مولانا مودودیؒ کے حکم پر مجھے جنوری 1974ء میں مشرقی افریقہ کے ملک کینیا جانا پڑا۔ وہاں اسلامک فائونڈیشن نیروبی کے ڈائریکٹر کے طور پر بارہ سال گزارے۔ وہ جوانی کا بھرپور دور تھا جو اس براعظم میں گزرا اور پورے افریقہ اور خلیجی ممالک کے بیسیوں دورے کرنا پڑے۔ اس دور میں بعض بہت مشکل منازل بھی آئیں‘ مگر اللہ کا شکر ہے کہ ا حباب کی بہترین ٹیم اور اپنے تحریکی پس منظر کی وجہ سے کبھی بددلی اور مایوسی نہیں ہوئی۔ ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کئی سانحات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک بڑا سانحہ میری والدہ مرحومہ کی وفات تھی۔
میں ستمبر 1978ء میں اپنے معمول کے مطابق کینیا کے جزائر کے دورے پر تھا۔ کینیا کے یہ جزائر بہت خوبصورت سیاحتی مقامات ہیں اور سوفیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہیں۔ان میں سے دو اہم جزائر لامو (Lamu) اور پاتے (Pate) ہیں۔ یہاں دوستوں کا ایک بہت وسیع حلقہ قائم ہو گیا تھا اور ہر سال دو مرتبہ ان جزیروں میں میرے دعوتی و تربیتی پروگرام ہوتے تھے۔ ان دنوں یہ پروگرام لامو میں ہو رہے تھے جب مجھے اسلامک فائونڈیشن کے چیئرمین جناب حاجی محمد لقمان صاحب کا فون موصول ہوا۔ اس زمانے میں موبائل تو ہوتے نہیں تھے۔ انہوں نے لامو کے مختلف احباب سے رابطہ کرنے کے بعد معلوم کیا کہ میں کس ٹیلی فون نمبر پر دستیاب ہوں گا۔ جب ان کا ٹیلی فون آیا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ میرے بھائی میاں محمد یوسف نے پاکستان سے فون کر کے پیغام دیا ہے کہ والدہ محترمہ شدید بیمارہیں اور لاہور میں فاطمہ میموریل ہسپتال میں داخل ہیں‘ آپ جتنی جلدی ممکن ہو سکے‘ پاکستان پہنچیں۔
دوستوں کے مشورے سے میں سب پروگرام کینسل کر کے کشتی کے ذریعے خشکی (Main Land) پر آیا اور وہاں سے بس پر سوار ہو کر ممباسا پہنچا۔ ممباساسے بذریعہ ہوائی جہاز نیروبی آیا اور اس دوران ممباسا سے نیروبی ٹیلی فون کر کے اپنے دوست ٹریول ایجنٹ برادرم سیف الدین کو پیغام دیا کہ میری جلد ازجلد بکنگ جس روٹ سے بھی ممکن ہو‘ نیروبی سے لاہور کروا دیں۔ نیروبی واپس پہنچ کر اگلا سفر شروع ہوا۔ نیروبی سے ممبئی‘ ممبئی سے کراچی اور کراچی سے لاہور‘ میں تقریباً 24‘ 25گھنٹے میں لاہور پہنچ پایا۔
یہاں پہنچ کر سب سے پہلے 5 اے ذیلدار پارک میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کی۔ ان کو پہلے ہی سے پوری صورتحال کا مکمل علم تھا۔ انہوں نے میری والدہ کی صحت کے لیے خصوصی دعا کی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میں نے حسین کی اہلیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ آپ کی بہنوں کے ساتھ باقاعدہ ہسپتال میں جا کر آپ کی والدہ کی خبرگیری کیا کریں۔ یہ سن کر میں نے دل کی گہرائیوں سے مولانا کا شکریہ ادا کیا۔
مولانا کے بیٹے جناب حسین فاروق مودودی کی اہلیہ بھی ڈاکٹر تھیں اور ‘ پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ مشہور ڈاکٹر ریاض قدیر کی بیٹی تھیں۔ مولانا سے ملاقات کے بعد میں سیدھا ہسپتال پہنچا۔ والدہ مرحومہ سے ہسپتال میں ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ وہ بہت زیادہ کمزور ہوگئی ہیں۔ ان کو کینسر کا مرض لاحق تھا جو آخری مراحل میں پہنچ چکا تھا۔ میری بہنیں اور بھائی سب لاہور آ چکے تھے۔ والدہ کمزوری کے باوجود مجھ سے مل کر خوش ہو گئیں۔ انہوں نے مجھ سے میری خیروعافیت دریافت کی تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ مائیں کتنی ہی تکلیف میں ہوں وہ اپنے بچوں کا اپنے سے زیادہ خیال رکھتی ہیں۔
میں نے یہ دو تین دن رات کا بیشتر وقت والدہ محترمہ کے پاس ہسپتال ہی گزارا۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں ہم سبھی شدید پریشان تھے۔ آخر ایک ماہر لیڈی ڈاکٹر نور جہاں (یا شاید نیلوفرنام تھا)‘ نے مجھے کہا کہ آپ میرے آفس میں آئیں۔ یہ لیڈی ڈاکٹر بہت اچھی طبیعت کی مالک تھیں اور مریضوں کا پوری فرض شناسی کے ساتھ خیال رکھتی تھیں۔ میں ان کے دفتر میں پہنچا تو انہوں نے بڑی ہمدردی سے کہا کہ آپ کی والدہ اس وقت جس کیفیت میں ہیں‘ اس میں کوئی علاج ممکن نہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ ان کو گھر لے جائیں اور جس قدر خدمت کر سکیں‘ وہ کریں۔ میں کچھ دوائیاں بھی لکھ دیتی ہوں جن سے ان کے درد میں افاقہ ہو گا اور نیند بھی آ جائے گی۔
میں نے اپنے بھائی اور بہنوں کو یہ بات بتائی تو فیصلہ یہی ہوا کہ گھر چلے جائیں۔ مولانا مودودیؒ کو پتا چلا تو انہوں نے مرکزِ جماعت سے گاڑی کا اہتمام کیا اور ہم لوگ والدہ محترمہ کے ساتھ ایک رات منصورہ میں چودھری صفدر علی صاحب کے ہاں قیام کرنے کے بعد اگلے روز گائوں روانہ ہو گئے۔ ایک ایک لمحہ قیامت سے کم نہیں تھا‘ مگر دل کو سکون تھا کہ میں دور دراز سے سفر کر کے اپنی جنت کے قدموں میں پہنچ گیا ہوں۔ چار دن گھر میں قیام رہا۔ لالہ موسیٰ سے ڈاکٹر شریف الدین‘ جو رکنِ جماعت بھی تھے‘ کو بلوایا اور انہوں نے ایک دو دن کے لیے کچھ ٹیکے تجویز کیے۔
بہرحال علاج تو بیماری کا ہوتا ہے‘ موت کا تو کوئی علاج نہیں۔ ہم سب والدہ کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ یہ عیدِ قربان کا روز تھا‘ میں نے صبح غسل کیا اور والدہ مرحومہ سے مل کر ان کا ماتھا چومنے کے بعد عرض کیا: '' بے بے جی! میں نماز کے لیے جا رہا ہوں‘‘۔ تو سر ہلا کر فرمایا: ٹھیک ہے۔ ہم نماز سے ابھی فارغ ہوئے ہی تھے کہ گھر سے بہنوں کے رونے کی آواز آئی۔ ہمارا گھر مسجد کے ساتھ ملحق ہے اور مسجد کی طرف جانے آنے کے لیے ایک کھڑکی بھی رکھی ہوئی تھی۔ ہم سب عزیزو اقارب گھر کی طرف آئے‘ مریضہ دنیا کی تنگنائیوں سے نکل کر آخرت کی وسعتوں میں اطمینان کے ساتھ سوئی ہوئی تھیں۔ بہنیں بھی اب خاموشی کے ساتھ ذکر اور تلاوت کر رہی تھیں‘ اگرچہ سب کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں۔
میرے ماموں جان حافظ غلام محمد اور میں چارپائی کے پاس بیٹھ کر کچھ دیر تک تلاوت کرتے رہے۔ پھر خواتین کی آمد شروع ہوئی تو ہم مردوں کی جانب چلے گئے اور وہ کمرہ اور برآمدہ خواتین سے بھر گیا۔ یہ 1398ھ کی عید قربان بمطابق 11نومبر 1978ء ہفتے کا روز تھا۔ والدہ مرحومہ کا جنازہ اسی روز بعد نمازِعصر پڑھا گیا اور قبر میں دفن کرتے ہوئے سب نے محسوس کیا کہ ایک عجیب اور نہایت خوشگوار خوشبو سے پورا ماحول معطر ہے۔ قبر کھودنے والے نوجوانوں نے بتایا کہ جب سے ہم قبر کھود رہے تھے‘ مسلسل یہ خوشبو آ رہی تھی۔ گورکن برادرم منظور موچی مرحوم اور پھر تدفین کے بعد قبر میں اینٹیں لگانے والے مستری جناب غلام محمد مرحوم کئی دن تک اس خوشبو کا تذکرہ کرتے رہے۔ اللہ میری والدہ مرحومہ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔انہی کی تربیت نے ہمیں دین کے راستے پر چلنے کے قابل بنایا۔ والدہ مرحومہ کے یہ الفاظ کبھی نہیں بھولتے کہ ہر شخص کو اپنی قبر میں جانا ہے‘ اسے دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے۔
ماہِ نومبر 1978ء میں میری والدہ 61 سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس وقت میری عمر 33 سال تھی۔والد محترم سات نومبر 2007ء کو 89 سال کی عمر میں دارِ فانی سے دارالبقا کو سدھار گئے۔ میری عمر اس وقت 62 سال تھی۔ اب منتظر ہوں کہ کب دربارِ ربانی سے بلاوا آئے اور اپنے والدین کے قدموں میں جا بیٹھوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان کے ساتھ اپنے پاس بلائے۔ دوستوں سے بھی دعائوں کی درخواست ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved