تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     11-11-2024

فکر ِ اقبالؒ

علم اور فہم رکھنے والے ایسے لوگ‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اظہارکی صلاحیتیں دی ہوں یقینا اپنی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خطابت کی اور بعض کو نثر نگاری کی صلاحیتیں دی ہوتی ہیں جبکہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں شعر کہنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ حسنِ فطرت کے ساتھ ساتھ مرد وزن کی محبت شاعری کا ایک اہم موضوع رہا ہے اور اسی حوالے سے شاعر اپنی صلاحیتوں اور فن کا اظہار کرتے آئے ہیں لیکن کچھ شاعر اپنی اس صلاحیت کو بڑے مقاصد کیلئے استعمال کرتے اور قوموں کی تعمیر وترقی کیلئے شعر کہتے ہیں۔ ایسے شاعر کسی بھی عہد میں قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کا شمار ایسے ہی عبقری لوگوں میں ہوتا ہے جو شعر وسخن کی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو معمولی موضوعات کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اللہ کی توحید‘ نبی کریمﷺ کی رسالت‘ خلفائے راشدینؓ کے کارہائے نمایاں‘ اتحادِ امت‘ بیداریٔ ملت اور مسلمانوں کی عظیم تاریخ کی یاددہانی کیلئے بروئے کار لائے۔
علامہ محمد اقبالؒ فکری اعتبار سے پاکستان کے معماروں میں شمار ہوتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سیاسی محاذ پر پیش قدمی کی اور علامہ محمد اقبالؒ نے فکری محاذ کو سنبھالا۔ آپ عملی سیاست میں بھی سرگرم رہے اور خطبہ الہ آباد کے ذریعے ایک علیحدہ وطن کا تصور بڑی صراحت سے پیش کیا۔ آپ قیام پاکستان سے نو برس قبل ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے لیکن اس کے باوجود بانیانِ پاکستان کے طور پر آپ کا نام تاریخِ پاکستان میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ نے اپنی شاعری کے ذریعے ایمان اور عمل کی اہمیت کو اجاگر کیا اور لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف راغب کیا۔ جب علامہ کے شعر وسخن کے مختلف پہلوئوں پر غور کیا جاتا ہے تو ان کی فکر کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی دور اندیشی عطا کی تھی۔ جس انداز سے انہیں شرحِ صدر اور بلندیٔ فکر عطا کی گئی‘ اسی سطح کی بلندی کو وہ امتِ مسلمہ کے ہر فرد میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے وہ فرماتے ہیں: یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے؍ جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے؍ پھر وادیٔ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے؍ پھر شوقِ تماشا دے پھر ذوقِ تقاضا دے؍ محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے؍ دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
علامہ اقبالؒ اس بات کو بڑی اچھی طرح سمجھتے تھے کہ نبی کریمﷺ کی اتباع ہی عروج کا راستہ ہے اور اسی راستے پر چل کر مسلم امت ترقی کے مدارج طے کر سکتی ہے‘ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں؍ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آپ کے نزدیک خلفائے راشدین نے نبی کریمﷺ کی اتباع کیلئے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ چناچہ مختلف مقامات پر آپ خلافتِ راشدہ کے عظیم ستونوں کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی استقامت اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی للہیت آپ کی نظروں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے‘ چنانچہ فرمایا: تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے؍ دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے ؍ جگر سے وہی تیر پھر پار کر؍ تمنا کو سینوں میں بیدار کر
علامہ نے مسلم تاریخ کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا اور اس حقیقت تک پہنچے کہ مسلمانوں کا عروج مادیت سے وابستہ نہیں‘ بلکہ مسلمانوں کے عروج کی بنیاد ان کی خودداری اور غیرت تھی‘ قرونِ اولیٰ کے مسلمان مادی اعتبار سے کمزور تھے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو غیرت اور خودداری عطا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قیصرو کسریٰ کو مغلوب کرکے پوری دنیا پر اسلام کے جھنڈے کو لہرا دیا۔ علامہ اقبالؒ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں؍ پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
جب انسان خوددار بن جاتا ہے تو اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی غیبی تائید و نصرت حاصل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ زندگی کی راہوں کو اس کیلئے کشادہ فرما دیتے ہیں۔ خدا اور بندے کا یہ تعلق جس کی بنیاد مخلوق سے بے نیازی اور رب کی بارگاہ میں جھکنا ہے‘ اس کے نتائج کس انداز سے مرتب ہوتے ہیں‘ اس بارے علامہ فرماتے ہیں: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ؍ خدا بندے سے خود پوچھے‘ بتا تیری رضا کیا ہے
کئی مرتبہ نوجوانوں کو مادہ پرستی اور دنیا داری منزل سے ہٹا دیتی ہے‘ علامہ ہمیشہ نوجوانوں کیلئے شاہین کی مثال کو پیش کرتے رہے جو فضائے بسیط میں اڑتا اور نئی منازل کو سر کرتا ہے۔ اس کی نگاہ دنیا کی آسائشوں پہ نہیں ہوتی بلکہ سنگلاح چٹانوں کے اوپروہ اپنی زندگی کے ایام بِتا دیتا ہے۔ علامہ نوجوانوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر ؍ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
زندگی میں انسان کو بہت سے نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ لیکن باہمت لوگ جہدِ مسلسل سے کبھی نہیں گھبراتے۔ ان کے نزدیک منزل کا ملنا یا نہ ملنا غیر اہم ہوتا ہے‘ ان کو جدوجہد سے سروکار ہوتا ہے اور اسی جدوجہد میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے علامہ فرماتے ہیں: سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی؍ فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی ؍ بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند؍ سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند؍ سفر زندگی کے لیے برگ و ساز ؍ سفر ہے حقیقت‘ حضر ہے مجاز
علامہ اقبالؒ نے جہاں جدوجہد اور صبر کا درس دیا وہیں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو دین کی بنیاد پر مجتمع ہونے کی بھی تلقین کی۔ آج دنیا کا مسلمان مختلف قبائل میں تقسیم ہے اگر وہ دین پر مجتمع ہو جائے تو کفار اپنی تما م تر کوششوں کے باوجود ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔ علامہ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر؍ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی؍ اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار؍ قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری؍ دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں؍ اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
علامہ اقبالؒ کے نزدیک سیاست مذہب کا اہم جُز ہے اور آپ کسی بھی طور پر سیاست اور مذہب کی دوری اور جدائی کے قائل نہیں تھے۔ آپ نے امتِ مسلمہ کے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کو اس بات کا درس دیا کہ انہیں کسی طور دین و شریعت کو سیاست سے الگ کرنے کے فلسفے پر یقین نہیں رکھنا چاہیے۔ علامہ فرماتے ہیں: جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو؍ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
علامہ اقبالؒ کی فکر نے دو قومی نظریہ کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے چونکہ دین کو امت کی یکجائی کی بنیاد قرار دیا اور سیاست کو مذہب کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی بات کی تو اس نے برصغیر کے مسلم سیاسی رہنمائوں اور دانشوروں میں ایک نئی روح پھونک دی جس کی وجہ سے مختلف قبائل اور رنگ ونسل سے منسلک ہونے کے باوجود مسلمانوں میں ایک قوم ہونے کا احساس بیدار ہوا اور ان کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ سیاسی جدوجہد کو مذہب سے کسی بھی طور علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہی مسلمان جو اپنی منزل سے دور ہو چکے تھے‘ علامہ کی شاعری نے ان میں ایک نیا ولولہ‘ ایک نیا جوش وجذبہ پیدا کیا اور اسی جوش اور جذبے کے ساتھ مسلمانوں نے اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے نئے عزم کو اپنے اندر بیدار کیا اور چند عشروں کی متواتر جدوجہد سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
علامہ محمد اقبالؒ کی فکر آج بھی مسلم نوجوانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں علامہ اقبالؒ کی فکر سے مستفید ہونے توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved