پوٹھوار کا خطہ لاہور سے بہت دور ہے‘ سموگ کے اثرات مگر یہاں تک پہنچ چکے۔ راولپنڈی متاثرہ شہروں میں چوتھے نمبر پر رہا۔ ماحولیات کو جو خطرات درپیش ہیں‘ اور اس کے نتیجے میں انسانی زندگی جس کرب میں مبتلا ہے‘ اس کا احساس اس سطح پر موجود نہیں ہے جہاں ہونا چا ہیے۔
پوٹھوار کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ مارگلہ کے سرسبز پہاڑ‘ دریائے سواں کے دونوں اطراف زرخیز زمین اور اس میں لہلاتی فصلیں۔ معتدل موسم ۔ معلوم ہوتا ہے یہ سب چند برسوں کے بعد قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ جیسے نوحے لاہور کے لیے لکھے جا رہے ہیں‘ اسی طرح کے مرثیے یہاں کے ادیب و شاعر بھی لکھ رہے ہوں گے۔ 'ایک خطہ تھا عالم میں انتخاب‘۔ اس کالم کو بھی ایک مرثیہ ہی سمجھیں کہ ماحول کی بربادی کا آغاز ہو چکا اور یہ سفر سرعت کے ساتھ جاری ہے۔
دریائے سواں کبھی میرے گاؤں کے قرب میں بہتا تھا۔ میں نے بارہا اس کے نیلگوں پانی سے وضو کیا ہے۔ اب یہ گندگی کا نالہ بن چکا۔ راولپنڈی کی شہر کی غلاظت‘ اس کے پیٹ میں بھر دی گئی ہے۔ اس پہ مستزاد ماحولیاتی آلودگی۔ اس کے دونوں کناروں پر کبھی سرسبز و شاداب کھیت تھے۔ یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ ہم گاؤں سے لوٹتے تو کسی کنویں پر رک کر‘ کھیتوں سے گاجر‘ مولی‘ شلجم اکھاڑتے‘ چلتے رہٹ سے دھوتے اور کھاتے‘ صاف پانی پیتے‘ ماحول کی لطافت کو دل میں جمع کرتے اور خوشگوار احساس کے ساتھ اس شہر کا رخ کرتے‘ حالات نے جہاں کا اب مستقل مقیم بنا دیا ہے۔ اڈیالہ گاؤں سے منسوب میلوں تک پھیلی سڑک یہی منظر پیش کرتی تھی۔ روایتی طور پر یہاں سبزیاں اگائی جاتی تھیں یا پھر کیکر اور بیریوں کے درخت تھے۔ میرے بھائی بابر اعوان نے اس علاقے میں فارم ہاؤس بنایا تو مالٹوں اور دوسرے پھلوں کے درخت لگائے جو اب اللہ کے فضل سے پھل دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے گلاب کے پھول اور سٹرابیری بھی کامیابی سے اگائے ہیں۔ پراپرٹی کے کاروبار میں مگر جو فائدہ ہے‘ اس کا نشہ ماحول کی صحت سے جڑی سوچ پر غالب ہے۔
اب سواں سیمنٹ اور اینٹوں کے انبار میں گھر گیا ہے‘ زرخیز زمین جن میں کہیں کھو گئی ہے۔ آج اس کے دونوں کناروں پر پودے اور درخت نہیں‘ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اُگتی ہیں۔ مقامی لوگوں کی دیہی زمینوں کو برسوں پہلے زیادہ معاوضے پر خرید لیا گیا تھا۔ ان سادہ لوحوں کو اُس وقت اس سخاوت میں چھپا رازسمجھ نہ آ سکا۔ اب انہیں اندازہ ہو رہا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی زمین پلاٹوں کی صورت میں کتنے گنا زیادہ قیمت پر بک رہی ہے۔ زمین کی ہوس میں پھر جس طرح انسانی جانیں لی جاتی ہیں‘ یہ ایک الگ داستان ہے۔ یہ ایک سماجی المیہ بھی ہے جس پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے کلچر نے کس طرح کرایے کے قاتلوں کے گروہ پیدا کیے ہیں‘ یہ خطہ جن سے ناآشنا تھا۔
اسلام آباد کی طرف آئیں تو پہاڑ بہت سرعت کے ساتھ کٹ رہے ہیں۔ مری کا رُخ کریں تو ڈپریشن گھیر لیتا ہے۔ مارگلہ کے پہاڑوں کو تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے اور وجہ یہی ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں۔ پہاڑ زمین کی میخیں ہیں۔ اس کا حسن ہیں۔ فضا کو معتدل رکھنے میں ان کا غیر معمولی کردار ہے۔ ان پہاڑوں کی رگِ جاں پر چلنے والے خنجر کو روکنے والا کوئی نہیں۔ جب درخت اور پہاڑ نہیں رہیں گے تو یہ خطہ پوٹھوار بھی تپتے ہوئے ویرانے میں بدل جائے گا۔ جہاں سورج کی شعاعوں کو روکنے والا کوئی نہیں ہو گا جو زندگی کو اجیرن بنا دیں گی۔
یہ مسئلہ تین بڑے مسائل کا مجموعہ ہے: ہوسِ زر‘ آبادی اور بدانتظامی۔ یہ پیسہ کمانے کی بے مہار خواہش ہے جس نے اخلاقی حس کو برباد کر دیا ہے۔ لوگ اپنی سماجی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔ ان کو بس اس سے دلچسپی ہے کہ ان کی تجوریاں بھرتی رہیں۔ اس کے نتیجے میں پہاڑ کٹتے ہیں‘ زرخیز زمینیں برباد ہوتی ہیں‘ ان کی بلا سے۔ دوسری طرف آبادی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ چونکہ اس کا تعلق جہالت کے ساتھ ہے‘ اس لیے کم آمدن رکھنے والوں کے بچے زیادہ ہیں۔ ایک فطری نتیجے کے طور پر سماج میں وسائل کی تقسیم متوازن نہیں ہے۔ ایک طرف والد کے پاس دو لاکھ کا سرمایہ ہے جو دس بچوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف والد کی جائیداد دو کروڑ ہے جو دو بچوں میں منقسم ہو گی۔ اب اس میں قصور کس کا ہے؟
بدانتظامی یہ ہے کہ بڑھتی آبادی کے مسئلے کو مخاطب نہیں بنایا جا رہا۔ اس کے ساتھ روزگار کے اسباب و وسائل کا ارتکاز ہے۔ اب اگر عام آدمی سرکاری نوکری کو معراج سمجھتا ہے اور یہ نوکریاں صرف اسلام آباد یا لاہور جیسے بڑے شہروں میں موجود ہیں تو لازماً سب یہاں کا رُخ کریں گے۔ ساتھ ہی ہم نے کارخانے بھی انہی شہروں میں لگا دیے ہیں۔ گویا روزگار کے سب اسباب یہیں جمع ہو گئے۔ حکومتوں کو چاہیے تھا کہ روزگار کے مواقع کو مختلف مقامات پر تقسیم کر دیں اور نجی شعبے کو فروغ دیں تاکہ نئے شہر آباد ہوں۔ بڑے شہروں کی حد باقی نہیں رہی۔ اسلام آباد کو ٹیکسلا اور روات سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ اسلام آباد اور مری کے مابین پہاڑ حائل تھے۔ اب انہیں بھی تیزی کے ساتھ کاٹا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ماحول کا وہی حشر ہونا ہے جو ہو رہا ہے۔
ترقی کا جدید ماڈل بھی ماحولیات دوست نہیں ہے۔ بڑی بڑی سڑکیں‘ پل اور نتیجے میں شہر کا سارا ماحولیاتی منظر برباد ہو رہا ہے۔ لاہور ہو چکا۔ اب اسلام آباد کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے۔ ان دنوں بھی یہ شہر نئی سڑکوں کے نام پر ادھیڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کیا شک کہ ٹریفک کے مسائل ہیں۔ اس کا لیکن ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جس کی قیمت ماحول کی قربانی نہ ہو۔ ایک مسئلہ حل کرتے ہوئے اگر اس سے بڑا مسئلہ پال لیا جائے تو یہ کوئی حکمت نہیں‘ جو گورننس کی بنیادی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے اگر ماحولیات کے ماہرین کے مشورے سے سڑکوں کی توسیع کا منصوبہ بنایا جاتا تو شاید ہم کوئی بہتر حل تلاش کر سکتے۔
سموگ کا مسئلہ بتا رہا ہے کہ ہم نے ملک کے بنیادی مسائل کو مخاطب بنانے میں کیسی کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ غفلت اب انڈے بچے دے رہی ہے۔ دولت کمانے کی بے مہار ہوس‘ روزگار کے اسباب و وسائل کا زمینی ارتکاز اور بڑھتی ہوئی آبادی۔ ہم نے ان تینوں اسباب کے خاتمے پر کوئی تو جہ نہیں دی۔ ہوسِ زر کے نتیجے میں ہماری زرعی زمین پر سیمنٹ بجری کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے اور قدرت نے جو پہاڑ ماحولیاتی توازن کے لیے قائم کیے تھے‘ ہم نے ان کو برباد کر دیا۔ قانونِ فطرت کے ساتھ یہ وہ کھلواڑ ہے جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔
اس ملک میں کوئی کام ایسا بھی ہونا چاہیے جو وقتی سیاسی مصلحتوں سے بلندتر ہو۔ یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمان میں قومی نوعیت کے مسائل بھی زیرِ بحث آئیں۔ ہم کچھ اہداف مقرر کریں اور حکومتوں کی تبدیلی سے ماورا ان کے حصول کی کوشش کریں۔ ہر معاملے کو حقیر سیاسی مفادات کی نذر کر دینا‘ اخلاقی ذمہ داری سے روگردانی کرنا ہے۔ آخر ہم سب کو ایک اور عدالت میں بھی جواب دہ ہونا ہے جو بہرحال ایک دن لگنی ہے اور وہیں ہمارے بارے میں مستقل فیصلہ ہونا ہے۔ لازم ہے کہ ان تینوں مسائل پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہو اور اس کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی وضع ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved