تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     12-11-2024

افغان طالبان کی کوپ29 میں شرکت

حکومت معاشی بحالی اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے کوشاں ہے مگر اسے موسمیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان چیلنجز پر قابو پائے بغیر معاشی بحران پر قابو پانا آسان نہیں ۔وفاقی حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے مگر دہشت گردی کا ایک واقعہ ان کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے کے بعد اگرچہ ملک بھر کے ریلوے سٹیشنز پر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے تاہم پاکستان جیسے بڑی آبادی والے ملک میں ہر جگہ سکیورٹی ہائی الرٹ کرنا آسان نہیں ہے۔ مساجد‘ بازار‘ بس اڈے اور عوامی جگہیں دہشت گردوں کا آسان ہدف ہیں۔ اس لیے سکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی حکمت عملی بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک نے عوامی حمایت سے شدت پسندی کے چیلنجز پر قابو پایا ہے‘ ہمیں بھی ایسی ہی پالیسی اپنانا ہو گی۔ دہشت گرد بے گناہ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ جنگوں کی بات الگ ہے‘ پاکستان واحد ملک ہو گا جو دو دہائیوں سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ گزشتہ چار‘ پانچ برس میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں لیکن ہماری حکمت عملی سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا ۔ جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو حکام کچھ دنوں کیلئے متحرک ہوتے ہیں اور پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ جو قومیں حالتِ جنگ میں ہوں وہ معمولی سی غفلت بھی گوارا نہیں کر سکتیں۔ دو دہائی قبل جب دہشت گردی کے واقعات شروع ہوئے تو سب سے پہلے پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگے‘ مگر ان 20 برسوں میں پولیس فورس کی دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مناسب تربیت کیوں نہیں کی گئی؟ ہماری پولیس آج بھی روایتی طریقوں سے دہشت گردی کا مقابلے کر رہی ہے۔ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے پر روسی صدر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسی طرح چین نے بھی متعدد بار پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں روایتی طریقوں کو ترک کرکے‘ ٹیکنالوجی میں ماہر دوست ممالک سے جدید طریقے سیکھ کر اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں۔
افغان جنگ میں امریکہ کے ساتھ شرکت کے بعد ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہوئے۔ ہمیں یہ سمجھنے میں ایک عرصہ لگ گیا کہ یہ جنگ ہماری اپنی ہے یا پرائی۔ پچھلے عشرے میں اس پر خوب بحث ہوئی‘ اس دوران دہشت گردی کے خلاف جاری مہم میں ہماری پالیسی تبدیل ہوتی رہی۔ وہ عالمی قوتیں جن کے اتحادی کے طور پر ہم جنگ کا حصہ بنے تھے وہ خود تو افغانستان سے چلی گئیں مگر ہمیں اس اس خطرے سے نمٹنے کیلئے اکیلا چھوڑ دیا۔ اربابِ اختیارکو غور کرنا چاہیے کہ ہم نے اس جنگ سے کیا حاصل کیا؟ آج اگر بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے کتراتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ دہشت گردی ہے‘ جو عدم تحفظ کے خدشات کو ہوا دیتی ہے۔ جب تک اس آسیب سے مکمل طور پر جان نہیں چھڑا لی جاتی‘ عدم تحفظ کے چیلنجز موجود رہیں گے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کا ایک تو وہی روایتی طریقہ ہے جس پر ہم برسوں سے عمل پیرا ہیں‘ اس سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے یہ بھی محتاجِ بیان نہیں ہے جبکہ دوسرا طریقہ عالمی قوتوں کے تجربے اور ان کے تعاون کا حصول ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک ہی ملک کی طرف بار بار دیکھنے کے بجائے ہمیں متبادل آپشنز پر غور کرنا ہو گا بالخصوص ان ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا ہوں گے جو ہمیں مشکل وقت میں تعاون کی پیشکش کر رہے ہیں۔
معیشت سے جڑا دوسرا بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ 2022ء کے سیلاب نے ہمیں برُی طرح متاثر کیا۔ 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوگیا۔ سیلاب کے نتیجے میں جو انفراسٹرکچر تباہ ہوا اس کی تعمیر نو کیلئے خطیر لاگت کے ساتھ ساتھ طویل عرصہ درکار ہو گا۔ آج تقریباً آدھا ملک سموگ کی لپیٹ میں ہے حالانکہ چند برس پہلے تک ملک میں سموگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پاکستان عالمی برادری کے تعاون کے بغیر ان چیلنجز پر قابو نہیں پا سکتا ہے‘ سو دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی پاکستان شدید متاثر ہو رہا ہے۔ اس لیے اس عفریت کے خاتمے کیلئے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ پاکستان اس بار موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین چیلنج کے ساتھ کوپ 29 میں شرکت کر رہا ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کو اس کے وعدے یاد کرائیں‘ حکومت نے اس حوالے سے تیاری بھی کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس ہر سال روز افزوں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا اور ان سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے بڑے ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے‘ قابلِ تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے فنڈنگ فراہم کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے اجلاسوں میں دنیا بھر کے ممالک کے نمائندے‘ ماہرین اور سول سوسائٹی کے افراد شریک ہوتے ہیں۔ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والی تازہ ترین سائنسی دریافتوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں‘ نئی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر گفتگو کرتے ہیں اور مشترکہ فیصلے کرتے ہیں۔ پیرس معاہدہ اس عالمی فورم پر طے پانے والا ایک تاریخی معاہدہ ہے جس نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر ایک نیا راستہ فراہم کیا۔ اس معاہدے میں دنیا بھر کے تقریباً 200 ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ اس معاہدے میں موسمیاتی تبدیلی کو عالمی مسئلہ قرار دیا گیا مگر جب پاکستان جیسے ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پانچواں نمبر ہے‘ جبکہ افغانستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہ دیا اور ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کو مشکل کی اس گھڑی میں تنہا چھوڑ دیا تو عنقریب ترقی یافتہ ممالک بھی روز افزوں موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو افغان طالبان کو باکو میں ہونے والی کوپ 29 میں مدعو کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے۔ افغان طالبان کی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کوپ 29 میں شرکت ایک غیرمعمولی قدم ہے۔ طالبان حکومت کے‘ ابھی تک عالمی سطح پر تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود‘ اس کانفرنس میں شرکت کے کئی ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔ خشک سالی‘ سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق دیگر واقعات نے افغانستان کی معیشت اور لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ طالبان حکومت کی اس کانفرنس میں شرکت اس بات کی علامت ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے آگاہ ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کوپ 29 ایک عالمی فورم ہے جہاں افغانستان اپنی آواز بلند کر سکتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے اپنی ضروریات اور چیلنجز کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ افغانستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے بیرونی فنڈنگ کی اشد ضرورت ہے۔ طالبان حکومت کی اس کانفرنس میں شرکت اسے موسمیاتی فنڈنگ تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved