تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-11-2013

’’اپنا‘‘ کے الیکشن اور ریما کی افراتفری

APPNA (اپنا) خالص پاکستانی حوالے سے امریکہ میں پاکستانیوں کی سب سے بڑی، منظم اور کسی حد تک بااثر تنظیم ہے۔ ’’اپنا‘‘ اس تنظیم کے پورے نام کا مخفف ہے۔ انگریزی میں اس کا پورا نام Association of Physicians of Pakistani Descent of North America ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور صحت و طب سے وابستہ افراد پر مشتمل اس تنظیم کے ارکان کی تعداد سترہ ہزار کے لگ بھگ ہے جو شمالی امریکہ میں نسلی بنیادوں پر قائم میڈیکل کے شعبے کی چند بڑی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ غیر منافع بخش یہ تنظیم 1976ء میں قائم اور 1977ء میں امریکی ریاست الی نوائے میں رجسٹرڈ ہوئی۔ یہ تنظیم انٹرنل ایوینیو کوڈ کے سیکشن (3)(C)501 کے تحت ٹیکس سے مستثنیٰ چیرٹی (خیراتی) آرگنائزیشن ہے جو میڈیکل کی تعلیم، تحقیق، سائنس اور صحت عامہ کے لئے رنگ، نسل، جنس اور مذہب سے بالاتر ہو کر اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر وہاں کی خوشحال ترین کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ ’’اپنا‘‘ سال بھر میں امریکہ کے مختلف حصوں میں میٹنگز کرتی ہے لیکن گرمیوں میں ہونے والی سالانہ کانفرنس ایک بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں اس کے ارکان بیوی بچوں سمیت شرکت کرتے ہیں۔ اس سالانہ اجتماع کے شرکا کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہو جاتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آنے والوں کے لئے انتظامات کرنا بڑا محنت طلب کام ہے۔ سالانہ اجتماع میں صرف میڈیکل سے متعلق سیشن ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ بہت بڑے تفریحی اور ثقافتی میلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کانفرنس کے لئے تین چار ہوٹل اور دس بارہ ہال بک کئے جاتے ہیں۔ کانفرنس میں جہاں میڈیکل سے متعلق تحقیقی مقالے پڑھے جاتے ہیں وہاں بچوں، نوجوانوں اور خواتین کے لئے علیحدہ علیحدہ تفریحی سہولتیں اور دلچسپی کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین کے لئے خریداری بازار لگایا جاتا ہے جہاں کپڑوں اور جوتوں سے لے کر زیورات تک کی خریدوفروخت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ خوشحال ڈاکٹروں کی بیگمات کا زیادہ زورخریداری پر ہوتا ہے۔ میں یہ ساری تفصیلات اس لئے بڑی سہولت سے لکھ رہا ہوں کہ میں ایک بار اس کانفرنس میں شرکت کر چکا ہوں۔ ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے ڈرامے، محفل موسیقی اور مشاعرہ اس کانفرنس کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ میں ’اپنا‘ کی 2010ء میں ہونے والی کانفرنس کے مشاعرے میں شرکت کے لئے سینٹ لوئس (ریاست مزوری) گیا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر حُسنِ انتظام اور سلیقے سے اہتمام کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے جسے ’اپنا‘ والوں نے بڑا آسان بنا دیا تھا۔ اس مشاعرے میں شرکت کی غرض سے پاکستان سے انور مسعود، امجد اسلام امجد، کشور ناہید اور میں گئے تھے۔ وہاں بہت سے جاننے والوں سے ملاقاتیں رہیں۔ مشاعروں کے حوالے سے امریکہ میں یہ میرا پہلا مشاعرہ نہیں تھا مگر سب سے بڑا مشاعرہ ضرور تھا۔ اس دوران وہاں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات رہی جو سب ڈاکٹر تھے‘ جن میں ڈاکٹر آصف ریاض قدیر، ڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹر نعیم کوہلی اور ملتان کے ڈاکٹر ہارون درانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر امان اللہ پنجابی کے بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے بین الاقوامی معیار کی فلم ’’ورثہ‘‘ بنائی تھی۔ اسی طرح ڈاکٹر نعیم کوہلی بھی‘ جن کا تعلق چیچہ وطنی سے ہے‘ بہت اچھے شاعر ہیں اور پاکستان سے آنے والے ہر دوست سے صرف کتابیں منگواتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر خود تو شاعر نہیں مگر شاعری اور ادب کے دلدادہ ہی نہیں بلکہ دیوانے اور مشاعروں میں داد دینے کے حوالے سے بڑے سخی ہیں۔ میرا ان سے پہلا تعارف ان کی ذات نہیں بلکہ کتاب کے حوالے سے ہوا تھا۔ انگلینڈ میں ایک دوست کے پاس ان کی ایک کتاب دیکھی۔ یہ شاعری پر مختلف انداز میں مرتب کی گئی تھی۔ کتاب کا نام تھا ’’نادر و نایاب اشعار‘‘ یہ کلاسیکل شعرا سے لے کر آج تک کے شاعروں کے بہترین اشعار کا منتخب مجموعہ تھا۔ اس میں کئی ایسے ضرب المثل اشعار تھے جو ہم اکثر استعمال تو کرتے ہیں مگر ہمیں شاعر کا نام معلوم نہیں ہوتا۔ کئی نامعلوم شعرا کے زبان زد عام اشعار اور بہت کچھ اس میں موجود تھا۔ پھر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ڈاکٹر آصف ریاض قدیر کی ’’منتخب مزاحیہ شاعری‘‘ اور ’’میرے پسندیدہ افسانے‘‘ نامی دو کتابیں دیں تو ڈاکٹر صاحب کے ذوق کی داد بھی دی اور ان کتابوں سے لطف بھی لیا۔ اردو کے اٹھائیس افسانہ نگاروں اور عالمی ادب سے آٹھ افسانوں کا انتخاب اس میں شامل تھا۔ لیکن سب سے بڑا اور منفرد کام ’’پنجابی شاعروں کا جدید تذکرہ‘‘ نامی کتاب ہے۔ چھ سو اکتیس بڑے سائز کے صفحات پر مشتمل اس کتاب میں بابا گرونانک سے لے کر آج تک کے تین سو سینتیس شعرا کا تعارف اور منتخب کلام شامل ہے۔ ایسا عالی شان کام کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں بجھارتیں، بولیاں، پنجابی محاورے، ضرب الامثال، لوک گیت، ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، سیف الملوک اور پورن بھگت جیسی منظوم روحانی داستانوں کا نثری ترجمہ بھی موجود ہے۔ میری ڈاکٹر آصف سے ان کی ادب دوستی کے طفیل ملاقات ہوئی جو ان کی کھلی ڈلی طبیعت اور ملنساری کے باعث جلد دوستی میں بدل گئی۔ ڈاکٹر آصف کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر ریاض قدیر کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عارف ریاض مولانا مودودی کے داماد ہیں جبکہ ان کی چھوٹی ہمشیرہ مولانا مودودی کے صاحبزادے حسین فاروق مودودی کی اہلیہ ہیں۔ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر سے میری دوستی محض پانچ سال پرانی ہے مگر یوں لگتا ہے کہ ہم بچپن کے دوست ہیں۔ میں جب بھی امریکہ جاتا ہوں، ہوسٹن کے قریبی ٹائون بومانٹ (BEAUMONT) میں اپنے دوست طاہر کے بڑے بھائی سرور جاوید سے ملاقات کے لیے ضرور جاتا ہوں۔ اس دوران ہوسٹن سے بومانٹ جاتے ہوئے یا آتے ہوئے ایک دن ڈاکٹر آصف ریاض قدیر کے پاس ضرور رکتا ہوں۔ ہوسٹن میں اپنے دوست رحیم یار خان والے عنایت اشرف عرف عیش بھائی اور اس کے بڑے بھائی عقیل اشرف سے سرائیکی بول کر دل کا رانجھا راضی کیا جاتا ہے۔ عیش بھائی کی اٹالین بیوی سے سرائیکی بولی جاتی ہے، شہر میں گھوما جاتا اور پاکستانی ادبی سرگرمیوں کے محور جمیل درانی کے ریسٹورنٹ ’’درانیز‘‘ میں جا کر کھانا کھایا جاتا اور وہاں کے نمائندہ ادیبوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ امریکہ میں میرے گنتی کے ذاتی دوست ہیں۔ لاس اینجلس کا شفیق، نیو یارک کا شوکت فہمی، ڈائوننگ ٹائون کا خالد منیر، اٹلانٹا کا اعجاز احمد، بومانٹ کا سرور جاوید اور ہوسٹن کا ڈاکٹر آصف ریاض قدیر۔ اور ہاں پٹس برگ میں میری تایا زاد سعدیہ اور اس کا شوہر طارق۔۔۔میرا کل امریکہ یہی ہے۔ پچھلے دنوں آصف ریاض قدیر سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں ’’اپنا‘‘ کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑ رہا ہوں اور اگر جیت گیا اور انشاء اللہ جیتوں گا تو پھر اس کے صدر کا الیکشن لڑوں گا۔ ابھی عیش بھائی کا فون آیا تو پتا چلا کہ وہ پاکستان میں آیا ہوا ہے۔ بتانے لگا کہ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر الیکشن جیت گئے ہیں۔ میں نے کہا: مجھے معلوم تھا کہ وہ جیت جائے گا۔ پھر اچانک عیش بھائی کہنے لگا کہ خالد! تمہیں پتا ہے ریما اچانک پاکستان سے امریکہ کیوں روانہ ہو گئی ہے۔ میں نے ہنس کر کہا عیش بھائی؛ مجھے ریما کی آمدورفت سے نہ پہلے کبھی آگاہی رہی ہے اور نہ اب ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی اس کے آنے جانے سے بیگانہ ہو گئے ہیں جو کبھی صرف آنے جانے کا حساب کیا کرتے تھے۔ عیش بھائی ہنس کر کہنے لگا: تمہارے دوست ڈاکٹر آصف ریاض قدیر نے ریما کے شوہر ڈاکٹر طارق شہاب کو الیکشن میں ہرایا ہے۔ ریما ایک وفادار بیوی کی طرح اپنے دل گرفتہ شوہر کی دل جوئی کے لئے عجلت میں امریکہ چلی گئی ہیں۔ میں نے عیش بھائی سے کہا کہ وہ فون بند کرے، اب مجھے آصف ریاض قدیر کو عجلت میں مبارکباد کا فون کرنا ہے۔ میری اور ریما کی افراتفری کی وجہ ایک ہی ہے۔ یعنی ’’اپنا‘‘ کے الیکشن کا نتیجہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved