ اقبال آپ سے مخاطب ہے۔ اس جہاںِ رنگ و بُو سے رخصتی کے بعد یہ دوسرا خط ہے جو آپ کی خدمت میں ارسال کیا جا رہا ہے۔ پہلا خط آپ کے حقیقی فرزند جاوید اقبال مرحوم نے لکھا تھا۔ مجھے یقین ہے یہ خط ملنے پر آپ اُسی طرح خوش ہوں گے جس طرح آپ جاوید بھائی کے خط سے ہوئے ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں میں حقیقی اور روحانی کا فرق نہیں کرتے۔ آپ نے اپنے کلام میں جہاں جاوید کا نام لیا ہے‘ اس سے آپ کی مراد تمام غنچہ ہائے شاخسارِمصطفی ہیں۔ 'جاوید نامہ‘ میں تو آپ نے خود ہی کوئی ابہام نہیں رہنے دیا‘ جب جاوید سے خطاب کوآپ نے 'سخنے بہ نژادِ نو‘ قرار دیا۔
آپ نے جاوید بھائی کو کیا جواب دیا اور ان کے اشکالات کو کیسے دور کیا‘ مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔ آپ خط کا جواب پابندی سے دیتے ہیں۔ اس لیے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کو خط ملا ہو اور آپ نے جواب نہ دیا ہو۔ ممکن ہے جاوید بھائی ہمیں بتا نہ سکے ہوں۔ خیر اَب تو وہ آپ کے پاس ہیں۔ میرا گمان یہی ہے کہ آپ کے ساتھ بہشت میں قریب ہی کہیں مقیم ہوں گے جہاں کی خوشگوار ہوائیں شب و روز آپ کو معطر رکھتی ہوں گی۔ ان کو تو یہ سہولت میسر ہے کہ جب انہیں اشکال محسوس ہو‘ آپ سے پوچھ لیں۔ مسئلہ تو ہمارا ہے‘ جن کا آپ سے کوئی ربط نہیں رہا۔
آپ کو حیرت ہوئی ہو گی کہ آپ کی شاعری اور دیگر علمی کام کے ہوتے ہوئے میں نے کیسے کہہ دیا کہ آپ سے ہمارا کوئی ربط نہیں۔ بات تو رسوائی کی ہے لیکن آپ سے کیا پردہ۔ یہ سچ ہے کہ آپ کے کلام تک ہماری رسائی نہیں رہی۔ میری نسل اُردو سے کچھ نہ کچھ واقف ہے لیکن فارسی سے مکمل نابلد ہے۔ میرے بعد کی نسل کو فارسی تو کیا‘ اُردو بھی نہیں آتی۔ آپ کے کلام اور نئی نسل کے درمیان زبان سے ناآ شنائی حجاب بن گئی ہے۔ رہی انگریزی تو نئی نسل کو آپ کے اسلوبِ تحریر سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ آپ کے فکر و فلسفہ سے۔ وہ آپ کی زبان سمجھ سکتی ہے اور نہ آپ کا فلسفہ۔
بات چل نکلی ہے تو میں آپ کو یہ بتانے سے باز نہیں رہ سکتا کہ سوشل میڈیا پر آپ سے ایسے ایسے اشعار منسوب کیے جاتے ہیں کہ آپ سنیں تو خود کشی پر آمادہ ہو جائیں۔ مجھ جیسا نیم خواندہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ کوئی آپ کے اسلوب اور مقام سے اتنا بے خبر کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے پست اشعار آپ سے منسوب کر دے۔ جس پاکستان میں نئی نسل کا یہ حال ہے‘ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ پاکستان نہیں ہو سکتا جس کا خواب آپ نے دیکھا تھا۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ تمہید طویل ہو گئی اور اصل مقصد‘ جس کے لیے میں یہ خط لکھ رہا ہوں‘ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آمدم برسرِ مطلب میں بھی کچھ ایسی فکری اُلجھنوں کا شکار ہوں جن میں بھائی جاوید مبتلا تھے۔ وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے آپ کے سامنے جو سوالات رکھے تھے‘ وہ میرے ذہن کے دروازے پر بھی دستک دیتے ہیں۔ میں بھی قومی ریاست اور اسلامی ریاست کے فرق کو پوری طرح گرفت میں نہیں لے سکا۔ آپ کے بعد آنے والے مفکرین نے آپ کی بات کو آگے بڑھانے کی سعی کی مگر سچ یہ ہے کہ الجھنیں مزید بڑھ گئیں۔ جب پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں میں فرق کرتے ہوئے آپ کے کلام سے استشہاد کیا جاتا ہے تو سوالیہ نشانات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر مسلم تاریخ کو آپ جس زاویے سے دیکھتے ہیں‘ اس کو قبول کرنے میں بھی تامل ہوتا ہے۔ آپ ہوتے تو میں بلا تکلف آپ سے پوچھ لیتا۔ اب میں کس سے سوال کروں؟
شارحینِ اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ اس عہد میں ان کا سراغ نہیں ملتا‘ اِلاّا ماشاء اللہ۔ ان کی بہترین نسل دنیا سے اُٹھ گئی۔ ابھی ایک برس نہیں ہوا کہ ہم نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو لحد میں اتارا ہے۔ ان شارحین کا کام بلاشبہ وقیع ہے مگر آپ کے علمی کام کی وسعت متقاضی ہے کہ اس بحر کی مزید غواصی کی جائے۔ اللہ کا شکر ہے پروفیسر فتح محمد ملک کی شفقت میسر ہے اور میں اپنے سوالات ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ وہ آپ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ میں ان کی محبت و عقیدت کو دیکھتا ہوں تو بہت سے سوالات نوکِ زبان تک آتے ہیں‘ لبوں تک نہیں پہنچتے۔ میں ان کو سی لیتا ہوں۔ ان کی ناراضی سے ڈر جاتا ہوں۔
جو باتیں ہونٹوں تک آ کر رک جاتی ہیں‘ ان میں سرفہرست تصوف کے باب میں آپ کے خیالات ہیں۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ وجودی تصوف اسلام کی سر زمین پر اجنبی پودا ہے‘ دوسری طرف مولانا روم آپ کے پیر ہیں جو وحدت الوجود پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہیں اور ساتھ ہی روایتی تصوف پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ آپ نے خطبات میں مذہبی تجربے اور پیغمبرانہ تجربے کی بات کی۔ پیغمبر اور صوفی کے فرق کو بھی موضوع بنایا۔ خواجہ معین الدین چشتی کی آپ کے ہاں تشریف آوری کا ایک واقعہ علی بخش نے مرزا منور صاحب کو سنایا۔ آپ سے منسوب ایسے واقعات کی تفہیم بھی ایک مسئلہ ہے۔ میں ان سب باتوں میں تطبیق پیدا کرنا چاہتا ہوں مگر ناکام رہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے اس کا سبب میری کوتاہ نگاہی ہے۔ اس کا علاج مگر آپ کی نظر ہی سے ہو سکتا ہے۔ 'خبر‘ کے عنوان سے جو کچھ میسر ہے اس سے میرا اطمینان نہیں ہوتا۔ اسی طرح آپ کا تصورِ مہدی و مسیح موعود بھی بہت پیچیدہ ہے۔ آپ اس باب میں روایتی نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ آپ کسی ایسی آمد کے قائل نہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
ایک مسئلہ اجتہاد کا بھی ہے۔ اس بحث کو آپ نے جس شان کے ساتھ اٹھایا ہے‘ اس کی کوئی مثال معاصر دینی ادب میں موجود نہیں۔ یہ آپ جیسے ذی علم ہی کو زیبا تھا کہ وہ اس پر کلام کرے۔ اسی ضمن میں آپ شرعی سزاؤں میں تغیر و تبدل کا سوال بھی اٹھاتے ہیں‘ تاہم آپ اس بحث کو کسی نتیجے تک نہیں پہنچاتے۔ آپ کے علمی مقام سے آشنا اور اس کے معترف ڈاکٹر محمد خالد مسعود نے اس کا جو سبب بیان کیا ہے‘ اس نے مجھے چونکا دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''علامہ اقبال اور ان کے فکری ہم سفروں نے جو سوالات اٹھائے تھے اور اسلامی قانون کو جمود سے نکال کر حرکت اور ترقی کی طرف لے جانے کا جو عزم کیا تھا‘ اس کا تقاضا یہی تھا کہ وہ اس عمل کو جرأت کے ساتھ آگے بھی جاری رکھتے۔ لیکن مذہبی طبقوں کی مخالفت کے اندیشے سے اور چند افراد کی تنقید سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے قدامت پسندی میں دوبارہ پناہ لے لی۔ علامہ عزت و شہرت کے اس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ وہ شاید اسے قربان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علامہ اجتہاد کی بات اس خود اعتمادی اور جرأت کے ساتھ آگے نہ بڑھا پائے جس کی ضرورت تھی۔ وہ دل برداشتہ یا خوف زدہ ہوکر فکری میدان سے آہستہ آہستہ ہٹتے گئے اور اپنی جگہ علمی طور پر کم مایہ اور فکری طور پر کم حوصلہ لوگوں کو میدان میں آنے کا موقع دیا اور یوں بالآخر اجتہاد کا تصور‘ جسے انہوں نے اصولِ حرکت کے طور پر پیش کیا‘ کوئی پیش رفت نہ کر سکا‘‘۔ (اقبال کا تصورِ اجتہاد‘ صفحہ120 تا 121)۔ کیا آپ کو اس تاثر سے اتفاق ہے؟
اس درخواست کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ آپ جلد جواب دیں گے کیونکہ آپ ہی ہیں جو اِن فکری الجھنوں کو دورکر سکتے ہیں۔ یا پھر راہنمائی کیجیے کہ آپ کے بعد کس کی طرف رجوع کیا جائے:
تُو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی!
والسلام... طالبِ دعا: آپ کا ایک روحانی فرزند‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved