پی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجا نے تینوں سروسز چیف کی تقرری کے دورانیے کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کے طریقۂ کار پر تو اظہارِ ناراضی کیا لیکن یہ کہتے ہوئے اسے تسلیم کر لیا کہ اب اسی کے ساتھ آگے چلنا ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے اسے انتظامی فیصلہ قرار دے کر اس تنازع سے اپنے آپ کو نکال لیا اور کہا: آرمی چیف کے عہدے کے دورانیے میں پہلے بھی اضافہ ہوتا رہا ہے‘ لہٰذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خان صاحب کا اصولی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مقتدرہ سیاست میں حصہ نہ لے اور اپنے فرائضِ منصبی تک محدود رہے بلکہ اُن کی خواہش یہ ہے کہ مقتدرہ اُن کے اقتدار کا تحفظ اپنی ذمے داری سمجھے۔ اُن کی گزشتہ اقلیتی حکومت میں اتحادیوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا‘ اُن کی ناز برداری کرنا اور روٹھے ہوئوں کو منانا اُن کا دردِ سر نہیں تھا‘یہ کام جنرل فیض حمید انجام دیتے تھے۔ بجٹ اور ضروری قوانین حتیٰ کہ ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دن میں پارلیمنٹ سے 33 قوانین پاس کرانا بھی انہی کی کرامت تھی۔ صادق سنجرانی پر عدمِ اعتماد کے لیے سینیٹ میں 64ارکان کھڑے ہوئے تھے‘ لیکن پھر خفیہ ووٹنگ میں وہ گھٹ کر 47رہ گئے‘ عالَمِ غیب کی یہ کارستانی کلیم عاجز کے اس شعر کا مظہر تھی:
دامن پہ کوئی چھینٹ‘نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
پس خان صاحب کا اصل شکوہ یہ تھا کہ مقتدرہ نے ان کی حکومت کو بچایا کیوں نہیں۔ آج اگر آرمی چیف اُن کے پشتیبان بن جائیں‘ تو شیر وشکر ہونے میں خان صاحب کو کوئی وقت نہیں لگے گا۔ اُن کا مطالبہ مقتدرہ سے وہی ہے‘ جو پہلے تھا‘ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اُن کے نزدیک اصل الاصول یہی ہے کہ مقتدرہ اپنا آئینی وقانونی فریضہ سمجھ کر اُن کے اقتدار کو تحفظ دے‘ سب گلے شکوے دور ہو جائیں گے۔ ہم ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کریں گے کہ انسان جلد باز ہے‘ کوتاہ بیں ہے‘ عاقبت نااندیش ہے‘ وقتی فائدہ اُس کے پیشِ نظر ہوتا ہے‘ لیکن مستقبل کے بطن میں کیا راز پوشیدہ ہے‘ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ انسان تو منصوبے بناتا رہتا ہے‘ فارسی کا ایک مقولہ ہے: ''تدبیر کند بندہ‘ تقدیر کند خندہ‘‘ یعنی: ہزاروں لغزشیں حائل ہیں‘ لب تک جام آنے میں‘‘۔ اس لیے ہم کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے‘ وہ اس کے فطری تقاضوں‘ فوری اور دیرپا مفاد کو سب سے بہتر جانتا ہے‘ اس لیے صرف اُسی کے بنائے ہوئے احکام وقوانین انسان کے دیرپا اور دائمی مفاد میں ہوتے ہیں‘ وقتی مصلحتوں کے تابع نہیں ہوتے۔ جب قوانین‘ اقدامات اور حکمتِ عملی کا ہدف اشخاص یا گروہ نہ ہوں‘ بلکہ ملک وملت اور قوم کا اجتماعی مفاد ہو تو آئے روز قوانین کو بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''اور انسان ہے ہی بڑا جلد باز‘‘ (بنی اسرائیل: 11)۔ (2) ''ہرگز نہیں‘ بلکہ تم جلد ملنے والی چیز (دنیاوی فائدے) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت (کے دائمی فائدے) کو چھوڑ دیتے ہو‘‘ (القیامہ: 20 تا 21)۔ (3) ''انسان بہت ہی جلد باز پیدا کیا گیا ہے‘‘ (الانبیاء: 37)۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''دور اندیشی اللہ کی جانب سے ہے اور جلد بازی شیطان کی جانب سے ہے‘‘ ( ترمذی: 2012)۔ (2) ''لغزشیں کھانے کے بعد ہی انسان میں بردباری آتی ہے اور تجربات سے گزرنے کے بعد ہی انسان حکمت ودانشمندی سے بہرہ مند ہوتا ہے‘‘ (ترمذی: 2033)۔ (3) ''اگر تم سمجھتے ہو کہ کسی بات کا انجام اچھا ہے تو کر گزرو اور اگر تم سمجھتے ہو کہ کسی بات کا انجام برا ہے یا اس میں خطرات ہیں تو اس کی طرف قدم بڑھانے سے رک جائو‘‘ (شرح السنہ للبغوی: 3600)۔
الغرض تدبیر وتدبر کے معنی ہیں: کوئی فیصلہ کرنے‘ کوئی قدم اٹھانے اور کوئی منصوبہ بنانے سے پہلے اُس کے انجام پر غور کرنا کہ اس کے ممکنہ فوائد اور نقصانات کیا ہو سکتے ہیں‘ کیا ان نقصانات سے بچتے ہوئے اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ وغیرہ۔ اسی لیے دستورِ پاکستان میں پارلیمانی کمیٹیوں کا تصور پیش کیا گیا ہے تاکہ ہر مسوّدۂ قانون پر متعلقہ کمیٹیوں میں غور کیا جائے‘ ضرورت ہو تو اس شعبے کے ماہرین سے رائے لی جائے‘ اگر بڑے پیمانے پر اسے قبولِ عام بنانا مقصود ہے‘ تو اسے مشتَہر کیا جائے تاکہ بعد کو پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مشہور ضرب المثل ہے: اب پچھتائے کیا ہووَت‘ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
یہ عاقبت نااندیشی صرف سیاستدانوں کا شیوہ نہیں ہے‘ بلکہ ہماری مقتدرہ اور عدلیہ کا بھی یہی شعار ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قانونِ بین الاقوام اور بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں مکمل آگہی نہ رکھنے کے باوجود عدلیہ نے رِکوڈک‘ کارکے رینٹل اور پاکستان سٹیل کی نجکاری جیسے معاہدات کو یکسر ردّ کر دیا اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ملک وقوم کی رسوائی ہوئی‘ جرمانے عائد کیے گئے‘ معافیاں تلافیاں کرنی پڑیں۔ لیکن یہ قیامت عالَمِ غیب سے نازل نہیں ہوئی تھی۔ فارسی کی کہاوت ہے: اے بادِ صبا! ایں ہمہ آوردۂ تُست۔ ترجمہ: اے نسیمِ سحری! یہ سب کچھ تمہارا لایا ہوا ہے۔ پس لازم ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور ان کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ فورم یا سپریم کورٹ کا بینچ ہونا چاہیے‘ جس میں اس شعبے کے ماہرین شامل ہوں‘ اسی طرح کی عاقبت نااندیشی ہم دریائوں کی تقسیم کے بارے میں بھارت کے ساتھ 1960ء میں ''سندھ طاس معاہدے‘‘ میں کر چکے ہیں۔ اب بھارت دریائوں پر ڈیم پہ ڈیم بنا رہا ہے‘ ہمارے حصے کا پانی روک رہا ہے اور جب اچانک سیلاب آئے تو اس کا بہائو ہماری طرف کر دیتا ہے اور پاکستان میں تباہی پھیل جاتی ہے‘ لیکن معاہدے میں جھول کی وجہ سے اس کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔ ماضی میں امریکہ کے ساتھ ساٹھ F16 جنگی طیاروں کی خریداری کا معاہدہ ہوا‘ ہم نے قیمت بھی پیشگی ادا کر دی‘ پھر امریکہ نے ہماری ادا کردہ رقم بھی روک دی اور جہاز بھی نہ دیے۔ اُن کے ہینگر میں عرصے تک کھڑے رکھنے کا کرایہ بھی پاکستان سے وصول کیا جاتا رہا‘ بعد کو اُس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو صاحبہ کی کوشش سے وہ رقم من پسند داموں پر اجناس کے بدلے میں وضع کر لی گئی۔
قرآنِ کریم میں جہنمیوں کے بارے میں ہے: ''اور (اے مخاطب!) کاش تو (اُس منظر کو) دیکھتا جب ان (کافروں )کو دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا اور اُس وقت وہ کہیں گے: کاش ہمیں دنیا میں واپس بھیج دیا جائے‘ تب ہم اپنے رب کی نشانیوں کو نہیں جھٹلائیں گے اور مومنوں میں سے ہو جائیں گے‘ بلکہ اُن پر اب وہ حقائق منکشف ہو گئے ہیں جن کو وہ پہلے چھپاتے تھے اور اگر وہ دنیا کی طرف لوٹا بھی دیے جائیں تو پھر وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں‘‘ (الانعام: 27 تا 28)۔
کہاجاتا ہے: عبدالملک بن مروان اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا‘ کسی قیافہ شناس نے اس سے کہا: اگر میں تمہیں بشارت دوں کہ تم بادشاہ بن جائو گے‘ تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟ عبدالملک بن مروان نے جواب دیا: اگر میں آپ کو کچھ انعام دے دوں تو کیا مجھے بادشاہت وقت سے پہلے مل جائے گی؟ اس نے کہا: نہیں! تو عبدالملک بن مروان نے جواب دیا: پھر آپ کو انعام دینے کا مجھے کیا فائدہ۔
ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کی روایت نہیں ہے‘ بلکہ ہم ہمیشہ اپنی غلطیوں کو دہراتے ہیں۔ حزبِ اقتدار جو غلطی کرتی ہے‘ وہ حزبِ اختلاف کے لیے اس وقت تک غلطی ہوتی ہے جب تک وہ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اُسی غلط کو اپنے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور اُسی کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ الغرض ہمارے ہاں چیزوں کو اقتدار اور اختلاف کی عینک سے دیکھا جاتا ہے‘ وقتی مفاد پیشِ نظر ہوتا ہے‘ ملک وملّت کا دائمی مفاد پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ اس لیے مسائل کا متفقہ‘مستقل اور دیرپا حل نہیں ہو پاتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved